ہمیں اعتراف ہے کہ دنیا بدلی ہے،بدل رہی ہے اور شاید اسے بدلنا بھی چاہئے مگر دنیا والوں کی بڑی قسمیں وہی دو ہیں جو صدیوں سے ہیں،ایک خود کو باخبر خیال کرنے والے،تعلقات والے،بڑی گاڑیوں والے،کچھ کچھ فرعون،شداد یا نمرود کے وارث اور دوسرے وہ بے خبر جو فیض احمد فیض یا ان کے عوامی ایڈیشن حبیب جالب کو پڑھتے رہے،ایک تاخ تڑاخ کرنے والے منٹو کو پڑھتے رہے جو اس بات پر حیران ہوتے رہے کہ مرنے سے پہلے منٹو کو جب خود پر نظم لکھوانے کا خیال آیا تو اس نے منٹگمری بسکٹ فیکٹری کے مالک کی بجائے اس شہر کےایک سائیکل سوارشاعر مجید امجد سے کیوں فرمائش کی کہ مجھ پر نظم لکھو؟۔
مجید امجد نے منٹو کے ڈر سے یا منٹو کے انتخاب سے سرشار ہو کر ایک نظم بھی لکھ دی جو منٹو نے مستردکر دی کہ مجھے ٹالو نہیں، مجھے شاعرانہ استادی نہیں چاہئے،میری شخصیت اور فن پر اور غور کرو،دوبارہ لکھو، اب جھنگ، ساہیوال کے ہی نہیں کراچی،لاہور کے پڑھے لکھےمدرس جنہوں نے احمد ندیم قاسمی کے نام منٹو کے خط بھی پڑھ رکھے ہیں،سب کہتے ہیں کہ جس شاعر کی اولاد نہیں تھی مگر وہ اسکول جاتی ’پھولوں کی پلٹن‘ سے پیار کرتا تھا،اس پلٹن میں وہ اپنے جیسے بچے کو بھی پہچان لیتا تھا جس کی ماں نے بِنا بٹن کے کاج میں قمیض کا پلو اڑس کے نلکے کی ہتھی کے گرد جمع ہونے والے’’کاجل‘‘سے اسے تِل لگا کے پڑھنے کیلئے بھیجا تھا اوربعد کے زمانوں میں محکمہ خوراک کے اہل کاروں کی پیدا گیری کے قصوں کے باوجود اپنی ایمان داری میں مگن تھا اس لئے کسی افسر کی بھی ہدایت قبول نہیں کرتا تھا اس نے کیوں منٹو پر دوبارہ نظم لکھی؟ شاید وہ جانتا تھا کہ غریبوں کے بچوں کوا سکول بھیجنے کیلئے ان کی ماؤں کی چوڑیاں دنیا کے خونی بازاروں میں ایک ایک کرکے بِکتی ہیں پھر بھی وہ جیون دیس کےہر موڑ پر زخمی کلیوں کے کنٹھے فروخت کرتا ہے،اگر اس کا باپ پنواڑی تھا جو سگریٹ کی خالی ڈبیوں سے تاج محل بناتے چل بسا تھا تو پھر اس کا کم سن بالا ہوکے کتھا،پان سپاری کی وراثت سنبھال لیتا ہے؟
اگر میں نے شب رفتہ کے سب کرداروں کا ذکرکرنا اور منٹو، مجید امجد تعلق کے حوالےسے لکھنا شروع کیا تو پھر یہ کالم کلاس روم لیکچر ہو جائے گا اس لئے بہتر ہے کہ دنیا کی سادہ تقسیم پر ہی رہیں،بے خبروں اور باخبروں کی دنیا ،غریبوں اور امیروں کی دنیا!بہتر ہے کہ کیوں(؟) کی طرف نہ جائیں کہ سارا فساد یہ کیوں ہی ڈالتا ہے۔ اگر کوئی اپنی بےخبری، غریبی اور اپنی سائیکل کے ساتھ خوش ہے تو ہم ’کیوں‘ جیسے سوال کے ساتھ اسے افسردہ یا ناراض نہ کریں۔ آخراسے اپنے جیسے لوگوں نے لوریاں دی ہوں گی،روحانی دلاسے دئیے ہوں گے،طاقتوروں کے لکھے ہوئے رقعےیا تعویزان کی بے روزگاری کا سہارا یا آسرابنے ہوئے ہیں تو ہم آپ کون ہیں ان کی بیساکھیاں چھیننے والے؟ بہتر ہے ہم کیوں کے ساتھ کون کا بھی استعمال کم سے کم کریں۔وگرنہ یہ بڑی بڑی گاڑیاں چلتے وقت آنکھیں ماتھے پر رکھ کے، چنگھاڑ کے جو کہتی ہیں ہٹ جاؤ میرے سامنے سے میرا حق موٹر وے پر،ریلوے پھاٹک پر ،ٹول پلازے پر پہلے ہے ہم آپ ان سے کون ہیں پوچھنے والے کہ کیا اس گاڑی کی رجسٹریشن ہو چکی ہے؟ اس کے امیر کبیر مالک کی کم عمر بیٹی یا بیٹے یا منہ زور مالکن نے ڈرائیونگ لائسنس بھی بنوا رکھا ہے یا نہیں؟کل کے اخبارات میں ہی ایک خبر مجید امجد،منٹو یا فیض یا جالب کے پرستاروں کیلئے ایک نعرے کی طرح گونج رہی ہے ’’ ڈھائی برس پہلے برطانیہ سے مہنگی ترین گاڑی چرائی گئی تھی،تب اس کے ٹریکر کا رابطہ لیڈز سے منقطع ہو گیا تھا اب اس برس گیارہ فروری کو یہ گاڑی کراچی کی سڑکوں پر پھر سے چنگھاڑتی پھرتی ہے،چنانچہ انٹر پول مانچسٹر نے سندھ پولیس کو یہ گاڑی تحویل میں لینے کی ہدایت کی ہے‘‘ کیا ہمیں سوال کرنا چاہئے کہ کیا یہ بین الاقوامی معاہدہ گاڑی چرانےوالے یا چوروں کا مال خریدنے والے پر لاگو ہو گا؟ اگر یہ بڑی گاڑی پکڑی جائے تو اسے سپرداری پر اصل مالک تک پہنچنے میں کتنا عرصہ لگے گا؟ اور اگر یہ پہنچ بھی جائے تو کیا اس کا انجن اور دیگر قیمتی پارٹس سلامت رہ سکیں گے؟ اشفاق احمد(تلقین شاہ) کے بارہ افسانے اسی موضوع پر ہیں(طلسم ہوش افزا)کہ جس پجیرو وغیرہ میں ہماری جان اور آن بان ہے اس کی بھی ایک یادداشت ہوتی ہے رجسٹریشن بک اور ڈرائیونگ لائسنس سے زیادہ پکی !
پہلے گاڑیاں چوری ہوتی تھیں تو باخبر کہتے تھے کہ علاقہ غیر چلے جائیں یا کشمور کے سرداروں یا ان کے خدا ترس بیٹوں سے رابطہ کریں یہاں پاکستان کے چاروں صوبے آپس میں ملتے ہیں رشتوں ناطوں میں بھی،کاروبار اور ثالثی یا پنچائت کی شریفانہ فیس کے حوالے سے بھی اور یہ علاقہ غیرآج کا نہیں انگریزوں کے زمانے کا ہے،کبھی اس علاقے کے عجب خان پر فلمیں بنتی تھیں پشتو اور اردو کی ملی جلی زبان میں میری عمر کے لوگوں کو اس نام کی فلم یاد ہوگیہمارے لالہ سدھیر اس کے ہیرو تھے جس انگریز خاتون کو یہ اٹھا کے لائے تھے وہ ان کے شرم و حیا سے متاثر ہو کر مسلمان ہو جاتی ہے،اسی فلم کے ایک مقبول گانےکو ہمارے کوچہ و بازار میں گایا جاتا تھا ’’بخیر راغلے‘‘!
اسی کیفیت میں میں نے حمرا خلیق کی کتاب اٹھا کے پڑھنی شروع کی’’سجنوگ‘‘ جو موریگ مرے عبداللہ کی کتاب’’مائی خیبر میریج‘‘ کا ترجمہ ہے۔ حمرا خلیق رابعہ پنہاں کی بیٹی ہیں،دہلی میں پیدا ہوئیں اور اپنے بیٹوں،بہوؤں پوتیوں اور کتابوں کی محبت میں کراچی سے اسلام آباد کے درمیان محو سفر رہتی ہیں انہوں نے اس ترجمے کو اپنی ہونہار شاگرد زاہدہ حنا کے نام معنون کیا ہے اور اسے اشارات کراچی نے کوئی سات برس پہلے شائع کیا تھا اور پڑھنے کا شوق رکھنے والے طالب علموں کو تب بھی آزمائش میں ڈالا تھا کہ وہ آئس کریم کے ایک کپ کی قربانی دیں اور یہ کتاب خرید لیں۔
( بشکریہ :روزنامہ جنگ )
فیس بک کمینٹ