” فٹ پاتھ “ پیدل چلنے والوں کے لیے ہے مگر بڑھتی آبادی کے سبب اب فٹ پاتھ لوگوں کے مستقل سونے کی جگہوں میں شمار ہونے لگے ہیں۔ ہم نے دلّی میں فٹ پاتھوں پر لوگوں کو اپنے بستر لگاتے دیکھا ہے اور یہ کسی ایک جگہ نہیں بلکہ طویل سڑکوں کے کنارے فٹ پاتھوں پر لوگ سوئے دیکھے۔ سنا ہے ممبئی میں اس سے بھی زیادہ صورتحال گھمبیر ہے۔ ہمارے ہاں تو فٹ پاتھوں پر لوگ سوتے تو کم ہیں مگر فٹ پاتھوں پر بازار سجے نظر آتے ہیں۔ آپ کسی بھی شہر میں چلے جائیں لوگوں کے پیدل چلنے کی جگہوں پر ریڑھیاں لگی ہوئی ہیں۔ ٹھیلے والے اپنی دکانیں سجائے بیٹھے ہیں۔ کھانے پینے کے اسٹال بھی فٹ پاتھوں پر بنے نظر آتے ہیں۔ پی ٹی آئی کی حکومت کو سو دن ہوئے ہیں ان ایام میں کچھ نہ کچھ تبدیلیاں اپنی ابتدائی شکل میں دکھائی دینے لگی ہیں۔ ناجائز تجاوزات ختم کرنے کے لیے آپریشن کا سلسلہ ملک بھر میں شروع ہو چکا ہے۔ یوں فٹ پاتھوں کو واقعتاً پیدل چلنے والوں کے لیے خالی کرایا جانے لگا ہے۔ سب سے زیادہ اطمینان بخش بات یہ ہے کہ بے گھروں کے لیے بھی سوچا جانے لگا ہے۔ ہمارے ہاں فٹ پاتھوں کی جگہ پارکوں اور خالی پلاٹوں میں سونے والی کی بھی کمی نہیں۔ یہاں دوسرے شہروں سے آئے مزدور ، غریب دیہاڑی دار اور بعض بھکاری یا بے آسرا لوگ شام کو خالی پلاٹوں فٹ پاتھوں پر راتیں گزارتے ہیں۔ ہمارے کئی شعراءنے بھی اِس بے گھری کو موضوع بنا رکھا ہے۔ بیدل حیدری کا شعر تو بہت مشہور ہوا
فٹ پاتھ پر قیام مسلسل کے باوجود
میں کیسے مان لوں کہ مرا گھر کبھی نہ تھا
ایک اور شعر بھی یاد آگیا ہے۔ شاعر کا نام یاد نہیں آرہا۔
میں شب کے دریچے پہ کھڑا سوچ رہا ہوں
فٹ پاتھ پہ سوئے ہوئے کس ماں کے جنے ہیں
پارکوں اور فٹ پاتھوں پر لوگ سوئے ہوئے تو دیگر حکمرانوں نے بھی دیکھے ہوں گے کہ یہ کوئی نیا ایشو نہیں لیکن عمران خان اس حوالے سے سبقت لے گئے ہیں کہ انہوں نے کھلے آسمان تلے سونے والوں کا درد محسوس کیا اور ان کے لیے شیلٹرز ہوم بنانے کا آغاز کر دیا ہے۔ گرمیوں میں تو یہ بے آسرا لوگ کھلے آسمان کو شامیانہ سمجھ کر سو جاتے ہیں مگر سردی آتے ہی ان کے لیے مصیبت کا ایک نیا دور شروع ہو جاتا ہے۔ پی ٹی آئی نے اچھا کیا ایسے بے گھر اور بے آسرا افراد کے لیے ” پناہ گاہیں“ تعمیر کرنا شروع کر دی ہیں۔ پناہ گاہوں کی تعمیر میں تو وقت لگے گا مگر سردی کا آغاز ہو گیا ہے۔ ہمارے یہاں لاہور میں چار پانچ جگہوں پر شیلٹرز ہوم بنانے کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ اسٹیشن ، داتا دربار ، سبزی منڈی اور ٹھوکر نیاز بیگ پر فی الحال شامیانے لگا کر عارضی شیلٹرز ہوم بنا دیئے گئے ہیں۔ یہاں اِن شامیانوں میں بستر لحاف گدے اور تکیے ہی نہیں تین وقت کا کھانا بھی فراہم کرنے کا بندوبست کیا گیا ہے۔ دوسرے شہروں سے آئے ہوئے بے آسرااور بے گھر لوگ جو رات کو جہاں جگہ ملے سو جاتے تھے اب اِن عارضی پناہ گاہوں میں نرم بستروں پر رات بسر کر سکیں گے اور اُنہیں ناشتہ دوپہر اور رات کا کھانا بھی ملے گا۔ بڑے بڑے منصوبے اور لاکھوں گھروں کی تعمیر اپنی جگہ مگر فی الوقت انسانوں کو مشکلات سے نکالنا ضروری ہے۔ عارضی پناہ گاہوں کی طرح کے چھوٹے چھوٹے اقدامات سے غریب مفلوک الحال اور بے آسرا لوگوں کی داد رسی کا فوری حل اسی طرح ممکن ہے ۔ انہی عارضی ” عافیت گاہوں “ میں اگر ان لوگوں کے علاج معالجے کا انتظام بھی ہو جائے تو حکومت کو مفلسوں کی طرف سے مزید دعائیں ملیں گی یہ سلسلہ دیگر شہروں تک پھیلنا بھی ضروری ہے۔ یہ تو خیر حکومتی سطح پر اقدامات ہیں اور پی ٹی آئی عام لوگوں کے لیے کچھ نہ کچھ کر گزرنے کا تہیہ کیے ہوئے ہے۔ اگر ہمارے علمائے دین مساجد کے امام صاحبان اور مساجد کمیٹیوں کے ممبران پر مسجد کے ارد گرد کے تیس چالیس گھروں کا ڈیٹا تیار کر کے اور ان گھروں کے افراد کی خبر گیری رکھیں کہ یہاں کون کون کس حالت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ اِن گھروں میں کھانا پکتا ہے یا نہیں سردیوں اور گرمیوں میں اِن کے مسائل کیا ہیں؟ بچے پڑھنے جاتے ہیں یا نہیں، اِن کے کپڑے جوتے سکول کی کتابیں فیس پوری ہو رہی ہیں یا نہیں۔ ہر مسجد اپنے اطراف کے چند گھروں کی مالی کفالت اور ان کے مسائل کے لیے کوئی اپنی مدد آپ کے تحت چندہ جمع کر کے ہر ماہ انہیں ان کی ضروریات سے بے نیاز کر دے تو اندازہ لگائیں کتنے بے بس اور مفلس گھرانوں کا بھلا ہو سکتا ہے۔ اس طرح مساجد سے غریبوں کی کفالت کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ ہم مساجد میں چندہ جمع کرتے ہیں مساجد پر بھی خرچ کرتے ہیں امام مسجد کی تنخواہ اور بجلی کے بلوں کے اخراجات کے لیے بھی مدد کرتے ہیں اگر اسی میں سے کچھ عام لوگوں کی امداد بھی شروع ہو جائے تو حکومتی امداد کے بغیر بھی اپنے لوگوں ( محلے داروں ) کا خیال رکھ سکتے ہیں۔ دین میں دوسروں کو آسانیاں بانٹنے کی تلقین کی گئی ہے۔ مگر ہم نے تو مسجدوں کو بھی فرقہ واریت اور سیاست کا اکھاڑہ بنا کر رکھ دیا ہے۔ دوسروں کو کافر کہنے کی روایت ختم کر کے انسانوں کی فلاح اور بھلائی کا سوچا جائے دوسروں کو دکھ دے کر ، دل آزاری کر کے ہم اپنا ایمان مضبوط نہیں کر سکتے ہیں۔ اگر علمائے دین وطن عزیز کو مدینہ کی ریاست بنانے کی سوچ رکھتے ہیں تو حکومت کے غریبوں مسکینوں کے لیے کئے گئے اقدامات میں ہاتھ بٹائیں۔ اللہ تعالیٰ کو خوش کرنے کا یہی طریقہ ہے کہ اس کے بندوں کو دکھ اذیت نہ دیں بلکہ ان کے کام آئیں۔
کرو مہربانی تم اہل زمیں پر
خدا مہربان ہوگا عرشِ بریں پر
(بشکریہ: روزنامہ نئی بات)
فیس بک کمینٹ