پروفیسر ،شعبہ صحافت کی کلاس سے : ایک لائٹ بلب کو بدلنے کے لیے کتنے سیاستدان درکار ہوتے ہیں ؟
طالب علم : سر دو سیاستدان
پروفیسر: وہ کیسے ؟؟
طالب علم : ” سر ایک سیاست دان نیا بلب لگانے کے لیے اور دوسرا وہاں پرانا بلب واپس لگانے کے لیے:“
درج بالا گھسا پٹا پرانا لطیفہ ہے مگر اس میں گہری بات پوشیدہ ہے اس میں ہمارے سیاستدانوں کی نفسیات پر گہری چوٹ کی گئی ہے۔ موجودہ سیاسی صورت حال پر غور کریں تو یوں دکھائی دیتا ہے کہ پی ٹی آئی والوں سے بھی حکومت چلانا دشوار تر ہوتا جارہا ہے۔
ابھی تک کابینہ مختلف شعبوں میں ترقی و تبدیلی کے لیے پالیسیاں بنانے میں مصروف ہے۔ لوگ حیران ہیں۔ اتنا پیسہ اکٹھا ہونے کے باوجود بھی عام لوگوں کو کوئی ریلیف نہیں مل رہا۔ کابینہ میں بیٹھے ہوئے عمران خان کے نادان اور کسی حدتک ”نابالغ“ وزراءخود ہی اپنی حکومت کے خلاف بیان دیتے رہتے ہیں۔ چند روز قبل فواد چودھری فرمارہے تھے: کوئی ملازمت نہیں ملنے والی ….حالانکہ جلسوں اور تقاریرمیں کروڑوں نوکریوں اور گھروں کے وعدوں پر انہیں ووٹ ملے تھے اب فواد چودھری اپنے بیان کی وضاحتیں فرمارہے ہیں کہ ملازمتوں سے مراد یہ ہے وہ ہے وغیرہ وغیرہ جبکہ وزیراعظم نے بھی انہیں صرف اتنا ہی کہا :کہ ”آپ کو مایوسی کی باتیں نہیں پھیلانا چاہئیں“۔ ان دنوں تو دھرنا حکومت پر سوار ہے۔ وزراءکو اور کوئی کام ہی نہیں ہے۔
عمرانی حکومت کو ڈھنگ کا کوئی ترجمان یا وزیر اطلاعات تک نصیب نہیں ہوا۔ سیالکوٹ کی بزرگ خاتون کسی نہ کسی ٹی وی سکرین پر ہروقت دکھائی دیتی ہیں صرف تنقید کے لیے۔ کل تک موجودہ حکومت کے حمایت کرنے والے بھی پی ٹی آئی سے خاصے مایوس ہوچکے ہیں۔ اگر احتساب کا عمل ہی مکمل ہو جاتا تو عام آدمی سکھ کا سانس لیتا کہ چلو پچھلے تیس برسوں سے قوم کو لوٹنے والوں کو سزا مل گئی ہے۔ لوٹی ہوئی دولت واپس آگئی ہے مگر عام آدمی کا جینا دشوار ہوگیا۔ ٹریفک کا نظام ہی سیدھا نہیں ہورہا ۔ لاہور میں اورنج ٹرین کے لیے جہاں کا م رکا تھا وہیں رکا ہوا ہے۔ ادھر پہلے سے زیادہ لوگ ٹیکس دے رہے ہیں۔ نیب والے بھی چند لٹیروں سے مال واپس لے چکے ہیں۔ یہ درست ہے ابھی بہت سا کام ہونا باقی ہے یکساں نصاب تعلیم کی باتیں ہورہی ہیں مگر کچھ واضح دکھائی نہیں دیتا، علم دانش سے تو پچھلی حکومتوں کا بھی کوئی تعلق نہ تھا۔ مگر موجودہ وزیراعظم تو کتابیں پڑھنے والے ہیں۔ لیکن تاحال علمی ادبی ثقافتی اداروں میں سربراہ تک نہیں لگائے جاسکے۔ یونیورسٹیوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ کتاب اور اس سے جڑے کاروبار کا براحال ہے کاغذ مہنگا کردیا گیا ہے۔ عدالت کی طرف سے سکولوں کی فیسوں میں کمی کرنے کا فیصلہ آیا ابھی تک اس پر عملدرآمد نہیں کرایا جاسکا۔ عملدرآمد کرانا تو حکومت کا فرض ہوتا ہے مگر ایسے لگتا ہے حکومت کی رٹ ہی نہیں۔ ان دنوں عام آدمی کیا سوچتا ہے ؟ عمران خان کو کچھ علم نہیں۔ وزیراعظم کے اردگرد اس کے اپنے احباب اور کچھ خوشامدیوں کا گھیرا دکھائی دیتا ہے۔ پانچ سات روز بعد جب کوئی مسئلہ سارے سوشل میڈیا تک پھیل جاتا ہے تو وزیراعظم کو خبر ہوتی ہے کہ ان کی حکومت میں یہ کچھ ہوگیا ہے، پھر تردید یں اور وضاحتیں شروع ہو جاتی ہیں۔ البتہ اپنے قریبی دوستوں کو حکومت اچھی اچھی ملازمتوں پر لگائے جارہی ہے ،کیا یہ قناعت پسند حکومت ہے ؟؟
حضور ،لنگر بھی کھولیں مگر آٹا، چینی، دالیں اور دیگر خوردنی اشیاءبھی سستی کریں کہ لوگ خود اپنے گھروں میں پکا کر کھائیں۔ تندوروں کا تجربہ تو شہباز شریف بھی کرچکے ہیں۔ اگر کوئی اچھا کام پچھلی حکومت نے کیا ہے تو اسے بھی جاری رہنے دیا جائے۔ ہر روز ملازمتوں کے اشتہار آتے ہیں اور لاکھوں روپے درخواست جمع کرانے کے اکٹھے کرلیے جاتے ہیں مگر تقرری کے مراحل نہیں آتے۔ کیا یہ بھی بھتہ خوری نہیں ہے ؟ بے روزگاری سے درخواست برائے ملازمت کے ساتھ ہزاروں روپے بٹور کر انہیں انتظار کی سولی پر لٹکا دیا جاتا ہے سکولوں، کالجوں سے لے کر ایف آئی اے، پولیس اور دیگر کئی سرکاری محکموں میں درخواستیں وصول کرنے کے باوجود لوگ ملازمتوں کے منتظر ہیں۔ اور آپ ہیں کہ ….
آپ سے ایک مولانا صاحب قابو نہیں آتے۔ سڑکوں اور راستوں کو بند کرنے والوں کو بھی نتھ ڈالیں۔ ان جلسے جلوسوں اور پروٹوکول کے باعث عام آدمی کس قدر متاثر ہوتا ہے کبھی کسی ٹریفک کے ہجوم میں آکر تو دیکھیں؟…. ہم نے وسیم اکرم پلس کو چاٹنا ہے ؟ اس کی تربیت تک پنجاب برباد ہوجائے گا۔
خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک
(بشکریہ: روزنامہ نئی بات)