ایک انگریز سیاح جنوبی فرانس میں بلند وبالا پہاڑی پر چڑھ رہا تھا کہ راستے میں اسے ایک سبزی فروش ملا جو گاڑی میں جتے ہوئے گدھے کو ہانک رہا تھا مگر گدھا تھا کہ بمشکل چند قدموں کا فاصلہ طے کرتا اسے چڑھائی پر وزن لے کر چڑھنا مشکل ہورہا تھا اور بمشکل قدم اٹھا رہا تھا۔
سیاح نے ایک ہاتھ سے سبزی فروش کی گاڑی کو دھکیلناشروع کیا اور اس کی مدد سے وہ بہت جلد پہاڑی کی چوٹی پر پہنچ گئے۔ وہاں پہنچ کر سبزی فروش نے سیاح کا شکریہ ان الفاظ میں ادا کیا۔ ” میں جناب کا بے حد ممنون ہوں۔ دراصل صرف ایک گدھے کی مددسے یہاں تک پہنچنا ممکن نہ تھا۔“
بیان کردہ لطیفہ سیاسی حوالے سے ہرگز نہیں ہے۔ اصل میں وطن عزیز جس مقام پر پہنچ چکا ہے اس میں کسی ایک کا قصور نہیں ہے بلکہ بطور قوم اس میں ہم سب شامل ہیں۔ بدقسمتی یہ بھی رہی کہ قائداعظم کے بعد ہمیں کوئی ڈھنگ کا لیڈرہی نصیب نہ ہوا۔ سیاست، کاروبار بن گئی، سیاست کامیابی اور متمول ہونے کی سیڑھی بن گئی جو بندہ پیسے لگا کر اسمبلی میں پہنچتا ہے اسے دوگنا واپس کمانے بھی ہوتے ہیں سو سیاست میں ”خدمت“ کا تصورتک ختم ہوگیا ہے۔ نعرے کے طورپر البتہ خدمت کا لفظ خوب استعمال ہوتا ہے۔ پی ٹی آئی میں بھی یہی چلن ہونا تھا۔ مان لیا وزیراعظم عمران خان دیانت دارہیں انہیں قوم کا درد بھی ہے مگر وہ اکیلے کچھ کرتے دکھائی نہیں دیتے؟۔ان کے ساتھ وہی پرانی ٹیم ہے جو سیاست کی سکرین پر ہمیشہ کسی نہ کسی صورت جلوہ گر رہتی ہے، یعنی اگر وہ پیسہ خرچ کرکے سیاست میں آئے ہیں تو انہیں بھی دوگنا کی واپسی درکار ہے۔ سو عمران خان کی آرزو پوری ہونا مشکل ہے تاوقتیکہ وہ اپنی ساری ٹیم نئی لے کر آئیں مگر یہ ہے کارِ دشوار۔ ….
ان دنوں میں بیشتر وزراء”اللہ میاں کی گائے “ کی مانند سیدھے سادے ، دکھائی دیتے ہیں ان سب کے بیانات آپس میں نہیں ملتے، آپس میں بھی گتھم گتھا رہتے ہیں، سب سے اہم وزارت تو ”اطلاعات ونشریات“ ہوتی ہے کہ اسی نے میڈیا پر حکومت کا امیج بنانا ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے پی ٹی آئی کا یہ حصہکافی کمزور رہا ہے، پہلے فواد چودھری نے یہ وزارت چلائی اور اپنے انداز میں چلائی کام تو انہوں نے بھی کوئی قابل ذکر نہیں کیا البتہ ہروقت سکرین پر دکھا دیئے اور حکومت کے امیج بلڈنگ کی بجائے حریفوں کے لتے لینے شروع کردیئے۔ فیاض چوہان تو ان سے بھی دوہاتھ آگے نکلے اور ”زباں دراز“ کا عوامی خطاب پایا۔ اب پنجاب کی وزارت اطلاعات میں تو ”بزداری رنگ“ لیے کوئی وزیر موجود ہیں مگر وہ اپنے شعبے یا وزارت سے کچھ زیادہ خوش نہیں لگتے۔ کہیں دکھائی نہیں دیتے وفاق میں فردوس عاشق اعوان ہیں جو اطلاعات کا محکمہ دیکھتی ہیں مگر انہیں اپنی وزارت کے بارے میں کسی قسم کی کوئی اطلاع نہیں کہ وہ کیا کررہا ہے۔
وطن عزیز اس وقت درد سے دوچار ہے میرپور آزاد کشمیر اور ملحقہ علاقوں میں زلزلے نے تباہی مچادی ہے۔ بہت سے افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ، سڑکیں اور عمارات کھنڈر محسوس ہورہی ہیں حیرت ہے کہ اس زلزلے کی خبر وزیر اطلاعات کو نہیں تھی۔ وہ بے دھیانی میں زلزلے کے سوال پر، اسے بھی تبدیلی قرار دے رہی تھیں ، کہتی ہیں زمین نے کروٹ لی ہے“ ….
شاید انہیں اندازہ نہیں تھا کہ کس قدر تباہی ہوئی ہے جسے وہ تبدیلی کہہ رہی ہیں۔ اب تک وہ کئی بار تردید کرچکی ہیں کہ یہ بیان آف دی ریکارڈ تھا۔ آف دی ریکارڈ بھی اس المناک صورت حال پر اس طرح کا بیان نہیں دیا جانا چاہیے تھا، اب وہ جو مرضی کہیں، زلزلہ کبھی بھی تبدیلی کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ اور خاص طورپر جب انسان زندہ دفن ہو جائے عمارات زمیں بوس ہوجائیں، سڑکیں کھنڈر بن جائیں تو اسے ”تبدیلی“ قرار نہیں دیا جاسکتا۔
وزیر محترمہ کو اپنی گفتگو خود بھی سننے کی عادات ڈالنی چاہیے کہ انہیں خبر ہو کہ وہ کیا کہہ رہی ہیں۔
عوام اور حکومت کو متاثرین زلزلہ کی بھرپور مدد کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہم پر اپنا کرم فرمائیں۔
(بشکریہ: روزنامہ نئی بات)
فیس بک کمینٹ