دوتین روز قبل ”فیس بک“ کے ذریعے پتہ چلا افتخار مجاز کو ہسپتال میں داخل کرایا گیا ہے تو سوچا بدھ کو قدرے فراغت ہے سوجاکر دیکھ آﺅں گا۔ جب سے انہیں فالج کا اٹیک ہوا ان کی طرف فون کیا تو بھی ان کی آواز سننے سے محروم رہا۔ اب کے سوچ رہا تھا ہسپتال جاکر ہی عیادت کرتاہوں مگر مجھ سمیت کئی دوستوں کو اس نے مہلت ہی نہ دی کہ اپنی، کوتاہی، اور سستی کا ازالہ کرسکتے۔ بدھ کو شہر کو اداس چھوڑ گئے :
اک شخص سارے شہر کو ویران کرگیا
افتخارمجاز اس شہر کا ایک زندہ آدمی تھا۔ اس میں بعض ایسی صفات تھیں جو ان دنوں معدوم ہوتی جارہی ہیں۔ مثلاً وہ دوستوں سے ہمیشہ باخبر رہتا۔ عموماً کسی ادیب ، شاعر کی علالت یا وفات کی خبر اس کے پیغام سے ملا کرتی تھی۔ ہم علیل احباب کو ان کے گھر ملنے کے پروگرام بناتے۔ ابھی چند ماہ گزرے ہیں انہوں نے ایک دو علیل احباب کی نشاندہی کی، اور فیصلہ کیا پھول لے کر ان کے گھر جائیں گے، مگر پھر پتہ چلا وہ خود علیل ہوگئے ہیں۔ ہم دنیا کی بھول بھلیوں میں اس قدرگم ہیں کہ اپنے ہی ایک دوست کا خیال نہ رکھ سکے اور وہ زندہ دلان لاہور سے روٹھ گیا جو لاہور کا قصیدہ خواں تھا۔ وہ جو چلتی پھرتی لاہور کی ادبی ثقافتی ”تاریخ“ کی طرح تھا ۔ بدھ کے روز اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملا۔ سب کو دنیا سے ایک روز جانا ہے ۔ کئی ادیب رخصت ہوگئے ۔آخر کو ہمیں بھی رخصت ہونا ہے ۔ لیکن افتخار مجاز کی موت پر جس قدر صدمہ ہوا، بیان سے باہر ہے ۔
افتخار مجاز سے قبل ملتان ہی میں ان کے بڑے بھائی اعزاز احمد آذرسے تعارف ہوا، ملتان کی ادبی تقریبات میں ان سے ملاقات رہتی۔ مجھے اچھی طرح یادہے 1980ءمیں بہاولپور کے ایک مشاعرے میں آذر صاحب کو پہلی بار سنا تھا اور ان کی نظم ”فرض کرو“ نے مشاعرہ الٹا دیا تھا۔ پھر گاہے بگاہے ملتان کے مشاعروں اور نیشنل سنٹر کی تقریبات میں ملاقاتیں رہنے لگیں ۔ ہماری لاہور آمد ہوئی تو کچھ عرصہ بعد ہی آذر صاحب نیشنل سنٹر لاہور آگئے۔ افتخار مجاز سے لاہور کی تقریبات میں ملاقاتیں ہوتیں ہمیں بہت دیر بعد علم ہوا کہ افتخار مجاز اعزاز احمد آذر کے بھائی ہیں۔
افتخارمجاز ان چند وضع دار احباب میں سے تھے جو کسی بھی دوست کی تخلیق پڑھ کر ہمیشہ خط لکھ کر داد دیا کرتے تھے۔ خطوط کے جوابات دینے میں کبھی سستی نہ کرتے۔ انہیں دوست کتب ارسال کرتے تھے جن کا وہ خط لکھ کر باقاعدہ شکریہ ادا کرتے اور پھر بغیر فرمائش کے کتاب پر تبصرہ بھی لکھ کر چھپوا دیتے۔ بہت سے دوستوں کو انہوں نے ٹیلیویژن پر متعارف کرایا۔ افتخار مجاز ہماری ادبی محفلوں کی رونق تھے۔ کالموں، کتابوں، شاعری اور ادبی شخصیات پر ان کی گفتگو ہمیشہ معلومات افزا ہوا کرتی تھی۔ وہ کالم نگاری کی طرف آئے تو اس میں بھی اپنی انفرادیت کا لوہا منوایا ۔ ان کے کالم ہلکے پھلکے ، سیاسی سماجی موضوعات پر اور ادبی چاشنی سے مرصع ہوتے۔ ہم اکثر ایک دوسرے کے کالموں پر تبصرہ کرتے۔ مختلف تقریبات میں ان سے ملاقات رہتی جہاں وہ موجود ہوتے۔ ہمیشہ قہقہے گونجتے رہتے۔ انہیں خودنمائی کا قطعی شوق نہیں تھا۔ اکثر احباب انہیں نظامت کے فرائض سونپ دیتے وہ اتنی خوبی سے یہ فرائض نبھاتے کہ محفل میں جان پڑ جاتی ۔بلاشبہ وہ ایک سچے” کتاب دوست “ انسان تھے۔ ادب دوست تو بہت سے ہیں مگر کتابوں سے محبت کرنے والے اور پھر پڑھ کر ان پر رائے دینے والے بہت کم ہوتے ہیں۔ افتخار مجاز کتاب، رسالہ جریدہ ملتے ہی باقاعدہ خط لکھ رسید دیتے بجنگ آمد کے لیے بھی وہ لکھتے رہے۔ جب بھی ان سے کسی تحریر کی فرمائش کی انہوں نے محبت سے ہمیشہ کچھ نہ کچھ ارسال کردیا۔ وہ اپنے بڑے بھائی سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔ آذرصاحب کے جانے کے بعد وہ کسی حدتک اندر سے ٹوٹ پھوٹ گئے تھے۔ وہ آذر صاحب کی یادوں پر مبنی مضامین بھی لکھتے اور ان کی یادیں احباب سے شیئر بھی کرتے۔ کئی ادبی رسائل جرائد کے لیے لکھتے رہے۔ اصل وجہ یہ تھی کہ وہ کسی دوست کو انکار کرہی نہیں سکتے تھے۔ انہوں نے کبھی کسی کی دل آزاری نہیں کی۔ میں نے تو انہیں ہمیشہ محفلوں میں ہنستے مسکراتے اور دوسروں کی پذیرائی کرتے دیکھا۔ بیمار ادیبوں شاعروں کے لیے وہ ہمہ وقت بے چین رہتے۔ اکثر پروگرام طے کرکے مختلف علیل اہل قلم کی عیادت کے لیے احباب کو ساتھ لے کر جاتے۔ میں نے کہا ناں وہ دوسروں کی خیرخبر رکھنے والا نہایت خوش مزاج ، زندہ دل اور محبت کرنے والا دوست تھا۔ فالج کے حملے کے بعد وہ بول نہیں سکتے تھے۔ ہمیشہ محفلوں میں چہچہانے والا یہ ”پابندی“ (معذوری) کتنے دن برداشت کرتا۔ ہمیں تو گمان تک نہ تھا کہ اتنی جلدی افتخار مجاز لاہور کی محفلیں ویران کرجائیں گے۔ میں نے ان کی ٹیلی ویژن سے ریٹائرمنٹ پر کالم لکھا”ہمارا افتخار “ یہ کالم عین اسی روز شائع ہوا جس روزوہ ٹیلی ویژن سے الوداع ہوئے غالباً اسی روز چیف جسٹس (ر) افتخار چودھری بھی ریٹائر ہوئے تھے۔ اس کالم پر بہت خوش ہوئے تھے صبح دم ہی ان کا فون آگیا۔ یار آپ نے اچھا سرپرائز دیا ہے ۔ میں نے بتایا کچھ روز قبل آپ نے اپنی ریٹائرمنٹ کی تاریخ کا ذکر کیا تھا میں نے پلے باندھ لی ۔“کہا :لیکن آپ نے نہایت محبت کا ثبوت دیا آپ نے ان لمحوں کو یاد گار بنادیا ۔ میں نے کہا آپ میری ریٹائرمنٹ پر لکھ دیجئے گا تو زور سے قہقہہ لگایا۔یہ قہقہہ اب تک مرے کانوں میں گونج رہا ہے ۔ ان کے جانے پر شہر علم ادب اور کتابیں اداس ہیں۔
( بشکریہ : نئی بات )
فیس بک کمینٹ