ایک پلمبر نے ذرا سی دیر میں نل درست کر کے نوجوان وکیل صاحب کو اپنا بِل تھما دیا۔ بل دیکھ کر وکیل صاحب چراغ پا ہوگئے۔ تین سو روپے فی گھنٹہ ! خدا کی پناہ ۔۔۔۔ ”میں تو دن بھر میں بھی اتنی رقم نہیں کماتا“۔
” تم ٹھیک کہہ رہے ہو؟ پلمبر نے نہایت خلوص سے جواب دیا۔ وکالت میں میرا بھی یہی حال تھا۔ لیکن اب خدا کا شکر ہے۔“ آج کل کے بعض نوجوان وکلاءکچھ ایسے ہی ہیں جن کی وکالت کم ہی چلتی ہے۔ وہ زیادہ تر سیاست کرتے ہیں یا پھر پولیس کے ”فرنٹ مین“ بن جاتے ہیں حالانکہ اس سے کہیں بہتر ہے کہ ایسے نئے وکلاءکو پلمبر کا کام زیادہ مفید ہوسکتا ہے۔
اگلے روز دل کے ہسپتال ”پی آئی سی “ پر باقاعدہ ”نیک ارادے“ کے ساتھ ڈاکٹروں کو سبق سکھانے کی کوشش کی گئی۔ سینئر سیاستدان اور وکیل چودھری اعتزاز احسن نے درست کہا ہے کہ لاہور میں ہزاروں وکلاءمیں سے تین سو کی تعداد میں وکلاءنے قانون ہاتھ میں لے کر تمام وکلاءکو شرمندہ کیا۔
بات درست ہے کہ قانون کے بیٹے تو قانون کے پہریدار ہوتے ہیں پھر ذاتی جھگڑوں میں اپنی انا کا مسئلہ بنا کر ایک جتھے کی شکل میں پلاننگ کے ساتھ ویڈیو بنا کر ‘ دھمکیاں دیتے ہوئے ڈاکٹروں پر حملہ آور ہونا کہاں کی دانشمندی ہے۔ وکیلوں اور ڈاکٹروں کو پڑھا لکھا قرار دیا جاتا ہے۔ یہ معاشرے کے ذمہ دار لوگ ہوتے ہیں مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہماری درس گاہوں میں تعلیمی اور تربیتی مراحل میں کہیں بہت سی کجیاں کمیاں اور کوتاہیاں موجود ہیں جس کی وجہ سے بطور خاص نوجوان نہایت غیر ذمہ دار ، جذباتی اور جلد باز ثابت ہو رہے ہیں۔ انہیں ذرا سی بات پر غصہ آجاتا ہے برداشت کی قوت ختم ہو رہی ہے۔ تعلیم و تدریس بھی کمرشل ہو چکی ہے۔ کوٹھیوں اور چند کمروں پر مشتمل کمروں میں یونیورسٹیاں بنی ہوئی ہیں جہاں سے اسی طرح کے گریجویٹ برآمد ہو رہے ہیں۔
سوشل میڈیا اور چوبیس گھنٹے انٹرنیٹ کی سہولت نے ہمیں ہر وقت موبائل کا قیدی بنا دیا ہے۔ نوے فیصد سے زائد نوجوان ٹچ موبائیل سے چپکے دکھائی دیتے ہیں۔ ہماری خوراک ہی نہیں آب و ہوا بھی خالص نہیں رہی۔ گدھے، مینڈک اور کتے کا گوشت تک کھلایا جا رہا ہے۔ جس کے اثرات سے بیماریاں تو پھیل رہی ہیں ایسی خوراک سے بے جسی ، بے غیرتی، غصہ ، جھنجھلاہٹ اور جذباتیت جنم لے رہی ہے۔ لوگوں میں حوصلہ برد باری ، برداشت ، عنقا ہو چکے ہیں۔ ٹریفک کے نظام سے سارے معاشرے کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اور گورننس اور قانون پر عمل درآمد کرنے والے اداروں کا حال بھی نہایت ناگفتہ بہ ہے۔ ڈاکٹروں اور وکلاءکی اس جنگ میں قیمتی جانوں کے علاو ہ ہسپتال کا نقصان بھی ہوا ہے۔ دل کے مریضوں اور ان کے تیمارداروں پر تشدد اور توڑ پھوڑ سے کیا ثابت ہوتا ہے؟۔ کسی ڈاکٹر کی ویڈیو سے مشتعل ہو کر جلوس کی شکل میں ایک ہسپتال پر حملہ آورہونا کہاں کی شرافت ہے؟ قانون دانوں کو اس ڈاکٹر کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنی چاہئے تھی اس طرح ینگ ڈاکٹرز بھی اکثر اپنے مطالبات کے لئے سڑکیں بلاک کر کے احتجاج کرتے ہیں اور ٹریفک کو نشانہ بناتے ہیں۔ وکلاءبھی یہی کچھ کرتے ہیں ذرا سی بات پر ہڑتال کی کال دے کر سڑکیں بند کر دیتے ہیں۔ ان سے تو خود ججز بھی محفوظ نہیں۔ کالا کوٹ ، ”بدمعاشیہ“ کی علامت بنتا جا رہا ہے۔ سینئر وکلاءکو اپنے ضابطے بنانا ہوں گے۔ قانون کی ڈگریاں بانٹنے کی اجازت گلی گلی میں کھلی نام نہاد یونیورسٹیوں کو نہیں ہونا چاہئے۔ اب تو ہر بی اے پاس نوجوان اگر کچھ نہ بھی کرے تو چند گائیڈیں پڑھ کر وکیل بن جاتا ہے اور پھر اپنی کچہری لگا لیتا ہے۔ اب تو بعض وکیلوں کے جتھے صرف اور صرف اسی قسم کی سیاست اور احتجاجوں کے لئے وقف ہو کر رہ گئے ہیں۔
اگلے روز دل کے ہسپتال کی توڑ پھوڑ ڈاکٹرز اور عوام پر تشدد کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر دنیا بھرنے دیکھی۔ ہم تو حیران ہیں وکلاءکے جلوس کو ہسپتال تک کھلم کھلا تشدد کے عزائم کے ساتھ ہسپتال تک کیسے آنے دیا گیا؟ کیا پولیس بھی ان کا ساتھ دے رہی تھی؟۔ یہ نئے آئی جی کے اثرات ہیں؟ ہمیں تو یہ سارا تماشا دیکھ کر گلو بٹ یاد آ گیا۔۔۔ اس سانحے میں ملوث افراد کو سخت سزا دی جائے گی تو شاید ایسے واقعات کا تدارک ہو سکے مگر لگتا نہیں۔ ساہیوال کے واقعہ کو سامنے رکھا جا سکتا ہے۔ قانون دانوں کو کون سا قانون سزا دے گا؟۔ اکبر الہ آبادی کا شعر بلا تبصرہ قارئین کی نذر
پیدا ہوا وکیل تو شیطان نے کہا
لو آج ہم بھی صاحب اولاد ہو گئے
فیس بک کمینٹ