اگر قیام پاکستان کے بعد کی تہذیبی فضا کا جائزہ لیا جائے تو ایک طرف دہلی،لکھنؤ،الہ آباد اور دیگر ایسے شہروں سے ایسے تعلیم یافتہ افراد پاکستانی جامعات سے ،جرائد کی ادارت سے وابستہ ہوئے اور اعلیٰ اتتظامی مناصب پر فائز ہوئے کہ مقامی افراد میں سے بھی مہذب، شائستہ اور اہل وہی خیال کئے جاتے رہے،جن کا ش،ق درست ہو،جو گنگا جمنی تہذیب کو تمدن کا گہوارہ خیال کرتے ہوں اور ہند مسلم کلچر کا دل فریب رنگ خیال کرتے ہوں،یہی نہیں مشرقی پنجاب حتی کہ امرتسر سے ہجرت کرنے والے بھی کئی عشرے خود کو یہاں کے مقامیوں سے بہت بہتر خیال کرتے رہے،اس لئے یہ قرین قیاس ہے کہ ملتان زاد اسلم انصاری جس کی تہذیبی اور جمالیاتی تربیت اردو اور فارسی زبان و ادب نے کی تھی اور جن کا تلفظ اور لہجہ بے خطا اور حسن کلام قبولیت کے دروازے کھولتا ہوا تھا،کبھی بار گاہ حسن میں باریابی کے لئے اور کبھی اپنے ’متمدن‘ استاد کا اعتماد حاصل کرنے کے لئے مصلحتاً ملتانی الاصل کو چھپا جاتے ہوں گے۔اور پھر لاہورجیسا شہر جو اب ایک صدی سے ملتان سے آنےوالوں کو بھی مضافاتی خیال کرتا ہے۔اپنی چکا چوند کے لحاظ سے ایک طرف انصاری صاحب کو مسحور کرتا ہوگا دوسری طرف اپنی نسبت کے حوالے سے کسی قدر معذرت خواہ بھی بناتا ہو گا ۔لاہور سے تعلیم،روزگار،شہرت اور محبت یا محبوب کو بھی پانے کا شاعرانہ خواب ایک باصلاحیت نوجوان کا مقصود زندگی ہو تو لاہور سے ان مٹ لگاﺅ کا پیدا ہو جانا فطری ہے،اس حوالے سے ایک مرتبہ میں نے انہیں قلمی طور پر چھیڑا کہ آپ ملتان کے مقابلے میں لاہور سے زیادہ محبت کرتے ہیں بلکہ اس کے فراق میں تڑپتے ہیں تو انہوں نے مجھے جواب میں لکھا:”یہ بات دوسرے لوگ بھی بار بار کہتے رہے ہیں ۔ میں نے یہ بات خود کبھی نہیں کہی۔ البتہ جو پڑھا لکھا آدمی (لکھنے پڑھنے والا )جس نے چند سال لاہورمیں رہ کر تعلیم حاصل کی ہو ۔ لاہور کو کیسے بھول سکتا ہے ؟“۔
یہ انصاری صاحب کی خوش قسمتی ہے کہ ایک دو لڑکھڑاہٹوں کے باوجود اُن کا گھر آباد ہے، محترمہ نسرین اختر جیسی سگھڑ اور دم ساز شخصیت کے طفیل ۔جن سے اُن کے تین صاحبزادے تولد ہوئے جن میں آصف علی فرخ سول سروس میں گئے ، دوسر ے مسعودڈاکٹر ہوئے اور تیسرے قاسم انصاری تدریس سے وابستہ ہیں ، مگر فنونِ لطیف سے غیر معمولی شغف اپنے والد سے پایا اور انصاری صاحب کی کتابوں کی ترتیب وتدوین میں معاون ہوتے ہیں۔ میں ذاتی طور پرجانتا ہوں کہ اُن کی اہلیہ محترمہ اُن کی صحت اور آرام کا بہت خیال رکھتی ہیں ۔ جب کبھی مجھے انصاری صاحب کے ساتھ لاہور یا اسلام آباد کسی کانفرنس میں ساتھ جانے اور ایک کمرے میں ٹھہرنے کا موقع ملا تو وہ انہیں فون کرکے یاد دلایا کرتی تھیں کہ اب فلاں دوائی کا وقت ہوگیا ہے یا فلاں وقت تک اُنہیں سوجانا چاہیے۔ اسی طرح موجودہ گھر کی تعمیر ، تزئین ، بچوں کی شادیوں اور انصاری صاحب کی دیکھ بھال میں اُن کی توجہ کا بہت بڑا کردار ہے۔
تاہم ہر خواب پرست رومانوی تخلیق کار کی طرح کسی دل فریب چہرے کے روبرو انصاری صاحب کی حقیقی یا خیالی تشنگی ان کی پر سکون گھریلو زندگی میں ہلچل پیدا کرتی رہی ہے،جب وہ ملتان آرٹس کونسل کے ڈائریکٹر تھے تو انہیں بیشتر پُر فن خواتین سے ملنے کے مواقع ملے یا وہ خواتین معصوم اور سادہ تھیں ، مگر اسلم انصاری صاحب کے تخیل نے اُنہیں کچھ سے کچھ بنا دیا۔ اس طرح اُن کا ایک آدھ اضطراری فیصلے نے اُن کے گھریلو سکون کووقتی طور پر منتشر کردیا۔سو یہ کچھ قصہ سوتے ،جاگتے کے اوراق سے مستعار دکھائی دیتا ہے ۔میں ذاتی طور پر اس حوالے سے بہت کچھ جانتا ہوں ، مگر اُس کی تفصیل کو بوجوہ حذف کررہا ہوں۔بہر طور ایک جمالیات پرست تخلیق کار سے زاہد خشک کی زندگی کی توقع نہیں کی جا سکتی،جو معاشرے اپنے قلم کاروں اور تخلیقی و تہذیبی دنیا کے تزئین کاروں سے محبت کرتے ہیں وہ ان کی نجی زندگی کی ایک دو لغزشوں کے پردہ دار ہوتے ہیں۔
ضیاءالحق کے 11برس کے دور میں ہماری درسگاہوں میں ادبیات کے اساتدہ کی صف بندی نمایاں ہوگئی تھی ۔ ایک طبقہ وہ تھا جو بائیں بازو کے مفکرین سے متاثر تھا، ترقی پسند ادبی تحریک کی پرجوش وکالت کرتا تھا، بنیادی انسانی حقوق کا پرچارک تھا۔ اس لئے مارشل لاءلگانا یا اسلام کی آڑ میں ریفرنڈم کراکے اپنے اقتدار کو طول دینا ، زکوٰة کمیٹیاں بنانا، صلوٰة کمیٹیاں بنانااور اس طرح کے دیگر اقدامات کو معاشرے میں ریاکاری کے فروغ کا ایک وسیلہ خیال کرتا تھا۔اُن میں سے بعض اساتذہ تبادلوں کی زد میں آئے ،جیلوں میں گئے ،شاہی قلعے میں رہے یا تفتیش کا سامنا کیا جبکہ دوسری طرف وہ اساتذہ تھے جو ضیا الحق کی حلیف جماعت، جماعت اسلامی سے وابستہ تھے، تنظیم ِ اساتذہ کے بنیادی رُکن تھے اور شاید دل سے سمجھتے تھے کہ پاکستان کی نظریاتی اساس کےلئے ضیاءالحق کے تمام تر اقدامات دیرپا ثابت ہونگے،جبکہ ان کے ہمنوا ایسے لوگ تھے جو جماعت اسلامی کے پُرجوش رکن تو نہیں تھے مگر حکام رَسّی یا عافیت پوشی کےلئے ان صالحین سے قریب تر رہتے تھے ۔ میرے نزدیک اسلم انصاری صاحب کا تعلق اسی گروہ سے تھا جو صالح مفکرین یا ضیاءالحق پر اثر انداز ہونے والے لوگوں کے لئے اپنے دل میں خوف یا احترام بڑھا لیتے تھے ۔
انصاری صاحب کی راہ میں معاشی مشکلات نہ ہوتیں تو شاید وہ ایف سی کالج لاہور سے ایم اے انگریزی اور بعد میں گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے فلسفہ کرتے مگر انہیں کچھ معاشی مشکلات اور کچھ جمایاتی ترغیبات نے اورینٹل کالج کا ایک بہت اہم طالب علم بنایا۔لاہور میں اپنے قیام کے دوران جہاں انہوں نے طالب علم کے طور پر کامیابی اور کامرانی دیکھی ،اُستادوں کی شفقت دیکھی وہاں ایک بڑے شاعر ناصر کاظمی کی دوستی کے حوالے سے کچھ رنج بھی سہے ۔ اورینٹیل کالج لاہور میں ایم اے میں اول آنے کی چاہ یا وہاں کے اساتذہ کی صف میں شامل ہونے کی خواہش انصاری صاحب میں بے پناہ رہی ، مگر اس منزل کی راہ میں کچھ رکاوٹیں بھی آئیں جسے انصاری صاحب حسد پر محمول کرتے ہیں۔
ریاض انور،سردار عبدالجبار،عتیق فکری اور ارشد ملتانی بزم ثقافت ملتان کے روح و رواں رہے،اس نے ایوب خان کے دور میں جشن فرید کی طرح ڈالی اور پہلی دفعہ خواجہ غلام فرید کے کلام کو قومی سطح کی تقریب میں گایا گیا اور ان پر مقالات بھی پیش کئے گئے،اس گروپ کے فکری سر خیل اسلم انصاری تھے،اسی دور میں جیلانی کامران اور اسلم انصاری نے مل کر خواجہ غلام فرید کی کافیوں کا انگریزی میں ترجمہ کیا،پھر ایوب خان کے زمانے میں ہی پاکستان رائٹرز گلڈ قائم ہوئی اور سرکاری مراعات اور انعامات نے ادیبوں کے ایک بڑے غول کو گلڈ کی طرف مائل کیا،چنانچہ ملتان میں بھی اس تنظیم کے عہدوں میں کشش پیدا ہو گئی،سو عرش صدیقی اور ریاض انور کے مابین اختلافات پیدا ہوئے،جس کے فکری محرکات بھی ہوں گے مگر یہ شاید ’لوکل مہاجر تضاد‘ کا شاخسانہ بھی تھا،چنانچہ عرش صدیقی،مرزا ابن حنیف،سلطان صدیقی،اقبال گیلانی،فیاض تحسین ،سید ریاض زیدی اور کچھ دوسرے احباب رائیٹرز گلڈ سے مستعفی ہوکر اردو اکادمی سے وابستہ ہو گئے یوں اکادمی کے ارکان سے اسلم انصاری کا ایک ذہنی اور جذباتی فاصلہ پیدا ہوا۔
مگر بڑی پیش رفت اس خطے میں ریڈیو سٹیشن کا قیام ہے۔ریڈیو ملتان جنرل یحییٰ خان کے زمانے میں قائم ہوا(21نومبر 1970 )،اس کا سنگ بنیاد وزیر اطلاعات نوابزادہ شیر علی خان نے رکھا،انہوں نے اپنے وضع کردہ نظریہ پاکستان کی مطابقت میں سنگ بنیاد پر قمری یا اسلامی تاریخ لکھوائی(20 رمضان المبارک 1390 )اس کے دوسرے سٹیشن ڈائرکٹر الیاس عشقی غیر معمولی انسان تھے،اردو،فارسی ادبیات کا ذوق رکھتے تھے تصوف اور ثقافت سے اتنی محبت تھی کہ پہلے سندھی کو اپنے اوپر اوڑھا اور پھر سرائیکی کی طرف بھی آئے، اسلم انصاری،حسن رضا گردیزی ،عمر کمال خان اور عتیق فکری کے گرویدہ تھے وہ 10اگست 1971 سے 30 جولائی 1974 تک سٹیشن ڈائرکٹر رہے،اگرچہ پہلے دن سے ہی اس سٹیشن میں اردو کے ساتھ پنجابی اور سرائیکی نشریات کا آغاز ہو گیا تھا تاہم سرائیکی پروگراموں کی نوعیت اور دورانیے میں اضافہ دراصل الیاس عشقی مرحوم کے زمانے میں ہوا،خبروں کے ساتھ،جمہور دی آواز،ادبی پروگرام[سچے موتی] فیچر ،موسیقی اور ڈرامے سرائیکی میں نشر ہونے لگے۔مجھے وہ پہلا دن یاد ہے جب ریڈیو ملتان پر شمشیر حیدر ہاشمی،ملک عزیز الرحمن،فخر بلوچ ، قیصر نقوی،انور جٹ، اور دیگر دوستوں کی سرائیکی سن کر سڑکوں پر،گھروں میں،دکانوں اور کھیتوں میں لوگ نہال ہو گئے۔فخر بلوچ نے 1973 میں مجھ سے ایک نیم فیچر نیم سرائیکی ڈرامہ ’ساوا گھر‘ 1973 کے آئین کی منظوری کے حوالے سے لکھوایا ۔اور پھر ارشد ملتانی،حبیب فائق،عامر فہیم،طاہر تونسوی،مہر عبدالحق،عتیق فکری،اصغر ندیم سید،اسلم انصاری اور کئی دوسرے دوستوں کے ساتھ مذاکرے اور پروگرام یاد آ رہے ہیں۔18 گست 1975 کو بہاولپور میں ریڈیو سٹیشن کا آغاز ہوا تو سرائیکی قومیت اور طرز احساس کو تقویت ملی۔یہاں نصراللہ خان ناصر جیسا بہت پڑھا لکھا ثقافتی کردار ابھر کر سامنے آیا،اس نے اس خطے پر عالمی معیار کے صوتی دستاویزی پروگرام کئے،اپنی ڈاکٹریٹ کے لئے تمام کتاب خانوں کا سروے کیا اور خود بھی بہت عمدہ شاعری کی اور اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے شعبہ سرائیکی کو بھی منظم کیا۔اس کے بعد ایک بڑی پیش رفت زکریا یونیورسٹی میں 2000 میں سرائیکی ریسرچ سنٹر کا قیام ہے،جہاں ایم اے سرائیکی کلاس کا اجرا ہوا بہت عمدہ لائبریری اور میوزیم قائم ہوا اور کمپیوٹر لیب بھی۔انصاری صاحب نے اس سنٹر سے وابستہ ہو کر بھی اہم تدریسی اور تصنیفی خدمات انجام دیں۔
ریڈیو سٹیشن کے قیام اور ملتان آرٹس کونسل کے ریذیڈنٹ ڈائرکٹر ہونے کے بعد اسلم انصاری کی پذیرائی اور ثقافتی مقبولیت میں اضافہ ہوا،ان کے ساتھ جابر علی سید جیسے جمال دوست بھی تھے مگر عرش صدیقی کے برعکس انصاری اپنے طالب علموں اور دوستوںکی ہم نوائی کو تنظیمی حلقے کی قوت بنانے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے دوسرے ان کی حسیاسیت اور نرگسیت انہیں اپنے فکری ہم نواﺅں سے بھی کسی قدر فاصلے پر کر دیتی تھی،جیسے ڈاکٹر فاروق عثمان فکری طور پر انہی کی مسلک کے صاحب مطالعہ شخص تھے،ایک مرتبہ کسی اخبار کے ادبی ایڈیشن میں انہوں نے لکھا کہ اردو شاعری کی تہذیبی روایت سے اسلم انصاری کی شناسائی تخلیقی نہیں بلکہ اکتسابی ہے،انصاری صاحب نے اسے اپنے علمی انہماک اور فنی ریاضت کی تحسین کو اپنے خلاف ایک رائے خیال کیا۔
تاہم اسلم انصاری ایک فرد نہیں ایک مکتب ِ خیال کمیاب کتابوں کا کتاب خانہ اور تخلیق کے ساتھ فکر وخیال کا ایک خزینہ ہے۔ دو برس پہلے (2016)ڈیرہ غازیخان کے ایک غیر معمولی عالم، شاعر ، مترجم اور مدیر(آرگس )عزیز جاوید مرحوم (1927۔1974 )کے بیٹے تنویر جاوید کسی اساطیری کہانی کے کردار کی طرح اپنے والد کے علمی آثار کی تلاش میں میرے پاس آئے اور جب انہوں نے آسکر وائلڈ کے ڈی پروفنڈیس(De Profundis)کے تراجم اور مرزا عبدالقادر بیدل پر اپنے والد کے تحقیقی اور تنقیدی کام کا ذکر کیا کہ میں اُنہیں جناب ِ اسلم انصاری کے پاس لے گیا وہ اپنے اس ہم مشرب کے پورے کام سے واقف نکلے اور انہوں نے اس سلسلے میں بعض بنیادی ماخذات کی نشاندہی کی اور پیش کش کی کہ وہ آسکر وائلڈ کے اس ترجمے پر مقدمہ لکھنے کےلئے تیار ہیں ،مگر تنویر جاوید کسی اساطیری کے بعدیا اپنے والد کی طرح غائب ہوگیا۔
فیس بک کمینٹ