امام حسین کی جنگ ملوکیت یعنی بادشاہت کے خلاف تھی ۔یزید نے عوام کے حقوق غصب کر کے انہیں اپنی رعایا بنا لیا تھا جیسا کہ اسلام سے پہلے ہوتا آیا تھا۔ وہ قبل از اسلام کی فرسودہ روایات کو جاری رکھنا چاہتا تھا۔ انسانی مساوات یعنی عربی کو عجمی پر،گورے کو کالے پر، آقا کو غلام پر اور امیر کو غریب پر کوئی فوقیت حاصل نہیں، یہ اسلام کا وہ نظریہ تھا جسے یزید مٹا دینا چاہتا تھا۔ امام نے میدان کربلا میں کئی مقامات پر اس نظریے پر عمل کر کے دکھایا۔
اکبر کا جہاں سر ہے وہیں جون کا سر ہے
نیز پردہ "عزت دار” خواتین میں ایک عربی روایت تھی ۔لونڈیاں عربی سماج میں پردہ نہیں کرتی تھیں۔ امام نے اپنی خواتین کو اپنی شہادت کا گواہ بنایا۔ حضرت زینب اور ان کی ساتھی خواتین کی چادریں چھینی گئیں یعنی انہیں بےپردہ کیا گیا، جس کا مقصد اس زمانے میں ہارے ہوئے فریق کو رسوا کرنا ہوتا تھا۔ لیکن حضرت زینب نے اسی حالت میں دربار یزید میں عظیم الشان خطبہ دے کر یزیدیت کو تاریخی سیاسی شکست دے دی۔ اس خطاب کے دوران انہوں نے اپنے لیے یا اپنے قافلے میں شامل دوسری خواتین کے لیے ایک مرتبہ بھی پردے کا مطالبہ نہیں کیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے لیے حسینیت کا پیغام اپنے پردے سے بڑھ کر تھا۔ اس خطاب کا پہلا جملہ یہ تھا کہ اے یزید! قرآن کی آیات کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال مت کر۔ آج کے مذہبی لوگ یزید کی طرح اسلام اور قرآن کو اپنے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔بی بی زینب کی قافلہ شام کی سالاری ثابت کرتی ہے کہ عورت کسی بھی طور سے مرد سے کم تر نہیں اور نہ ہی ناقص العقل ہے۔
حلال اور حرام مذہبی باتیں ہیں۔ ہر مذہب اور مسلک کے اپنے اپنے حرام اور حلال ہیں۔ ایک مذہب یا مسلک کی حلال چیز دوسرے میں حرام ہوتی ہے۔ یزید کو محض ان باتوں کا منکر قرار دینا غلط ہے۔ اس کا مقصد یزید کے اصل جرم یعنی بادشاہت یا ملوکیت پر پردہ ڈالنا اور اسے جائز قرار دینا ہے جس پر آج کے مسلمان بہت فخر کرتے ہیں ۔یزید کے بعد ایک مدت تک دنیا میں مسلمان بادشاہت قائم رہی جس نے دنیا کو اس مذہب کا غلط پیغام پہنچایا۔ اس وقت حسینی ہونے کا دعویٰ کرنے والے ملک ایران میں مذہبی آمریت قائم ہے۔ ایران خطے میں اپنے قدم مضبوط کرنے کے لیے طا لبان جیسے وحشیوں کا ساتھ دیتا نظر آتا ہے۔ ایران پرست شیعہ سرکاری ملا بھی مجالس حسین میں ایران کے اس فیصلے کا دفاع کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ یزیدیت سے بھی بدتر عمل ہے کیونکہ یہ حسینیت کا لبادہ اوڑھ کر کیا جا رہا ہے۔
آج کے مذہب میں واضح طبقاتی تفریق موجود ہے۔ غریب کا مذہب اور ہے جو دکھ، تکالیف اور مصائب میں اس کا سہارا ہے۔ اس کے برعکس امیر کا مذہب اس کے تصنع اور نمود و نمائش کو ظاہر کرتا ہے اور بین الاقوامی سرمایہ داری کا حصہ اور اس کا محافظ ہے۔ہم سوشلسٹ غریب کے مذہب کو مانتے ہیں اور اس کا احترام کرتی ہیں۔ لیکن امیر کے مذہب کو تسلیم نہیں کرتے اور کھلم کھلا اس کا انکار کرتے ہیں۔
دور حاضر میں حسینیت ہمارے لیے ایک مشعل راہ ہے۔ ہمارے نزدیک عالمی سرمایہ دارانہ نظام آج کی یزیدیت اور بین الاقوامی سوشلزم کا پیغام اور جدوجہد آج کی حسینیت ہے۔
فیس بک کمینٹ