سنسکرت کا عظیم مفکر اور دانشور بھرتری ہری کہتا ہے :
”جو انسان ادب موسیقی جیسے فنون سے محروم ہے وہ فی الحقیقت ایک حیوان ہے
گو اس کے سینگ اور دم نہیں اور وہ گھاس کھائے بغیر زندہ ہے“
فی زمانہ ادب اور خاص کر علوم و فنون کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی، ایک زمانے میں سکولوں اور کالجوں کی سطح پر طلباءکی ادبی تربیت کا باقاعدہ اہتمام کیا جاتا تھا۔ بزم ادب کے پیریڈ رکھے جاتے، ہفتہ وار بیت بازی کے مقابلے ہوا کرتے تھے، کالجوں اور یونیورسٹیوں کی سطح پر بین الکلیاتی تقریبات میں تقاریر کے علاوہ غزل اور نظم کے مقابلے ہوتے تھے۔ طرحی مصرع پر غزل اور کسی ایک عنوان پر نظمیں لکھوائی جاتی تھیں، اب تو شعر و ا دب کو درس گاہوں میں کسی حد تک کارفضول سمجھا جانے لگا ہے اور چند ہی کالجوں میں، وہ بھی گرلز کالجوں میں مشاعروں کا انعقاد دیکھنے میں آتا ہے۔ ٹیلی ویژن پر تو ادب پہلے ہی شجرممنوعہ قرار دیا جاتا ہے اب تو ”تہواری مشاعرے“ بھی سال میں ایک دوبار ریکارڈ ہوتے ہیں، وہ بھی پروڈیوسر اپنے من پسند شعراءکی فہرست بناتا ہے اور تہوار کے ایک ماہ پہلے ہی ”خاموشی“ سے مشاعرہ ریکارڈ کر لیتا ہے۔ اس کا نقصان یہ ہوا ہے کہ شہر میں شعروادب کی فضا پروان نہیں چڑھی اب تو شہر میں چھوٹی چھوٹی شعری نشستیں شعراءاپنی ”دل پشوری“ کے لئے خود ہی منعقد کر کے خوش ہو لیتے ہیں۔ جن میں سامعین کی ”جنس“ نایاب ہو کے رہ گئی ہے۔ وہ بھی زمانہ تھا جب مختلف شہروں میں کل پاکستان بلکہ کل ہندو پاک مشاعرے منعقد ہوا کرتے تھے۔ اب تو ادبی میلوں کا رواج ہے اور وہ بھی ایک دو شہروں میں اک خاص کلاس کے لوگ اپنے اپنے گروپس کو مدعو کرتے ہیں، گویا سرکاری سطح پر ادبی تقریبات اور بالخصوص مشاعرے کم ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ پچھلے چند برسوں سے یوم پاکستان کے حوالے سے یا جشن بہاراں کی مناسبت مشاعرے کا ایونٹ بھی ہونے لگا ہے۔ حالانکہ آرٹس کونسلوں کو اس طرف زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
یہ ساری باتیں یوں دھیان میں آ گئیں کہ پی ایچ اے نے بڑے عرصے بعد بارہ دری باغ جناح میں جشن بہاراں کے سلسلے کا اوپن مشاعرہ منعقد کیا۔ بارہ دری کو شاندار انداز میں سجایا گیا تھا۔ گویا رنگ و نور کا سماں تھا۔ فوارے چل رہے تھے اور اس بار سامعین کی معقول تعداد بھی آخر تک دکھائی دیتی رہی، مشاعرے میں پی ایچ اے کے چیئرمین یاسر گیلانی اور ڈی جی ڈاکٹر فیصل ظہور کے ساتھ ساتھ ڈائریکٹرز علی نواز شاہ، اختر محمود اختر نے اپنی ٹیم کے ساتھ خصوصی دلچسپی ہی نہ لی بلکہ اسے کامیاب بنانے کے لئے ان تھک محنت بھی کی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور کو پی ایچ اے کو شاباش دینا پڑی کہ شہر میں اس مشاعرے کے علاوہ بھی انہوں نے بہاروں کا سماں پیدا کر رکھا ہے، ہر طرف سرسبز و شاداب پارک پھولوں سے آراستہ ہیں، پانی کے فوارے چل رہے ہیں، صفائی کے انتظامات بھی اعلیٰ ہیں گورنر پنجاب چوہدری سرور اچھے خاصے ادبی ذوق کے مالک ہیں، ان کے پچھلے عرصہ گورنری میں بھی گورنر ہاﺅس میں ادبی تقریبات ہوتی رہیں اب یہ سلسلہ دوبارہ شروع ہو چکا ہے گورنرنے مشاعرے کے لئے بے تحاشا مصروفیات میں سے وقت نکالا انہیں کسی شادی میں شرکت نہ کرنی ہوتی تو بقول ان کے تمام شعراءکا کلام سن کے جاتے۔ مشاعرے کے مہمانان خصوصی میں مشیران وزیراعلیٰ چوہدری اکرم کے علاوہ ایم پی اے سیمابیہ طاہر اور انور مسعود بھی شامل تھے اس موقع پر جن شعراءنے کلام پیش کیا ان میں انور مسعود، امجد اسلام امجد، نجیب احمد، باقی احمد پوری، سلمان گیلانی، سعد اللہ شاہ، راقم الحروف اختر شمار، عباس تابش، جاوید احمد، شکیل جازب، ڈاکٹر صغری صدف، ناصر بشیر، غافر شہزاد، خالد مسعود، اعجاز رضوی، شفیق احمد خان، شاہدہ دلاور شاہ، عمرانہ مشتاق، ساجد گل، ڈاکٹر ظفر عباس، کنور امتیاز، اشفاق ناصر، اختر محمود اختر، اعجاز فانی، شبیر حسین، فرخ محمود، حسنین سحر، احسان مظہر اور فیصل زمان چشتی شامل تھے۔ ان میں سے بعض شعراءکے اسماءگرامی دعوتی کارڈ پر درج نہیں تھے۔ ان میں انور مسعود اور امجد اسلام امجد کا نام بھی نہیں تھا مگر بعد میں انہیں مدعو کر لیا گیا۔ اگر کارڈ چھپ جائے تو شعراءعموماً مشاعرے میں شریک نہیں ہوتے اور بعد میں دعوت بھی ملے تو انکار کر دیتے ہیں مگر ہمارے بعض شعراءہر حال میں سفارشوں کے ساتھ اپنا نام شامل کرا لیتے ہیں۔ منصور آفاق کا نام پکارا گیا مگر وہ شاید اس لئے تشریف نہ لائے کہ کارڈ میں ان کا نام نہ تھا، جواز جعفری کارڈ پر نام ہونے کے باوجود نجانے کیوں شامل نہ ہو سکے۔ گورنر پنجاب تشریف لائے تو خالد مسعود کو سٹیج پر بلایا گیا، گورنر پنجاب نے کہا شعراءکی باتوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ گہری اور معنی خیز باتیں کر جاتے ہیں۔ انہوں نے یاسر گیلانی اور ان کی ٹیم کو مبارکباد پیش کی کہ پی ایچ اے نے ایک شاندار مشاعرے کا انعقاد کیا، ادبی حلقوں میں ایوان صدر میں منعقدہ مشاعرے کی گونج بھی تھی کہ جس پر 36 لاکھ روپے خرچ ہوئے، خیر پی ایچ اے کا یہ مشاعرہ بے حد کامیاب رہا جس پر ہم بھی انہیں مبارکباد پیش کرتے ہیں، خاص طور پر علی نواز شاہ اور اختر محموداختر نے شاعروں کی خوب پذیرائی دی، مشاعرہ کی کامیابی میں ایک ہاتھ نظامت کرنے والے کا بھی ہوتا ہے جو براہ راست سامعین اور شعراءمیں پل کا کردار ادا کرتا ہے۔ نظامت ہر دلعزیز شاعر فرحت عباس شاہ نے کی ا ور بڑے موثر انداز میں مشاعرے کی کارروائی چلائی ان کی باتیں اور چٹکلے بھی سامعین سے داد وصول کرتے رہے، انہوں نے خود بہت کم کلام سنایا وہ بھی فرمائش پر…. مشاعرے سے چند اشعار:
پلک سے روح تک بھیگا ہوا ہوں
ترے خط کھول کر بیٹھا ہوا ہوں
( نجیب احمد)
وہ ایسے ڈھونڈنے نکلے ہیںباقی
محبت جیسے رستے میں پڑی ہے
(باقی احمد پوری )
اک لمحے کی مسافت بھی بہت ہوتی ہے
ہم کو تو عمر لگی یار تک آتے آتے
(سعداللہ شاہ )
چند شاعر ہیں جو اس شہر میں مل بیٹھتے ہیں
ورنہ لوگوں میں وہ نفرت ہے کہ دل بیٹھتے ہیں
(جاوید احمد )
بچپن میں اک کاغذی کشتی کیا ڈوبی
میں اب تک پتوار اٹھائے پھرتا ہوں
(اعجاز رضوی )
ہجر کی راہ میں اک ایسا مقام آیا ہے
آسمانوں سے فرشتوں کا سلام آیا ہے
(اشفاق ناصر)
پہلے سے خدوخال نہ پہلے سے ہیں خیال
کتنا ہم ایک سال کے اندر بدل گئے
(ناصر بشیر)
پندار محبت میں خسارا نہیں دیکھا
جب چھوڑ دیا ہم نے دوبارہ نہیں دیکھا
(شفیق خان)
ہر اک قدم پہ جو ہونے لگی پذیرائی
وہ اس لئے کہ ہیں میرے بھی حاسدین بہت
(اختر شمار :راقم)
(بشکریہ: روزنامہ نئی بات)
فیس بک کمینٹ