گذشتہ سے پیوستہ
مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کی کتاب ”پردہ“ ہمیں صرف اس لئے اچھی نہیں لگی کہ ہم ان دنوں عورتوں کے پردے کے سخت حق میں تھے اور اس سلسلے میں اپنی خاندانی قدامت پسندی پر بہت نازاں بھی تھے ۔ ہمیں اس کتاب کا وہ حصہ جس میں یورپ میں بے پردگی کے مظاہر اور اس کے نتیجے میں وہاں پھیلنے والی عریانی اور بے حیائی کا تذکرہ کافی تفصیل سے کیا گیا تھا بہت دلچسپ لگا اور ہم اپنے دوستوں میں ہفتوں اس کی تفصیلات کا مزے لے لے کر بیان کرتے رہے جس پر ان کے منہ کھلے کے کھلے رہ جاتے۔ بہت سوں نے تو جوش میں آ کر مستقبل میں ان مردود معاشروں میں جا کر ان کے اخلاق سدھارنے کے ارادوں کا بھی اعلان کیا، کوئی باتوں باتوں میں ان پرجوش نوعمر مجاہدوں کی کوئی ایسی بات کر کے چٹکی لیتا جس سے ان کے اصل اردوں کی قلعی کھلنے لگتی تو یہ بیچارے بس جھینپ کر رہ جاتے بعد میں ان میں سے کئیوں کو یورپ یاترا کا موقع بھی ملا لیکن سوائے ڈاکٹر ایوب کے جو بالآخر تبلیغی جماعت کو پیارے ہوگئے تھے ، کسی کو یہ فرض ادا کرنے کی توفیق نہ ہوئی غلام کاظم حسین جیسے مجتہد مزاج شخص سے بہت توقع تھی لیکن وہ کئی بار گئے اور ”خدا کی شان“ دیکھ کر چنگے بھلے واپس آ گئے۔۔۔ یہ ایک خوش گمانی ہے کہ میاں ممتاز احمد قادری مرحوم اور میاں سردار احمد قادری جو باقاعدہ پیر گھرانے کے افراد تھے انگلینڈ میں اپنے طویل قیام کے دورانیے میں گوروں کے اخلاق سدھارنے کے مشن میں مصروف رہے ہوں گے ایک نتیجہ تو یہ نکلا کہ سردار احمد مستقل وہیں کے ہو کر رہ گئے۔۔۔ بہر حال یہ ایک جملہء معترضہ تھا حاشا و کلہ اس کا مقصد کسی کی نیک نیتی پر شک کرنا ہرگز مقصود نہیں تھا۔۔۔ بات مولانا مودودی کی دستاویزی کتاب ”پردہ“ کی ہورہی تھی جس کے” بسیط مطالعے“ نے ہمیں یورپی معاشرے کے ایک مردود (لیکن دلکش) پہلو سے متعارف کروایا جس کے مشاہدے کی،حسرت ہم اب تک اپنے دل میں لئے پھرتے ہیں۔
بات اس دور کے سیاسی منظرنامے کی ہورہی تھی، بھٹو مخالف قدامت پسند جماعتوں کا موقف یہ تھا کہ بھٹو پاکستان کو یورپ کی طرز معاشرت کی طرف لے جانا چاہتا ہے (ممکن ہے کہ اس دور میں بھٹو کے نظریات میں ہماری دلچسپی کی ایک وجہ یہ بھی ہو) اس لئے اس کے کافرانہ نظریات وعقائد کے خلاف تمام فرقوں اور مسالک کے علما کی ایک بڑی تعداد کی طرف سے باقاعدہ متفقہ فتوے جاری کئے گئے لیکن میرے لئے حیرت کی بات یہ تھی کہ مذہبی ذہن رکھنے والوں کی ایک بڑی تعداد پھر بھی بھٹو کی حمایت کر رہی تھی۔
اس سلسلے میں مجھے براہ راست مشاہدے کا ایک موقع ملا جب 1970 کے عام انتخابات کا اعلان ہو اور جلالپور پیروالا کے حلقے سے میرے بہت عزیز ہم جماعت دوست میاں ممتاز احمد قادری کے والد میاں فتح محمد قادری جو ایک قابل احترام روحانی شخصیت، دربار قادریہ فتحیہ کے سجادہ نشیین اور سنی بریلوی مسلک کی سب سے بڑی جامع مسجد کے خطیب تھے ان کے معتقدین اور مریدین نے ان کو قومی اسمبلی کے ممبر کی سیٹ پر امیدوار بنانے کی مہم شروع کردی تو ان کے عقیدت مندوں ہی میں سے بعض باریش معتبر بزرگوں نے اس کی مخالفت کی۔ میاں صاحب ایک سیدھے سادے نیک طینت بزرگ تھے اور وہ کسی کی دل شکنی نہیں چاہتے تھے اس لئے انہوں نے حمایت اور مخالفت کرنے والوں کا اپنی جامع مسجد قادریہ میں اجلاس بلا لیا۔ میاں ممتاز احمد قادری مرحوم کا دوست ہونے کے ناطے مجھے یہ فائیدہ حاصل تھا کہ میں چپکے سے ایسے اجلاسوں میں جا بیٹھتا تو کوئی مجھے روکتا نہیں تھا ۔۔۔ معاملہ یوں شروع ہوا کہ ایک جمعے کی نماز کے وقت خطبے سے چند منٹ پہلے کچھ پر جوش لوگوں نے میاں صاحب سے الیکشن میں امیدوار بننے کا مطالبہ کیا تو مسجد میں موجود سیکڑوں لوگوں نے پرجوش نعرے بلند کئے اور پھر مخیر لوگوں نے جن میں بڑی تعداد ان لوگوں کی تھی جو سعودی عرب میں کمانے گئے ہوئے تھے الیکشن فنڈ میں عطیات کے اعلانات شروع کردیئے لیکن میاں فتح محمد قادری سکوت اختیار کئے ہوئے تھے جس پر مجھ سمیت اکثر کو غصہ بھی آرہا تھا یہ سلسلہ کئی ہفتے جاری رہا اور جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا میاں صاحب کے بلاوے پر مختلف الآراء لوگوں کا اجلاس ہوا میں بھی ایک کونے میں چپکے سے جا بیٹھا تھا۔ بحث شروع ہوئی الیکشن لڑنے کے حامی بے حد پر جوش تھے اور مخالفین بہت دفاعی پوزیشن لئے ہونے کے باوجود مستحکم لہجے میں دلیل کے ساتھ بات کررہے تھے مجھے یاد ہے کہ ان میں حاجی لعل دین جیسے سینئر اور صوم و صلوۃ کے پابند لوگوں کے ساتھ خواجہ خورشید اور سراج غوری جیسے نوجوان شامل تھے شاید کوئی بیک ڈور رابطے بھی ہوچکے تھے اس لئے بات چیت پرسکون انداز میں ہو رہی تھی ۔
بات یہاں تک پہنچی کہ میاں صاحب الیکشن کیوں نہ لڑیں جب کہ جمیعت علمائے پاکستان ٹکٹ دینے کا اعلان کر چکی ہے ملتان میں مولانا حامد علی خان جیسے بزرگ بھی ملتان سے الیکشن لڑنے کی تیاری کر رہے ہیں، مولانا سید احمد سعید کاظمی بھی سرپرستی کیلئے تیار ہیں اور الیکشن فنڈ کےلئے عطیات کی بھی کمی نہیں اس کا بھی مخالفوں کی طرف سے مدلل جواب دیا گیا ۔۔۔ جب بالآخر یہ بات ہوئی کہ اگر الیکشن نہ لڑیں تو کیا کریں؟ کچھ دیر سکوت طاری رہا اور پھر کسی نے کہا کہ رانا تاج احمد نون ہمارے ہم مسلک ہیں اس لئے ہمیں ان کا ساتھ دینا چاہئے وہ ہمارے سب کارکنوں کے ضروری کام کرنے کروانے کے پابند ہوں گے۔ مجھے یہ سن کر جھٹکا سا لگا کیونکہ وہ پیپلز پارٹی کے امیدوار تھے رانا تاج شجاع آباد کے معروف زمیندار تھے اور اچھی شہرت رکھتے تھے لیکن مسئلہ یہ بھی تھا کی ان کے مد مقابل اور مسلم لیگ قیوم کے امیدوار سید حامد رضا گیلانی ملتان کے معروف سیاسی خانوادے کے سربراہ اور ایوب خان حکومت کے دور میں پارلیمانی سیکرٹری رہے تھے وہ بھی پیر گھرا نے سے تھے اور میاں فتح محمد کا گھرانہ اور دیگر بہت سے لوگ روایتی طور پر ہر الیکشن میں ان کا ساتھ دیتے رہے تھے۔ مجھے نہیں معلوم بعد میں خود میاں فتح محمد نے کس کا ساتھ دیا لیکن اس اجلاس کے بعد انہوں نے الیکشن لڑنے سے معذرت کر لی اور ان کے اکثر معتقدین نے پیپلز پارٹی کی کھلم کھلا حمایت شروع کردی۔۔۔ میں بہت دلچسپی سے اس صورت حال کو دیکھ رہا تھا فتوے بازی اور کفرسازی کے اس دور میں میرے لئے حیرت کی بات یہ تھی کہ بہت سے باریش اور حاجی نمازی بہت جوش و جذبے کے ساتھ ذوالفقار علی بھٹو اور ان کے سیاسی پروگرام کی حمایت کررہے تھے اس لئے مجھ پر واضح ہونے لگا کہ مسئلہ کفر و اسلام کا بہر حال نہیں ہے اور سیاست کوئی شے ہے
( جاری )
فیس بک کمینٹ