کیا اچھا فقرہ لکھا پروفیسر فرخ محمود نے کہ :”بُت بن کر بیٹھنے والوں پر بُت ہی خدا بن کر حکومت کرتے ہیں “۔اس جملے کی تشریح کی چنداں ضرورت نہیں۔
ہم بے حسی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ ایک روز مرددرویش کی محفل میں دریافت کیا یہ انسان بے حس یعنی احساس سے عاری کیوں ہو جاتا ہے؟
فرمایا : اس کے روز وشب پر غور کرو، اس کی خوراک سے پتہ چل جائے گا۔
مجھے مختلف جانوروں کے گوشت پر لکھاہوا ایک آرٹیکل یاد آگیا کہ گدھے کے گوشت کا استعمال ’بے حسی“ جنم دیتا ہے یعنی اگر گدھے کا گوشت کوئی کھانے لگے تو وہ احساس سے عاری ہو جاتا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
ہم نے اسی زندگی کو سب کچھ سمجھ لیا ہے، ہمیں مرنا ”بھول گیا ہے ۔موت کے بارے میں جانتے بوجھتے ہم سمجھتے ہیں ابھی بہت وقت پڑا ہے۔
ہم روزہ رکھ کر ملاوٹ شدہ مال بیچتے ہیں، غلط بیانی کرکے رزق حاصل کرتے ہیں ، دوسروں کا حق چھین کر، فریب سے جائیداد بناتے ہیں اور پھر اس پیسے سے عمرے اور حج کرکے مطمئن ہو جاتے ہیں کہ سب گناہ دھل گئے ہیں۔
ایسا ہرگز نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاں تو معمولی سی لالچ کے لیے بھی ہم اپنے ضمیر مجروح کربیٹھتے ہیں۔
اگلے روز سبی سے ہمارے شاعر دوست ندیم نیازی تشریف لائے۔ یہ ان کی محبت کہ انہوں نے ہمارے ”کلیات“ کراچی سے خریدے لاہور آئے تو وہ کچھ اور کام بھی تھے مگر ساتھ ہی ہمارا مجموعہ لائے اور کہا ”اسے میرے نام لکھ کردستخط کردیں “۔
پھر انہوں نے اردو بازار سے ہماری ایک اور کتاب ”جی بسم اللہ“ ہمارے سامنے رکھ دی کہ ذرا اس پر بھی دستخط کردیں۔
کتاب دیکھی تو وہ پروفیسر ریاض شیخ کے نام لکھی ہوئی تھی۔
میں نے کہا بھئی کیا فٹ پاتھ سے خرید لائے ہو ۔؟
ندیم نیازی نے بتایا : نہیں جناب یہ کتاب خرید کر لایا ہوں۔ ارسلان احمد ارسل نے نعتیہ کانفرنس کے باہر کتابوں کی سیل لگارکھی تھی میں نے جہاں دیگر کتب خریدیں آپ کی ”جی بسم اللہ“ بھی خریدلی۔
مجھے سارا واقعہ یاد آگیا کہ یہ کتاب اپنے دوست ارسل کے والد پروفیسر ریاض شیخ کے لیے لکھ کر اسے دی تھی۔ شیخ صاحب تک وہ کتاب نہ پہنچی البتہ ”لوٹ سیل“ میں آگئی اور میرے سامنے دوبارہ آگئی۔
میں نے دوسری بار یہ کتاب یارعزیز ندیم نیازی کے نام لکھ کر پیش کردی۔
ہمارے ایک اور پروفیسر صاحب ہیں ان کے ہاں یونیورسٹی میں وائیوا لینے جائیں تو وہ رشوت کی طرح مٹھی میں ایک لفافہ تھما دیتے ہیں۔ ایک بار ہم نے ”وائیوا“ لینے جانے والے دوسرے پروفیسر صاحب سے دریافت کیا کہ وائیوا لینے کا اعزازیہ کیا ملتا ہے تو ہم حیران ہو گئے۔ وہ ہمیں پیش کیے جانے والے اعزازیے سے زیادہ تھا گویا انہوں نے ہر ممتحن کا الگ ” اعزازیہ“ طے کررکھا ہے۔
ہم تو ہربار محبت میں چلے جاتے ہیں ورنہ بخدا ہمارا یہ ”شوق“ نہیں نہ ہی الحمدللہ رب العزت نے اب کوئی حرص باقی رہنے دی ہے۔
مقصد یہاں بیان کرنا یہ ہے کہ ہم پڑھے لکھے لوگ بھی بعض کسی کسی معمولی کوتاہیوں میں اپنے باطن کے سافٹ ویئر کو خراب کرلیتے ہیں۔
دل میں حسد، کینہ، بغض، لالچ حرص سب دل کے کمپیوٹر کے لیے وائرس ہی تو ہے ساری قوم میں دانشور، تخلیق کاروں اور مذہبی رہنماﺅں سے لے کر صحافی، تاجر، اینکر ، سرکاری غیر سرکاری ملازمت میں اہم افرادتک سبھی انہی امراض کا شکار ہوں توقوم میں احساس کیسے پیدا ہوسکتا ہے اور ہم اچھے حکمران کہاں سے لائیں گے۔ ہمیں رزق حلال کا خیال بھی کیسے آسکتا ہے ۔
گفتگو ہم ادب کی چند نئی کتب کی طرف سے لے جانا چاہتے تھے مگر ….شہزاد نیر کا شعر ہی سن لیں ۔
دولت شہرت خواہش لالچ شوق عقیدہ
اپنی مرضی کا پنجرہ بنواسکتے ہو
(بشکریہ: روزنامہ نئی بات)