دوستوں سے دوقومی نظریے پر بحث ہوتی رہتی ہے. میری نظر میں یہ ایک غیرفطری نظریہ ہے لیکن انسانوں میں قومیت کی بنیاد پر تقسیم در تقسیم صدیوں سے ہوتی آئی ہے۔ ہندوستان اور پاکستان بشمول بنگلہ دیش کبھی مل کر نہیں رہے۔ مغل بادشاہوں نے کسی حد تک انہیں یکجا کیا لیکن ان کے دور میں بھی آزاد ریاستیں موجود تھیں جیسے میسور، بہاولپور، بنگال، کشمیراور حیدرآباد دکن وغیرہ۔ ہندوستان کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے جب کہ مسلمان یہاں بارہ سو سال پہلے آئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اب ان کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ بنگلہ دیش اور ہندوستان میں پاکستان سے زیادہ مسلمان مقیم ہیں۔ ان ممالک کی جنگوں میں ہندو، مسلمان اور عیسائی سب مارے جاتے ہیں اور ہر ملک اپنے مرنے والوں کو شہید قرار دے کر انہیں تمغوں سے نوازتا ہے۔کسی بھی جنگ یا جدوجہد سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا چاییے کہ ہمارا مقصد کیا ہے؟ دور حاضر میں سرمایہ داری سے بڑا استحصالی نظام کوئی نہیں ہے۔ اس کا واحد توڑ سوشلزم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سرمایہ دار اس نظریے سے سب سے زیادہ خوفزدہ ہیں۔ سوشلزم آفاقی نظریہ ہے جو مذاہب اور اقوام کے نام پر سرحدوں کے ذریعے انسانوں کی تقسیم کو مسترد کرتا ہے۔ اس نظام کی معراج یہ ہے کہ تمام انسان اپنی محنت کے بل بوتے پر اس سیارے کےمشترکہ مالک ہوں گے اور دولت چند افراد کے ہاتھوں میں نہیں رہے گی۔ہمارے ہاں روزاول سے فوج کا محکمہ سب سے طاقتور اور منظم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے پاس سب سے زیادہ دولت اور پیسہ بنانے کے ذرائع ہیں۔ اس کی مثال ان کی بنائی ہوئی ہاؤسنگ سوسائیٹیاں، فیکٹریاں اور مہنگے اسکول وغیرہ ہیں.۔امداد کے نام پر باہر سے حاصل کیے ہوئے مال کو بھی یہ ہڑپ کر جاتا ہے۔ اعلیٰ عہدوں پر براجمان طاقت ور افسر کٹھ پتلی سیاستدانوں کے ذریعے اس ملک کا نظام چلاتے ہیں اور کوئی آنکھیں دکھائے تو اسے سبق سکھاتے ہیں۔ اب تک ہزاروں بےگناہ افراد کو اپنے جائز حقوق مانگنے کی پاداش میں غائب کیا جا چکا ہے۔ ان افراد کو گمشدہ افراد کہا جاتا ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم قومیت اور مذہب کے نام پر انسانوں کی تقسیم سے باہر نکلیں اور ان دیسی انگریزوں سے چھٹکارہ حاصل کریں۔ اس کے لیے ہمیں سوشلسٹ انقلاب کے لیے جدوجہد تیز کرنا ہوگی۔ اور "تیز ہو تیز ہو، جدوجہد تیز ہو” کا نعرہء مستانہ بلند کرنا ہو گا۔
فیس بک کمینٹ