14 سو برس پہلے کے حالات آج سے بہت مختلف تھے۔ حضرت امام حسین سے پہلے آنے والی ہستیوں نے اپنے اپنے ادوار میں ظلم و استبداد کے خلاف علم بغاوت بلند کیے تھے۔ ان مزاحمتوں کے جرم میں ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے اور بہت سوں کو اذیت ناک اموات سے دو چار کیا گیا۔ اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ امام عالی مقام کی قربانی کو ان کے بعد آنے والے مفکرین نے ہر دور کے مقابلے میں عظیم ترین قربانی قرار دیا۔
واقعہ کربلا نے دنیا کے ہر کونے میں ہر حق پرست انسان کو متاثر کیا۔ آج افریقہ سے لے کر مشرق وسطیٰ اور برصغیر پاک و ہند تک لوگ اس عظیم الشان قربانی کی یاد مناتے اور امام حسین، ان کے اہل خانہ اور ساتھیوں کو اپنے اپنے انداز میں خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا امام عالی مقام کی یاد منانے اور ماتم و مجلس برپا کرنے سے ظلم و استبداد کے خلاف مزاحمت کا حق پورا ہو جاتا ہے؟ اگرچہ امام حسین کی قربانی ہر قوم کے افراد زور و شور سے مناتےآئے ہیں لیکن مسلمانوں کا ایک گروہ اہل تشیع اس میں سب سے پیش پیش ہوتا ہے برصغیر میں یہ گروہ باقی اقوام کے ساتھ مل کر علم اور ذوالجناح کے جلوس نکالتا ہے اور بالخصوص محرم کے پہلے دس دن اور اس کے بعد بھی چہلم تک ان سرگرمیوں میں مصروف رہتا ہے۔ میری نظر میں روایات کی اہمیت اس وقت تک قائم نہیں رہ سکتی جب تک وہ حالات حاضرہ سے جڑی نہ ہوں۔ شیعان علی اور دیگر اقوام کا ان روایات میں حصہ لینا اس وقت تک بےمعنی ہے جب تک وہ اس دور میں رائج ظلم کے نظام کو نہ پہچانیں اور اس کے خلاف ایک نہ ہوں۔
تقریباً دو سو برس پہلے ایک عظیم فلسفی کارل مارکس نے مروجہ سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ایک نظریہ پیش کیا۔ اس کے مطابق یہ نظام بربریت کا نظام ہے۔ اس میں محنت کشوں اور مزدوروں کا استحصال کیا جاتا ہے۔ چند فیصد افراد کروڑوں مظلوموں کا حق غصب کرتے ہیں اور خود کو اس کرہ ارض کا مالک سمجھتے ہیں۔ یہ ظالمانہ نظام کیپیٹل یعنی زر کی طاقت پر قائم ہے۔ بیسویں صدی میں کارل مارکس اور اینگلز سے متاثر ہو کر لینن اور کچھ دوسرے افراد نے سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف کامیاب انقلابات برپا کیے۔ مزدوروں کی جدوجہد کے نتیجے میں عالمی سطح پر مزدور یونینوں کی اہمیت اور مزدوروں کے حقوق کو تسلیم کیا گیا۔ لیکن ان سب کامیابیوں کے باوجود مجموعی طور پر زر کی طاقت محنت پر حاوی ہی رہی۔ پچھلے کچھ برسوں میں کارل مارکس کے نظریات نے ایک بار پھر ساری دنیا میں دھوم مچا دی ہے۔ یورپ سے لے کر ایشیا تک ہر براعظم میں مزاحمتی تحریکیں جنم لے رہی ہیں۔ ایسے عالم میں کیپیٹل ازم شدید پیش و پس، تنہائی اور الجھن کا شکار نظر آتا ہے۔ تیسری دنیا کی سرمایہ دار حکومتیں قرضوں اور امداد کے ذریعے اپنا نظم و نسق چلانے کی کوشش کرتی نظر آتی ہیں۔ جبکہ بظاہر ترقی یافتہ حکومتیں اپنے ملکوں میں اٹھنے والی محنت کش قوتوں کی تحریکوں سے سخت پریشان ہیں۔ سرمایہ دار متذبذب ہے کہ اکثریتی غریب طبقے کو مطمئن کیے بغیر آخر کب تک وہ اس نظام زر کو گھسیٹنے میں کامیاب ہو گا۔
موجودہ دور میں فنون لطیفہ کی اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے۔ ترقی پسند شعراء کو بامقصد اور رجائیت پسند ادب تخلیق کرنا چاہیے۔ امام عالی مقام کی قربانی کو محض نوحے پڑھنے، سوز و سلام لکھنے، رونے رلانے اور ماتم و زنجیر زنی کرنے تک محدود کرنے کی بجائے ہمیں اس زمانے کی یزیدیت کو بھی پہچاننے کی ضرورت ہے۔ اکثریتی محنت کش طبقہ خواہ وہ کسی بھی رنگ و نسل اور مذہب سے تعلق رکھتا ہو چند فیصد سرمایہ داروں کے خلاف متحد ہو کر اٹھ کھڑا ہو۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ایک دن ایسا ضرور ہو گا اور وہ یزیدیت کے خلاف حسینیت کی ایک عظیم فتح کا دن ہو گا۔ بعید نہیں کہ اس عظیم مقصد کے لیے ہمیں بےشمار قربانیاں دینا پڑیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ غریب طبقے کے پاس کھونے کے لیے صرف زنجیریں ہیں۔ اس لیے ہمیں جلد از جلد طبقاتی شعور حاصل کر کے بےخطر اس آتش نمرود میں کودنا ہو گا۔
فیس بک کمینٹ