”ٹھنڈے میٹھے پانی کے ایک کنویں میں کتا گر گیا۔
کچھ ”سیانے“ اکٹھے ہوئے اور انہوں نے کہا کتنی بری بات ہے۔ کتنا اچھا کنواں تھا۔ اس کا کچھ سوچا جائے۔
پھر بڑی سوچ بچار کے بعد فیصلہ ہوا کہ کنویں میں گرے کتے کو دوسرے کتے سے بدل لیا جائے۔ “
ایک اور افسانچہ ملاحظہ ہو:
”آج یکم مئی کو میں یہ دعا مانگتا رہا کہ کہیں مزدوروں کو پتا نہ چل جائے کہ یہ ان کا دن ہے۔
شکر ہے انہیں پتا نہیں چلا “۔
”نصیحت“ بھی آپ کی نذر
”حضرت کوئی نصیحت فرمائیے!
”دنیا کی دولت ادھر ہی رہ جانی ہے۔ ساتھ جائیں گے تو بس اعمال “
جی حضرت جی !!
”عطیات اور ہدیہ کا بکس دروازے کے ساتھ رکھا ہے۔“
ایک جھلک ”حلال“ کی دیکھئے!
کہاں سے لائے ہیں ؟“
”……………………“
اوہ ۔ معاف کیجئے گا۔ معذورہوں۔ میں اسے آپ کے لیے ذبح تو کرسکتا ہوں حلال نہیں کرسکتا ۔“
خواتین وحضرات ! یہ ہمارے شاعر اورکہانی کار محمد جاوید انور کا ”مائیکرو فکشن “ ہے۔
اکیسویں صدی کے انسان کے پاس سب کچھ ہے بس وقت نہیں ہے۔ سویہ طویل کہانیوں اور افسانوں کا دور نہیں ہے۔ لوگ جلدی میں ہیں۔ کسی کے پاس مسکرانے کے لیے بھی وقت نہیں۔
مصری شاعر کی نظم کی سطریں یاد آرہی ہیں :
”میں پتھر اور شیشے سے بنے شہر میں ہوں
جہاں انسانوں، گرمی اور غبار کے سوا کچھ نہیں
یہاں کوئی باغ نہیں
شہر کے مکیں، غبار اور گرمی میں سانس لیتے ہیں
ہمیشہ سفر میں رہتے ہیں
وہ چپ چاپ بس اپنے کام سے مطلب رکھتے ہیں
اگر کوئی بات کرنی ہوتو وہ ایک دوسرے سے صرف اور صرف وقت پوچھتے ہیں :
”آپ کے پاس ٹائم کیا ہوا ہے؟“
محمد جاوید انور نے کم الفاظ خرچ کرکے بہت زیادہ مفاہیم اور گہرے مشاہدے کو مدنظر رکھا اور اپنا تخلیقی سفر چپ چاپ جاری رکھا۔ اب بھی یار لوگ اگر کہتے ہیں کہ جاوید انور ادب میں نوارد ہیں۔ تو یہ نامناسب بات ہے۔
پہلے پہل میں شاعر جاوید انور سے متعارف ہوا۔ مسرت ہوئی کہ ان پر کسی اور شاعر کا سایہ نہ تھا ورنہ تو شاعری میں بھی ساری عمر مرشد کا جاپ کرنا پڑتا ہے۔
جاوید انور کی کہانی بیانیہ لگتی ضرور ہے مگر اس پر علامت کے قفل پڑے ہوئے ہیں۔ ذرا غور کرنے پر کہانی ہم پر منکشف ہوتی ہے اور جب قاری مشاہدے کا حظ اٹھاتا ہے تو انگشت بدنداں ہوجاتا ہے۔
بھلا ایک بالکل نیا نیا ادب میں وارد ہونے والا اس قدر منجھا ہوا تخلیق کار کیسے ہوگیا ؟اصل بات یہ ہے کہ جاوید انور کالج کے دنوں سے کہانیاں لکھ لکھ کر کسی گھڑے میں ڈالتے رہے ہیں آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے کہانیوں کا اچار بہت برس پہلے ڈالا تھا اب وہ اچار تیار ہوگیا ہے۔ اور اس کی خوشبو قاری کو حیران وپریشاں کررہی ہے۔
سچ کہا حمید شاہد نے جاوید انور صاحب کو اپنی بات کہانی میں ڈھالنے کا ہنر آتا ہے۔
آپ نے شروع میں جاوید انور کے افسانچے ملاحظہ کیے۔ جس طرح ہائیکو نگار اپنے تین مصرعوں میں ایک خوبصورت امیج تراشتا ہے، جاوید انور وہی کام اپنے افسانچے سے لیتے ہیں۔
میں تو بعض کہانیوں کی زبان تراش خراش اور فکری ارتعاش سے دنگ ہوں کہ بظاہر ایک جدید دور کا آسودہ حال اور پڑھا لکھا شخص کس طرح اپنے مشاہدات کو تصویر کردیتا ہے۔ صرف ”دروازہ “ کھول کر دیکھئے:
”صبح نکلتا ہوں تو دورتک پیچھے بچوں اور ان کی ماں کی آوازیں آتی ہیں۔
کتاب نہیں، کاپی نہیں، فیس نہیں، وردی نہیں اور یہاں تک کہ گھی نہیں، شکر نہیں، دال نہیں، دودھ نہیں۔
سائیکل بھگاتا ہوں کہ دور نکلوں تو آوازیں کم ہوں لیکن بھن بھناہٹ دفتر تک ساتھ جاتی ہے اور دن بھر گاہے گاہے دفتر میں بھی آپہنچتی ہے ۔ یہ آوازیں ہولناک تصوراتی ہیولے بن کر یوں میرے پیچھے لگ جاتی ہیں جیسے باؤلے کتے۔“
”سرکتے راستے“ کیا کیا دکھاتے ہیں چند جملے ملاحظہ ہوں
”پھر سرکنڈے کی جھاڑیاں چھدری ہونا شروع ہوگئیں، جہاں وقفہ آتا کھیت نظر آتے، کٹ چکی گندم کے ڈنٹھلوں والے کھیت، خالی کھیت کہ بیوگی جن پر نوحے پڑھتی۔ گرم سرسراتی آوارہ ہوا میں پوہلی کے اکھڑ چکے جھنجھناتے خشک زرد پتے دوڑے دوڑے پھرتے۔
جاوید انور کی کہانیوں میں فطرت کے استعارے جابجا بکھرے ہیں۔
”ہاں یاد آیا کبھی آک کا پتہ ٹوٹتا دیکھا ہے تم نے۔ دودھ دھاریں بن کر امڈتا ہے مجھے تو لگتا ہے کہ یہ آک بھی کوئی کوکھ جلی دکھی ماں ہے، ویرانوں میں خجل خوار،
خواتین وحضرات ! میں جاوید انور کے برگد کے سائے میں بھی کچھ دیر سستایا تھا۔ یہ کہانیاں برگد کا تسلسل ہیں جہاں راستے پاﺅں سے سرک سرک جاتے ہیں۔ ایک افسانے کا ایک جملہ اب بھی آنکھوں سے چپکا ہوا ہے۔ آپ بھی دیکھئے:
لڑکیوں کے دھوکر بالکونیوں میں سکھانے کے لیے لٹکائے کپڑوں میں کئی مردانہ دل ٹنگے رہتے۔ تفریحی دورے اور گانوں کے کورس، کبھی الوداع نہ کہنا۔“
ہرکہانی میں ایسے ہی دلگداز جملے تلخ وشیریں موضوعات پڑھنے والے کو قدم قدم پر چونکاتے ہیں۔ جاوید انور نے سیدھی سادی کہانی میں بھی ایک نادیدہ جلیبی والے چھلے ”جیسا“ ول “ رکھا ہوتا ہے جسے وہی کہانی پڑھنے والا محسوس کرسکتا ہے جو کہانی کے دروازے میں داخل ہونے کا ہنر جانتا ہے۔ بیشتر کہانیوں کا ماحول مضافات سا ہے لیکن کہیں کہیں انتہائی جدید انداز شہروں کی تیز رفتار زندگی کی جھلکیاں بھی مزا دیتی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہر کہانی میں جاوید انور خود بھی ایک سائے کی طرح کرداروں میں گھومتے دکھائی دیتے ہیں۔
میں کہانی کی طرف کالم کے دروازے سے آیا ہوں۔ زندگی بھی افسانہ ہے اور مجھے حقیقت کو افسانہ بنانے میں لطف آتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جاوید انور کی کہانیاں بھی میرے اندر سانس لیتی دکھائی دیتی ہیں۔ ان میں ہمارا آج ” دھڑکتا نظر آتا ہے۔ میں جاوید انور کو ”آج“ کا نہایت تروتازہ اور توانا تخلیق کار کہہ سکتا ہوں ۔
دعا ہے ان کے تخلیقی انوار زندہ وجاوید رہیں
گزشتہ روز جاوید انور کے افسانوی مجموعے کی تقریب میں پڑھا گیا۔
(بشکریہ: روزنامہ نئی بات)
فیس بک کمینٹ