اٹ از براٹ ٹو ، یوبائے ۔۔۔۔ویلکم بیک۔۔۔
اردو خبروں کے آغاز میں ”اٹ از براٹ ٹو ، یوبائے“کہنا ضروری ہوگا۔ شاید کہ کسی امدادی ،مالیاتی ادارے نے یہ شرط لازم قرار دی ہو کہ جب تک آپ اپنی شناخت، اپنی قومی زبان کو ختم کرنے کی مہم میں ہمارا بھرپور ساتھ نہیں دیں گے، ہمارے این جی اوز کے ذریعے ملنے والی امداد آپ کو نہیں مل سکے گی۔ اور یہ کہ ہروقفے کے بعد گفت گو جاری کرتے ہوئے ویلکم بیک کہنا بھی آپ پر لازم ہوگا۔
ممکن اوربہت ممکن ہے۔ الگ قومی شناخت پر ناراض ہوجانے والوں نے اشارہ دیا ہو، جب تک آپ اپنی اس تہذیبی شناخت کے ا س خانے میں نقب نہیں لگائیں گے، آپ کادامن مراد، ہماری عطا سے بھرجائے ،یہ خیال دل سے نکال دیجئے۔
اوریہ بھی امکان ہے ،جیسا میں سوچ رہا ہوں، یہ سب کچھ میرا قیاس ِبد ہو۔یہ صورت احوال محض غفلت و لاپرواہی کاشاخسانہ ہو۔ یا یہ کہ ٹی وی نیٹ و رک چلانے والوں کاخیال ہو، اردو خبریں سننے والے ہمارے ہم قوم عوام کو ” اتنا سا فقرہ “تو انگریزی زبان کاضرور ازبر ہو کہ بلبلے کی مومو کی طرح بہ وقت ضرورت تفاخر کے طورپر کام آسکے۔
بہرحال جوکچھ بھی ہو،یہ ایک قومی المیہ ضرور ہے۔ ٹیلی ویژن نیٹ ورک چلانے والے سرمایہ کار قومی مفادات سے یکسر غافل ہیں۔ انہیں ملت کے تحفظات کاخیال ہرگز نہیں حالانکہ یہی ابلاغیات واطلاعات کے ادارے، کبھی ہماری تہذیبی شناخت اور ہمارے تمدن کے اظہار کا ایک بڑا ذریعہ سمجھے جاتے تھے۔ ان کے استعمال میں آنے والے لفظوں اور زبان کے لہجے کو عوام میں ایک سندکی حیثیت حاصل تھی۔حتی کہ ا ن کے ہاں کام کرنے والوں کے لباس ،عادات اور پیکرِ شخصی کو بھی لوگ ایک تمثال کے طورپر دیکھا کرتے تھے۔ہمارے کلچر کایہ ایک ایسا شاندار گھرانا تھا، جس میں رہنے والوں کولوگ آنکھوں میں بٹھائے پھرتے تھے۔ اب تو ان سے افراتفری، بے تہذیبی ، اخلاقی اہانت کے وہ وہ منظر دیکھنے کو ملتے ہیں کہ توبہ ہی بھلی۔کوئی تہذیبی قدربھی زندہ سلامت دکھائی نہیں دیتی۔ہمارے ناپختہ ذہن بچے، ٹی وی کے ٹاک شو، مباحثے، مکالمے، تجزیئے یاتبصرے دیکھتے ہوئے، ان کے درمیان کلام، باہمی توتکار، برہمی، غیظ و غضب کے ایسے ایسے منظر دیکھ پاتے ہیں جن کو، اگر کوئی صاحب نظر دیکھے تو استغفر اللہ کہہ کر کانوں پہ ہاتھ رکھ لے۔ یہ آداب معاشرت یہ اخلاقیات ،جس پر کبھی ہمیں ناز تھا، ہمارے اپنے ہی ہاتھوں ،تباہ ہوگی، کسے معلوم تھا۔
تمدن،تہذیب اورمذہب کی نظریاتی بنیادوں پر جب کوئی ریاست قائم ہوتی ہو، تب تو اس پر یہ فرض اور بھی لازم آتا ہے کہ وہ اپنے وجود کے ایک ایک عضو کی حفاظت کرے۔ لیکن ایسا ہوتا نظرنہیں آرہاہے۔ ہماری حکومتیں اپنے آپ کو بچانے کی فکر سے فرصت پالیں توشاید پھرادھربھی دیکھیں۔ہم سدا سے یہ سنتے آئے ہیں۔ درمیان کلام دوسرے کو نہ ٹوکو۔ دوسرے کی بات کاٹ کرخود بولناشروع نہ کردو۔ مجلس میں جب بولنے کو کہا جائے ،تب بولو۔دوسرے سے ہرگزنہ کہو، آپ میری بات سمجھے نہیں، بلکہ یوں کہو۔ میں یہ بات آپ کوسمجھا نہیں پایا۔ اخلاقیات کی تاکید کا ایک وہ عالم تھا، اور ایک یہ جسے ہمارے بچے ،روزوشب (ہرشام وشب)پردہ سیمیں پر دیکھتے رہتے ہیں۔اس تہذیبی پس منظر میں کوئی قوم پل بڑھ کر جوان ہوگی، اقوام عالم کوکیا منہ دکھائے گی؟ تہذیب کی شکست وریخت کا اب یہ عالم ہے ۔کوئی کچھ نہیں کہتا، نہ روکتا ہے۔نہ ٹوکتا ہے۔ پچھلے دنوں ٹی وی کے ایک چینل پر اسمارٹ فون کا اشتہار آرہاتھا۔ ایک شخص اپنے کتاب خانے کی الماری سے کتاب نکالنے کی خاطر سیڑھی لگاتا ہے ،دوقدم اوپرآتا ہے ،نیچے کھڑا ہاتھ میں موبائل لیے آدمی اس کے قدم روک کے کہتا ہے،ٹھہرو، یہ زحمت نہ کرو۔۔۔ یہ لو اسمارٹ فون۔۔۔۔ اس میں سب کچھ ہے۔ اس طرح کے تہذیب شکن ہما ری اخلاقی قدروں کے تباہ کردینے والے بے شماراشتہار ہردن اورہررات ہمیں دیکھنے کو ملتے ہیں۔
( زیر طبع کتاب ” میرا فرمایا ہوا کا ایک باب )
فیس بک کمینٹ