ہمارے پسندیدہ شاعر نصیر احمد ناصر اپنی نظم کے ایک اقتباس میں کہتے ہیں :
”ہم ایک بیضوی گھماؤ میں چلتے چلتے
تھک گئے ہیں
کہانی کار!ہمیں بتاؤ!
کہانی اور کتنی دُور جائے گی؟
کیا زندگی سے بڑا بھی کوئی بیانیہ ہے ؟
جسے لکھنے کے لیے
ساری دنیا داؤ پر لگی ہوئی ہے
اس سے پہلے کہ کسی جنت نواز خودکش دھماکے سے
کہانی کے ٹکڑے اُڑ جائیں
ہمیں کہانی سے باہر نکلنے کا راستہ تلاش کرلینا چاہیے !!“
محسوس یہ ہوتا ہے نصیراحمد ناصر نے یہ سطریں ہماری آج کی سیاسی صورت حال پر لکھیں۔ شاعر بعض اوقات وقت سے قبل ایسی باتیں کہہ جاتا ہے کہ وہ منظر نامہ مستقبل میں ہماری نگاہوں کے سامنے آجاتا ہے ۔
علامہ اقبال ؒ نے فرمایا تھا :
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں
محوحیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی
پاکستان پر اللہ کا خاص کرم ہے کہ اب تک یہ دشمنوں کی نظروں میں کانٹے کی طرح کھٹک رہا ہے مگر ان شاءاللہ اس کا کوئی بال بیکا نہیں کرسکتا ۔ ہمیں خطرہ چاروں طرف سے ہے لیکن ہمیں جب بھی کوئی نقصان پہنچا وہ اندرونی دشمنوں سے پہنچا۔ ہمارے ہاں جو بھی حکمران آیا خاص طورپر قائداعظم اور لیاقت علی خان کے بعد، اس نے وطن عزیز کا خون ہی چوسا۔ ہمارے آج کے بیشتر سیاستدان بھی وطن اور عوام سے بس زبانی خدمت کا اظہار کرتے ہیں۔ اصل میں تو سبھی پاکستان کو ”چراگاہ“ سمجھتے ہیں۔ سبھی صرف مال بنانے کے لیے، سیاست کا رُخ کرتے ہیں۔ اقتدار اور اثرورسوخ سے اپنا اور اپنے عزیز واقارب کے تعیش کا سامان کرتے ہیں۔ وطن سے ہمدردی کس کو ہے؟ انسان تو وہ ہے مرتا مرجائے وطن کی سالمیت و بقا اور ناموس پر حرف نہ آنے دے۔ مگر اب تک تو باریاں ہی لگی دیکھی گئیں۔ اور ہر سیاسی جماعت جو حکومت میں رہی، اپنی اپنی توفیق کے مطابق اس نے پاکستان کا خون چوسا ۔جی بھر کے کرپشن کی، مال بنایا، تجوریاں بھریں، جائیدادیں بنائیں اور ملک سے باہر بینک بیلنس میں اضافہ کیا۔ اور دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ عوام کی خدمت کے نام پر کیا گیا۔
موجودہ حکومت مسلم لیگ نون کی ہے جواب اپنی آخری سانسیں لے رہی ہے اور انہیں وطن عزیز کی خدمت کے کئی مواقع میسر آئے۔ لگ بھگ پنجاب میں تو میاں صاحبان پچیس تیس برسوں سے ”سیاہ وسفید“ کے مالک رہے ہیں۔ اگر یہ کچھ کرنا چاہتے تو اب تک پنجاب کی حالت ہی بدل چکی ہوتی۔ یہ اب بھی چوتھی بار عوام کے ترلے کررہے ہیں کہ انہیں پھر موقع دو یہ بجلی کا مسئلہ حل کردیں گے، پانی صحت تعلیم اور روزگار کے مسائل حل کریں گے ۔ ہوا کیا ہے؟ کچھ بھی نہیں اس وقت حکومت نام کی کوئی شے نظر نہیں آتی۔
جب سے مسلم لیگ آئی ہے اسے اپنی بقا کی فکردامن گیر ہے کہ کم ازکم دس بیس برس انہیں موقع مل جائے سنجیاں گلیاں ہوں کوئی ڈر اور خوف نہ ہو۔ اگر اپوزیشن ہو بھی تو اس سے بھی ”مک مکا“ کرکے اگلی باری تک اسے خاموش کراکے ساتھ ملا لیا جائے۔ بقا کے چکر میں میاں نواز شریف ہر بار فوج سے الجھ پڑتے ہیں۔ اس بار تو فوج نے بھی صبر کی حدکردی ہے۔ جتنا پراپیگنڈہ آرمی کے خلاف میاں نواز شریف کی حکومت میں ہوا اتنا شاید پیپلزپارٹی کے دور میں نہیں ہوا۔
میاں صاحبان نے حکومت کرنے کا گُر سیکھ لیا تھا کہ بیوروکریسی کو ساتھ ملاؤ۔ میڈیا کو خریدو ججز کو بھی خریدلو، اب تک ان کا بس نہیں چلا کہ وہ فوج کو بھی خرید سکتے۔ اس سلسلے میں مسلم لیگی حکومت اب تک ہر حیلہ کررہی ہے مگر اس بار تو ان کی دال نہیں گلنے والی…. انہیں یقین نہیں آرہا کہ آخر کو ایک دن پانسا پلٹ بھی جاتا ہے ورنہ ازخود کیوں جے آئی ٹی بناتے۔ اور میاں صاحب تقریروں میں کیوں کہتے ہیں کہ جو بھی فیصلہ آیا اسے قبول کرکے وہ گھر چلے جائیں گے مگر پانامہ کی ہڈی گلے میں ایسی پھنسی ہے کہ انہیں لینے کے دینے پڑ گئے ہیں۔ نواز شریف اور ان کا خاندان پہلی بار گرفت میں آیا ہے اور اب وہ ہرصورت ”مظلوم “بنناچاہتا تھا مگر اسے مظلوم بننے نہیں دیا گیا۔ تین بار وزیراعظم کا حلف اٹھانے والا اس قدر رونے پہ آگیا ہے کہ اب ملک کی ناموس کو داؤپر لگارہا ہے اور کھل کر علی الاعلان ”وطن دشمنی“ پر اتر آیا ہے ورنہ 150لوگوں کو مارنے کی بات نہ کی جاتی ۔ ان کی اس بات سے صاف ظاہر ہے کہ دہشت گرد ادھر سے بھارت بھیج کر 150لوگ دہشت گردی کا نشانہ بنائے گئے۔ دوسری بار بھی ڈان ہی ان کے کام آیا۔
اسی صحافی کو پروٹوکول دے کر انٹرویو کرایا گیا۔ اب دنیا بھر میں ہمیں تماشا بنادیا گیا۔ عجیب بات یہ ہے کہ حکومت وقت (مسلم لیگ نون) تو میاں نواز شریف کے انٹرویو کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی باتیں کررہی ہے لیکن میاں نواز شریف ببانگِ دہل فرما رہے ہیں کہ وہ اپنے بیان پر قائم ہیں اور بھلے اس پر بھی کمیشن بنادیں۔ اب تو وہ کارگل کے ایشو کو بھی لے آئے ہیں۔ کارگل ہی کا ایشو میاں نواز شریف اور فوج کا ابتدائی جھگڑا تھا۔ جس پر اب تک سرد جنگ جاری ہے۔ آرمی کسی بھی صورت وطن کی ناموس اور سالمیت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتی جبکہ نوازشریف ایک کاروباری خاندان سے تعلق رکھتے ہیں ان کا مسئلہ صرف اور صرف کاروبار ہے، جو وہ اپنے بچوں اور عزیزواقارب کے نام پر کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب سوچے بغیر ایسی باتیں کررہے ہیں جس سے پاکستان کی (میرے منہ میں خاک) رسوائی ہو۔ کب سے امریکہ جاکر ان کے وزراءپہلے گھر کی صفائی کی باتیں کررہے تھے۔ اب پرانے واقعہ کو درمیان میں لاکر یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ہماری فوج ہمیں چین سے حکومت نہیں کرنے دیتی۔ اب چونکہ معاملات قانون کے مطابق طے ہورہے ہیں سو عدلیہ بھی ان کے نشانے پر ہے۔ انہیں اپنی منزل جیل کی سلاخیں دکھائی دے رہی ہے، مگر یہ فوج کے ہاتھوں مظلوم بننے کی آرزو میں تمام حدیں پار کرگئے ہیں۔
(بشکریہ: روزنامہ نئی بات)
فیس بک کمینٹ