معروف خطاب، آرٹسٹ اور مصور علی اعجاز نظامی 9 مارچ 2019ء کو ملتان میں انتقال کر گئے ۔ ان کی وفات سے آرٹ کی دنیا میں ایک ایسا خلا پیدا ہوا جو شاید کبھی پُر نہ ہو سکے۔ علی اعجاز نظامی کو مصورانہ خطاطی میں خاص کمال اور ملکہ حاصل تھا ۔ان کے والد نظام الدین فیروز پور بھارت سے تقسیم کے وقت ہجرت کر کے آئے اور ملتان کے ہو کر رہے گئے ۔ نظامی کی نسبت ان کے اپنے والد نظام الدین کے حوالے سے ہے ۔ علی اعجاز 1954ء میں پیدا ہوئے ‘ آرٹس سے دلچسپی بچپن سے تھی ، سکول کے زمانے سے لکھائی خوبصورت تھی ‘ میٹرک تک تعلیم حاصل کر سکے اور پھر خطاطی کے شعبے سے وابستہ ہو گئے ۔ انہوں نے خطاطی میں استاد فدا حسین ملتانی ،استاد اسلم ملتانی اور شمس الدین سے بھی فنی تعلیم حاصل کی ۔ علی اعجاز نظامی بہت اچھے آرٹسٹ ہونے کے ساتھ بہت اچھے انسان بھی تھے۔ اپنی دھرتی ، اپنی مٹی اور اپنے وسیب سے ان کو بے پناہ محبت تھی ۔ ملتان کے بِلو کلر کو عام کرنے میں دوسروں کے ساتھ ساتھ ان کی خدمات بھی بے مثال ہیں ۔ مصورانہ خطاطی میں ان کے سب سے زیادہ فن پارے سکائی بلو اور فیروزی رنگ میں ملتے ہیں ۔ کمپیوٹر پر جب کتابوں کے ٹائٹل بننے کا رواج عام نہیں تھا تو جھوک پبلشرز کے ٹائٹل علی اعجاز نظامی صاحب بناتے تھے اور ہر ٹائٹل میں وسیب کی تہذیبی اقدار کو سامنے رکھنے کے ساتھ ساتھ وسیب کے رنگ بھی اس میں شامل کرتے ۔ علی اعجاز نظامی کے بنے ہوئے ٹائٹل آج بھی شاہکار حیثیت کے ساتھ ساتھ جھوک کا اثاثہ ہیں ۔ علی اعجاز نظامی پہلے بوہڑ گیٹ کے ساتھ پرانی غلہ منڈی میں بیٹھتے ، پھر ملتان میں کرافٹ بازار بنا تو وہاں ان کو دکان الاٹ ہوئی ۔ کچھ سال بعد حکومت نے کرافٹ بازار کو مسمار کر کے فنکاروں اور دستکاروں سے وعدہ کیا کہ ملتان کے ہنر مندوں کے شایان شان نئی کرافٹ بازار بنائی جائے گی اور سب کو دکانیں الاٹ ہونگی ، وہ کرافٹ بازار آج تک قائم نہ ہو سکا۔علی اعجاز نظامی نے ملتان کے پُل شوالہ کے ساتھ وحید پلازہ میں دکان لے لی مگر وہ جب بھی ملتے اس کا اظہار کرتے کہ حکومت نے اپنے وعدے کے مطابق کرافٹ بازار نہیں بنایا ، فنکار برادری مشکلات کا شکار ہے ، فن کی قدر اور افزائی نہیں ، بھاری کرایہ افورڈ نہیں کر سکتے ۔ وہ جب بھی ملتے یہ ضرور کہتے کہ صوبے کیلئے آپ کی خدمات بہت ہیں مگر جو حکومت کرافٹ بازار نہیں بنا رہی وہ صوبہ کیا دے گی ۔ وہ اسمبلیوں میں جانے والوں کو بھی کوستے اور کہتے کہ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ یہ لوگ اسمبلیوں میں کیا لینے جاتے ہیں ۔ الیکشن کے موقع پر تو گلے پھاڑ پھاڑ کر تقریریں کرتے ہیں ، ووٹ مانگتے ہیں مگر اسمبلی میں جا کر بے زبان اور گونگے بن جاتے ہیں ۔ ایک موقع پر علی اعجاز نظامی نے اہم بات کی کہ اس خطے کے پیر اور وڈیرے ہمیشہ بر سر اقتدار آتے رہے ، ہم سب ان سے مایوس ہوئے ، ان کو کوستے بھی رہے مگر ضیا الحق دور کے بعد یہ موقع ہمارے مہاجر اور پنجابی بھائیوں کو بھی ملا ہے ،افسوس کہ اپنے وسیب اور وسیب کے لوگوں کیلئے انہوں نے بھی کوئی کارنامہ سر انجام نہیں دیا ۔ علی اعجاز نظامی سیاستدان نہ تھے مگر وہ سیاسی سوچ اور ویژن رکھتے تھے ۔ میں نے 2014ء میں نیلے رنگوں والی سرائیکی اجرک متعارف کرائی ، 6 مارچ کو ملتان آرٹس کونسل میں بہت بڑی تقریب کا اہتمام کیا گیا ، اس موقع پر ہم نے ملتان آرٹس کونسل کے احاطے میں کرافٹ بازار سجایا جس میں ملتان کے ہنر مندوں کے شاہکار فن پاروں کی نمائش منعقد کی گئی ۔ ملتان آرٹس کونسل کی بالائی گیلری پر ملتان کے خطاب اور مصوروں کے فن پاروں کی نمائش کا اہتمام کیا گیا ۔ علی اعجاز نظامی کے فن پاروں کو سب سے زیادہ پذیرائی اس لئے حاصل ہوئی کہ اس میں سرائیکی اجرک کے رنگوں کا استعمال زیادہ ہوا تھا ۔ سرائیکی اجرک کی لانچنگ سریمنی اور نمائش کی بھرپور کامیابی کے بعد علی اعجاز نظامی نے مبارکباد دیتے ہوئے مجھے کہا کہ دھریجہ صاحب آپ نے بہت بڑا کام کر دیا ہے ، اس سے مستقبل میں تحریک کو بہت فائدہ ہوگا اور آپ کا نام ہمیشہ یاد رہے گا ۔ جب ملتان کرافٹ بازار کو مسمار کیا گیا تو علی اعجاز نظامی معاشی مشکلات کا شکار ہوئے ، ان کو مجبوراً مقامی ٹائلز فیکٹری میں ملازمت کرنا پڑی ، ان کی یہ مجبوری وسیب کو بہت بڑا فائدہ دے گئی کہ آج ہزاروں سال قدیمی ملتانی ٹائلز کے پھولوں اور رنگوں میں جو جدت آئی ہے اس میں علی اعجاز نظامی کا بہت ہاتھ ہے، علی اعجاز نظامی اور ملتان کے آرٹسٹوں حافظ ابن کلیم احسن نظامی اور حافظ اقبال علی اعجاز نظامی نے فن لطیفہ اکیڈمی بنائی ہوئی تھی اور اس اکیڈمی کی معرفت فن کی ترقی کیلئے وہ کام کرتے رہے مگر افسوس کہ ان کو نجی یا سرکاری طور پر سرپرستی حاصل نہ تھی ، حتیٰ کہ علی اعجاز نظامی سالہا سال سے شوگر ، بلڈ پریشر اور دل کے مریض تھے ، ان کے علاج کیلئے کوئی انتظام نہ ہو سکا ، سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے فنکار اور ہنر مند اسی طرح سسک سسک کر مرتے رہیں گے۔ امیر تیمور جس علاقے کو فتح کرتا ، وہاں کے انسانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ کر رکھ دیتا تھا ، اتنا ظالم ہونے کے باوجود اس میں بھی یہ خوبی تھی کہ وہ اہل فن کو قتل کرنے کی بجائے ان کو قید کر کے اپنے ساتھ لے جاتا ، آج ثمر قند ، بخارا اور فرحانہ میں فن و حرفت کے جتنے بھی مظاہر ملتے ہیں ، وہ اس کے اسی عمل کا نتیجہ ہیں ۔ امیر تیمور اور ہمارے حکمرانوں میں فرق یہ ہے کہ امیر تعمیر عام آدمی کو قتل کرتا تھا ، اہل فن کو زندہ رہنے دیتا مگر ہمارے حکمران فنکاروں کو غیر محسوس طریقے پر قتل کر رہے ہیں ۔ موجودہ حکومت جو تبدیلی کے نام پر بر سر اقتدار آئی ہے ، اس مسئلے پر غور کرے گی ۔موت برحق ہے مگر فن کو زندہ رہنا چاہئے ، علی اعجاز نظامی کی موت فنکار کے ساتھ فن کی بھی موت ہے کہ حکومت کی اس طرف کوئی توجہ نہیں ۔ علی اعجاز نظامی نے اپنے لوحقین میں دو بیٹے اور چار بیٹیاں سوگوار چھوڑی ہیں ، ایک اتفاق یہ بھی ہے کہ 9 مارچ عظیم سرائیکی فنکار پٹھانے خان کا یوم وفات ہے ،اب دونوں فنکاروں کی برسی ایک ہی دن ہوتی رہے گی اور ان دونوں کو یاد کیا جاتا رہے گا۔
(بشکریہ: روزنامہ 92نیوز)
فیس بک کمینٹ