ایک سوشلسٹ کے لیے سرمایہ دار نجی اداروں خاص طور پر ایسے اداروں میں جو خود پر خیراتی اداروں کا لیبل لگا کر رکھتے ہیں، کام کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ ان اداروں کے اصل اغراض و مقاصد انسانیت کی فلاح نہیں بلکہ اپنے نجی، مالی یا کاروباری مفادات کی تکمیل اور تحفظ سے جڑے ہوتے ہیں۔
2014 کا سال پاکستان کی سیاسی اور سماجی تاریخ کا ایک بہت اہم سال تھا۔ اس سال موجودہ کٹھ پتلی وزیراعظم نے ایک ریکارڈ ساز طویل ترین دھرنا دیا تھا جس کا انجام اے پی ایس پشاور کے 140 بچوں کی ہلاکت کے سانحے کے ساتھ ہوا تھا۔ ان دنوں میں آغا خان ہسپتال کراچی میں پیڈیاٹرک انکالو جی یعنی بچوں کے سرطان کی تربیت حاصل کر رہا تھا اور اس کے مکمل ہونے میں کچھ ہی مہینے باقی تھے۔ عمران خان کے دھرنے کے دوران اس کے پرائیویٹ شوکت خانم ہسپتال میں کچھ عجیب و غریب واقعات رونما ہوئے۔ وہاں بچوں کے شعبہ سرطان کی سربراہ ڈاکٹر شازیہ کو اس ادارے کے میڈیکل ڈائریکٹر عاصم یوسف نے کسی ذاتی چپقلش کے بعد برطرف کر دیا۔ یہ میرے لیے بہت افسوس ناک خبر تھی کیونکہ میں شوکت خانم ہسپتال میں ڈاکٹر شازیہ کے ساتھ ایک ماہ کام کر چکا تھا. وہ بہت نفیس، قابل اور ذمہ دار ڈاکٹر تھیں۔ وہ اپنے مریض بچوں کے ساتھ بہت مخلص تھیں اور بچے ان کے ساتھ بہت انسیت رکھتے تھے۔ مجھے یہ دیکھ کر شدید حیرت ہوئی کہ پاکستان اور دنیا بھر میں پاکستان سوسائیٹی آف پیڈیاٹرک انکالوجی کے کسی رکن یہاں تک کہ ان کے اپنے ہسپتال کے ماہرین ڈاکٹروں میں سے بھی کسی نے ڈاکٹر شازیہ کا ساتھ نہیں دیا اور ان کی برطرفی پر کوئی احتجاج نہیں کیا۔ اس بےنیازی کی وجہ ایک ہی تھی کہ یہ سب لوگ خودغرض تھے اور ایک ساتھی ڈاکٹر کی وجہ سے شوکت خانم ہسپتال کے ساتھ اپنے تعلقات خراب نہیں کرنا چاہتے تھے۔
ڈاکٹر شازیہ کے ساتھ ان دنوں چھ فیلو یعنی زیرتربیت ڈاکٹر کام کر رہے تھے، ان سب نے ڈاکٹر شازیہ کی برطرفی پر بطور احتجاج اپنے شعبے میں کام کرنا چھوڑ دیا اور ہسپتال کے باہر ٹینٹ لگا کر ایک احتجاجی دھرنا دے دیا۔ان کا مطالبہ تھا کہ ڈاکٹر شازیہ کی برطرفی واپس لی جائے اور انہیں بحال کیا جائے۔ ان ڈاکٹروں میں سے ایک ناصر عباس بخاری بھی تھا، یہ ڈاکٹر ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن پنجاب کا رہنما تھا اور اپنی غنڈہ گردی کی وجہ سے بہت مشہور تھا۔ یہ ڈاکٹر مقتدر حلقوں سے تعلقات بنانے میں ماہر تھا اور شاید اس کی پوسٹ گریجویٹ ڈگری بھی انہی تعلقات یا سیاسی بلیک میلنگ کا ہی نتیجہ تھی۔ بعد میں بھی اس نے ان تعلقات کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور آج یہ لاہور کے ایک سرکاری ہسپتال میں ایک بڑے عہدے پر فائز ہے۔ خیر ناصر نے اس مسئلے پر اپنے وائی ڈی اے کے کن ٹٹوں سے رابطہ کیا۔ ان غنڈوں نے ناصر کا بھرپور ساتھ دیا اور شوکت خانم ہسپتال کے خلاف ایک تحریک کا آغاز کر دیا۔ وائی ڈی اے کی ٹیم اسلام آباد دھرنے کے دوران کنٹینر میں جا کر اس پرائیویٹ کینسر ہسپتال کے مالک عمران خان سے ملی۔ اس ٹیم کی قیادت ناصر بخاری نے کی۔ عمران خان وہاں ایک کرسی پر چپ بیٹھا رہا اور ناصر بخاری اپنے مخصوص انداز میں بولتا رہا. آخر عمران خان سے اس کی وہ بےسروپا بکواس برداشت نہیں ہوئی، اس نے گھڑی دیکھی اور وہاں سے اٹھ کر چلا گیا۔ وائی ڈی اے کو وہاں بظاہر ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا لیکن بخاری شاید اپنا مقصد حاصل کر چکا تھا۔ شوکت خانم کی انتظامیہ نے ناصر بخاری سمیت ڈاکٹر شازیہ کے چھ کے چھ زیرتربیت ڈاکٹروں کو بھی برطرف کر دیا۔
انہی دنوں شوکت خانم ہسپتال کا سالانہ سمپوزیم منعقد ہونا تھا۔ اس سمپوزیم میں ملکی اور غیرملکی ڈاکٹر شرکت کرتے ہیں اور شوکت خانم کے لیے یہ ایک بہت بڑا شو ہوتا ہے۔میرا بھی ایک پیپر اس شو میں زبانی طور پر پیش کرنے کے لیے منتخب ہوا تھا۔ وہ سمپوزیم کا پہلا دن تھا. میں لاہور ایئر پورٹ پر اترا تو مجھے کسی کا فون آیا کہ پرل کنٹینینٹل ہوٹل پر، جہاں اس وقت یہ سمپوزیم منعقد ہو رہا تھا، وائی ڈی اے کے غنڈوں نے حملہ کر دیا ہے، وہاں کے دروازے اور شیشے توڑ دیے ہیں اور شرکاء کو بمشکل وہاں سے راہ فرار اختیار کرنا پڑی ہے. شوکت خانم ہسپتال اور ریاست کے لیے یہ ایک بہت بڑی شرمندگی کی بات تھی کیونکہ غیرملکی ڈاکٹرز بھی وہاں موجود تھے. اس واقعے کی وجہ سے دنیا بھر میں ریاست کی خوب مٹی پلید ہوئی.
ان دنوں میاں شہباز شریف پنجاب کا وزیراعلیٰ تھا اور مشیر برائے صحت خواجہ سعد رفیق کا بھائی سلمان رفیق تھا. ایک دور میں سلمان رفیق اور وائی ڈی اے کی آپس میں اچھی خاصی ٹھنی ہوئی تھی لیکن بعد ازاں ان ڈاکٹر رہنماؤں نے اس سرمایہ دار سیاستدان سے ذاتی فوائد حاصل کرنے کے لیے سمجھوتہ کر لیا اور وہ وائی ڈی اے کا دوست بن گیا. شوکت خانم دھرنے اور سمپوزیم میں توڑپھوڑ کی وارداتوں میں پنجاب حکومت کے براہ راست ملوث ہونے کا راز اس وقت کھلا جب سلمان رفیق نے شوکت خانم کے برطرف ڈاکٹروں کے لیے چلڈرن ہسپتال لاہور میں خصوصی نشستوں کا انتظام کر دیا. یہ چھ برطرف فیلو فوراً بغیر کسی انٹرویو یا ٹیسٹ کے وہاں تعینات کر دیے گئے. دوسری طرف ان سب کی سپروائزر ڈاکٹر شازیہ منہ دیکھتی رہ گئیں کیونکہ ان کی امریکی ڈگری کو حکومت پاکستان کسی سرکاری ہسپتال میں کام کرنے کے لیے ناکافی سمجھتی تھی. ڈاکٹر شازیہ کو یقیناً شدید مایوسی ہوئی ہو گی اور وہ یہ سارا کھیل بھی سمجھ گئی ہوں گی. انہوں نے لاہور میں ایک نجی ہسپتال میں بہت محدود پیمانے پر کام شروع کر دیا. کچھ سالوں کے بعد ان کو بھی کوئی راستہ نکال کر چلڈرن ہسپتال میں اسسٹنٹ پروفیسر کی نوکری دے دی گئی. اس واقعے سے صاف ظاہر ہو گیا کہ وائی ڈی اے کا احتجاج ڈاکٹر شازیہ کی بحالی نہیں بلکہ حکومت پنجاب کے سیاسی حریف عمران خان کو نیچا دکھانے کے لیے کیا گیا تھا. اس سارے کھیل کا مرکزی کردار ڈاکٹر ناصر تھا جس نے اپنے نامعلوم مفادات حاصل کرنے کے لیے پانچ معصوم زیرتربیت ڈاکٹروں کو اپنے ساتھ ملایا اور ان کے تعلیمی کیریر داؤ پر لگا دیے.
ان واقعات کے کچھ دنوں بعد ایک دن مجھے شوکت خانم ہسپتال سے عاصم یوسف کا فون آیا. اس وقت میں پروسیجر روم میں مصروف تھا. میں نے ان سے کہا کہ مجھے ایک گھنٹے بعد فون کریں. پورے ایک گھنٹے کے بعد ان کی دوبارہ کال آئی. انہوں نے بہت شائستگی سے مجھ سے بات کی اور فیلوشپ کے بعد مجھے شوکت خانم ہسپتال میں کام کرنے کی دعوت دی. مجھے آغاخان ہسپتال سے انسیت ہو چکی تھی. میں چاہتا تھا کہ فیلوشپ کے بعد میں آغاخان میں ہی کام کروں. لیکن میرے لیے اس وقت وہاں کوئی پوزیشن نہیں تھی. میں نے اپنی سپروائزر ڈاکٹر زہرا فدو سے شوکت خانم کی طرف سے آنے والی آفر کا ذکر کیا. زہرا فدو چاہتی تھیں کہ میں شوکت خانم ہسپتال جانے کی بجائے ملتان جاؤں کیونکہ وہاں میری زیادہ ضرورت تھی. لیکن میں نے ان سے شوکت خانم ہسپتال میں کام کرنے کی اپنی خواہش کا اظہار کیا. اس کی وجہ یہ تھی کہ ملتان میں بچوں کے سرطان کے لیے سہولیات سرے سے موجود ہی نہیں تھیں. میں سرکاری ہسپتالوں کے ابتر حالات کی وجہ سے وہاں کام نہیں کرنا چاہتا تھا اور ملتان میں اس وقت کوئی ایسا نجی ادارہ موجود نہیں تھا جو سرطان کے بچوں کا علاج کرتا. اس کی وجہ یہ ہے کہ بچوں کے سرطان کے علاج میں کوئی منافع نہیں ہے اور ہم جانتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام انسانیت پر نہیں بلکہ منافع پر چلتا ہے.
شوکت خانم ہسپتال کے بچوں کے شعبے میں سات ڈاکٹروں کے ایک ساتھ برطرف کیے جانے کے بعد کام کرنے والوں کی شدید کمی واقع ہو گئی تھی. عاصم یوسف کے مجھے خود فون کر کے آفر دینے کی وجہ یہ نہیں تھی کہ میں اس وقت پاکستان کا سب سے قابل پیڈیاٹرک انکالوجسٹ تھا بلکہ یہ تھی کہ میں پاکستان کے سب سے بڑے نجی ہسپتال میں کام کرتا تھا نیز ان کے ہسپتال کو عملے کی قلت کی وجہ سے مجھ جیسےاندھا دھند کام کرنے والے کسی سر پھرے کی اشد ضرورت تھی. میں نے شوکت خانم میں جوائننگ سے پہلے اپنے والد سے بھی مشورہ کیا. انہوں نے مجھے وہی مشورہ دیا جو ڈاکٹر زہرا نے دیا تھا کہ بہتر ہے کہ میں ملتان واپس آ جاؤں. آپ کے بڑے آپ سے زیادہ دوراندیش ہوتے ہیں. وہ آپ سے بہتر جانتے ہیں کہ مستقبل میں آپ کے لیے کیا چیز فائدہ مند یا نقصان دہ ہو سکتی ہے. میرے والد میرے بچپن سے مجھے عمران خان کے بارے میں بتاتے آئے تھے کہ یہ شخص کتنا خودغرض، اور مکار آدمی ہے. ان کے خیال میں اس کے ادارے کی انتظامیہ کی ذہنیت بھی وہی ہو گی جو ادارے کے مالک کی ہے اور وہ سو فیصد درست تھے. سرمایہ دار کا اصول ہوتا ہے کہ وہ اس وقت تک آپ کو اپنے ساتھ رکھتا ہے جب تک اسے آپ کی ضرورت ہوتی ہے. جس دن اسے معلوم ہوتا ہے کہ کسی وجہ سے آپ اس کے کسی کام کے نہیں رہے وہ مکھن میں سے بال کی طرح آپ کو نکال کر پھینک دیتا ہے. پھر وہ یہ نہیں دیکھتا کہ آپ کتنے قابل ہیں اور اس کے ادارے کے لیے آپ نے کتنی گرانقدر خدمات سرانجام دی ہیں. سچ تو یہ ہے کہ مجھ جیسے مڈل کلاسیے کے لیے پیڈیاٹرک انکالوجی جیسے شعبے میں آنا معاشی لحاظ سے بالکل غلط فیصلہ تھا. مجھے کسی ایسے شعبے کا انتخاب کرنا چاہیے تھا جس سے میں بآسانی اپنا اور اپنے خاندان کا خیال رکھ سکتا.
9 جنوری 2015 کو میں نے شوکت خانم ہسپتال میں کام کرنا شروع کیا. شوکت خانم میں موجود میرے ساتھی ڈاکٹر میری محنت اور لگن سے بہت مطمئن تھے. وہاں مجھے کچھ تحقیقی مقالے لکھنے اور ملک سے باہر جا کر بین الاقوامی کانفرنسوں میں شریک ہونے کا موقع بھی ملا. میں 2019 میں لندن چلا گیا جہاں سے خرابی صحت کے باعث نو ماہ بعد ہی مجھے لوٹنا پڑا. میری واپسی پر شوکت خانم ہسپتال نے میرے نامکمل بیرون ملک تجربے اور بیماری کو بہانہ بنا کر مجھے نوکری سے نکال دیا. اس کے بعد 14 مہینے تک میں بےروزگار رہا اور بالآخر ایک نجی خیراتی ادارے نے ملک کے ایک دوردراز اور پسماندہ شہر کوئٹہ میں مجھے نوکری دے دی. یہ نوکری ملنے کی وجہ بھی یہ نہیں ہے کہ میں بہت ذہین اور قابل پیڈیاٹرک انکالوجسٹ ہوں بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ کوئی اور ڈاکٹر یہاں آنے کو تیار ہی نہیں ہے. اس وقت میرے سرمایہ دار ادارے کو میری ضرورت ہے. جس لمحے میرا ادارہ محسوس کرے گا کہ اسے میری ضرورت نہیں رہی وہ مکھن میں سے بال کی طرح مجھے نکال کر الگ کر دے گا. یہ فیشنی سرخا اس منحوس لمحے کا سامنا کرنے کے لیے ذہنی طور پر تیار ہے.
فیس بک کمینٹ