اے دانائے راز ! ہرپل ہر لمحہ امت مسلمہ کہ بگڑتی ہوئی سیاسی ، سماجی ، معاشی معاشرتی اور اخلاقی صورت حال آپ کی یاد دلاتی ہے۔ آپ نے تو قومی مقاصد کو ترجیح دینے، قومی وقار کے لئے غوروفکر کرنے اور عملی جدوجہد کے اوصاف کی بھی نشاندہی کر دی تھی مگر حالات جوں کے توں رہے۔
حضرت! ہمیں تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا، میں تو یہ سوچ کر حیران ہوتی ہوں کہ غیر مسلم بھی آپ کی علمی فضیلت اور فکری توانائی کا اعتراف کرنے پر مجبور تھے۔مجھے یاد ہے جب پروفیسر نکلسن نے ”مثنوی اسرار خودی “ کا انگریزی ترجمہ کرنے کی اجازت طلب کی تو آپ شدت غم سے رو پڑے اور فرمایا ” میرا پیغام تو اپنوں کے لئے تھا “
مجھے یہ بھی یاد ہے جب امریکہ کے دانشور ڈاکٹر ہربرٹ ریڈ نے 15 اگست 1921 کو تبصرہ کرتے ہوئے لکھا
” میرے ذہن میں اگر کسی زندہ شاعر کا خیال آ سکتا ہے تو وہ ایک ہی ہے اور وہ بھی لازمی طور پر نہ ہمارا ہم قوم ہے نہ ہمارا ہم مذہب۔۔۔ میری مراد اقبال سے ہے “
لمحہ فکریہ ہے ڈاکٹر ہربرٹ ریڈ جیسا جذبہ عقیدت ہم میں کیوں نہیں؟
حکیم الامت!
میں برملا اعتراف کرتی ہوں کہ حیات اور حیات ابدی میں جو ایک قدم کا فاصلہ ” خودی “ کا تھا وہ ہم نے تحریر و تقریر تک ہی محدود رکھا ۔ آپ نے تو زندگی کو ایک وحدت کے روپ میں دیکھنے کا سبق دیا کیونکہ یہی حقیقت ہے کہ زندگی، سماجی اقدار اور فرد سب بیک وقت ایک وحدت اور اجزا کا روپ ہیں ۔ ان میں سے ہر ایک اپنی انفرادی حیثیت میں ایک کل ہے اور اجتماعی حیثیت میں ایک جزو کا روپ ہے۔۔۔۔ جب آپ نے فرد اور اجتماع کے دائمی روابط اجاگر کیے تو یہ سیاسی طور پر نہ تھا بلکہ یہ باور کروانا مقصود تھا ۔
بازو تیرا توحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام تیرا دین ہے تو مصطفوی ہے
آپ کی فکر کا محور اور مرکز امت مسلمہ ہے یہ امت تو قرآن کی امین ہے ، حامل قرآن ہے ، امت وسط ہے یہ امت نہ صرف اپنے احوال سنوار سکتی ہے بلکہ وحدت انسانی اور مساوات انسانی کے پیغام کو پوری دنیا میں پھیلا نے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے آپ نے فرمایا
بے خبر ! تو جوہر آئنیہ ایام ہے
تو زمانے میں خدا کا آخری پیغام ہے
آپ تو بحیثیت پیامبر اپنی ذمہ داری نبھا گئے اور ۔۔۔۔۔ مجھے یقین ہے کہ بارگاہ الہی میں آپ یقینا سرخرو ہونگے اور عشق رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا جو اضطراب تمام عمر سینے میں موجزن رہا اب ۔۔۔۔ وصال رسول سے ہمکنار ہو کر ابدی تسکین پا چکا ہو گا آپ نے امت مسلمہ کو جو پیغام دیا تھا کہ ” اسلام بادشاہوں کے آسمانی حقوق Divine rights of king کے نظریے پر کاری ضرب لگاتا ہے اور ان الحکم الا للہ کا نظریہ پیش کرتا ہے “
امید واثق ہے کہ یہ نظریہ ضرور غالب آ کر رہے گا اور مجھے اس پر بھی کامل یقین ہے کہ 9 نومبر کی تاریخ اس فتنہ پرور دوراور آفتوں کے ابتلاء میں ابھی بھی نظر آتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ اور آتی رہے گی ۔
فیس بک کمینٹ