پنجاب یونیورسٹی سے فزکس میں ماسٹرز کے بعد فارغ ہوا تو گھر جا کر کس اچھی ملازمت کی تلاش شروع کردی۔ میرے والد قسور گردیزی ان دنوں پاکستان کے سب سے بڑے سیاسی مقدمہ ( حیدر آباد سازش کیس ) میں خان عبدا لولی خان، سردار عطاءاللہ مینگل،سردار خیر بخش مری، میر غوث بخش بزنجو، اجمل خٹک، حاجی غلام احمد بلور اور نیشنل عوامی پارٹی کے چاروں صوبوں سے تعلق رکھنے والے دیگر ساٹھ کے قریب رہنماؤ ں کے ہمراہ سندھ کے شہر حیدرآباد کی جیل میں تھے۔ بھٹو دور میں بنائے گئے نام نہاد غداری کیس میں یہ تمام سیاسی رہنما پابند سلاسل تھے۔ یہ مقدمہ پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت نے نیشنل عوامی پارٹی (نیپ ) کی بلوچستان اور سرحد، موجودہ خیبر پختون خوا کی حکومتیں برطرف کر نے کے بعد، اور NAP کو کالعدم قرار دینے کے بعد درج کیا۔
والد صاحب کے جیل چلے جانے کی وجہ سے گھر کا ماحول زیادہ متاثر ہوا۔
ہمارے گھروں کے ارد گرد گمنام لوگ سادہ کپڑوں میں گھومتے نظر آنے لگے۔ ہم نوجوان بھی ان دیکھے خوف میں رہنے لگے۔ دوستیاں بھی متاثر ہوئیں ۔ ہمارے گھر میں بھی سپیشل برانچ کے لوگوں کا آنا جانا لگا رہا۔ والدہ ہمارے بارے میں فکرمند تھیں اور غیر ضروری طور پر گھر سے نکلنے کی سختی سے حوصلہ شکنی کرتی تھیں۔ہمارے ماموں
میاں چنوں کے پیر ظہور حسین قریشی جو مرحوم پیر شجاعت حسنین قریشی کے والد تھے اور میری بڑی خالہ کے شوہر نامدار تھےان کا اس وقت کے وزیر اعظم ذوا لفقار علی بھٹو سے خوب یارانہ تھا۔
میری والدہ نے غالباً اپنے بیٹوں کے بارے میں بڑی بہن شیریں زہرا سے بات کی ہوگی۔ ایک دن امی جان نے کہا کہ تیار ہو کر میاں چنوں اپنی خالہ کےگھر چک 44 کار پر جاؤ تمہاری جاب کیلئے کوئی بینک کا آفیسر جو پیر صاحب کا دوست بھی ہے آرہا ہے۔ پہچنا تو معلوم ہوا کہ مسلم کمرشل بینک کے صدر مصطفے اسماعیل ماموں کے مہمان تھے۔ سلام دعا کے بعد تمام موجود آفیسروں کا گپ شپ کا سلسلہ چلتا رہا اور میں ان کے ڈرائینگ روم کےصوفہ پر خاموشی سے براجمان رہا، اچانک پیر صاحب نے موضوع میری طرف موڑا اورمیری تعلیم اور اپنی رشتہ داری بتاتے ہوئے اسماعیل صاحب کو مجھے بینک آفیسر کی ملازمت دینے کی خواہش کی۔
صدر بینک میری طرف متوجہ ہوئے اور مجھ سے چند رسمی سوالات پوچھے اور پھر اپنے سیکرٹری کو ان کا کارڈ دینے کا کہا۔ جس پر انہوں نے ملتان کے جنرل مینیجر کو میرا نام اور اس کے ساتھ appointed لکھ کر دیا ۔
ملتان ریجن کے جنرل مینیجر وہیں موجود تھے ۔ اس طرح اگلے دنوں میں مجھے تقرری کا خط موصول ہوا اور مجھے مسلم کمرشل بینک حرم گیٹ برانچ رپورٹ کرنے کا حکم نامہ ملا۔
حرم گیٹ 1973 ء میں اتنا گنجان اور بے ہنگم نہیں تھا۔ حرم گیٹ برانچ کے مینیجر احمد کریم نہایت ہی نفیس انسان تھے ۔ مجھے بہت احترام سے بینک کا ہلکا پھلکا کام دیتے تھے لیکن میری ذاتی خواہش پر انہوں نے مجھے بینک کے ہر شعبہ میں کچھ دن کام کرنے کی اجازت دی۔ ۔ڈاک ڈسپیچ، کیش کاونٹر، ٹی ٹی، لون ڈیپارٹمنٹ اور مارکیٹ میں پبلک ریلیشنزوغیرہ ۔
تین ماہ بعد ہمیں کراچی بھجوا دیا گیا جہاں کلفٹن ساحل سمندر کے قریب ایک ٹریننگ انسٹیٹیوٹ 102 اولڈ کلفٹن پر واقع ہے پہنچا دیا گیا ۔ اس تربیت گاہ کے قریب ہی ذوالفقار علی بھٹو کا 70 کلفٹن واقع ہے۔ میرے ساتھ تربیتی گروپ میں پاکستان کے سارے صوبوں سے ساٹھ کےقریب بینک کے ٹرینی آفیسرز آئے ہوئے تھے۔ صبح 9 سے دوپہر 2 بجے تک کلاسیں لگتی تھیں شام کو فارغ ہو کر اکثر کلفٹن کے سمندری ساحل کی مٹر گشت میں گزرتا تھا۔
کراچی کی چھ ماہ کی ٹریننگ کے دوران مجھے پاکستان میں بسنے والی ساری قومیتوں کے افراد دیکھنے کا موقع ملا اور یہ احساس ہوا کہ کراچی کو صغیرہ پاکستان
” Mini Pakistan ” کیوں کہا جاتا ہے
کلفٹن کی پڑھائی کے ساتھ ساتھ ٹریننگ پانے والے افسروں کو مسلم کمرشل بینک کراچی کی مختلف برانچوں میں تعینات کر دیا گیا جہاں عملی ٹریننگ کا سلسلہ تین ماہ تک جاری رہا۔ مجھے کراچی کی مرکزی برانچ آئی آئی چندریگر روڈ برانچ
I. I. Chandigarh Road
میں تعینات کیا گیا۔ جس کا مینیجر بہت سخت گیر Sakarani
ساکرانی صاحب تھے۔
میری بینک ملازمت کا عرصہ فقط چار سال تک محیط تھا۔جس دوران میں نے چھ ماہ ٹریننگ میں گزادیے۔ پہلی تعیناتی کراچی میں تھی ۔ بہتر رزلٹ دینے پر بینک کے نئےصدر ارادت حسین نے میری خواہش پر ملتان ریجن کے بجائے مجھے لاہور ریجن بھیج دیا جہاں مجھے لاہور کی دوسری بڑی برانچ مال روڈ برانچ میں لگایا گیا۔ اس برانچ کا سارا عملہ لاہوری تھا چالیس افراد پر مشتعمل یہ افراد مجھ سرائیکی کے ساتھ بڑی محبت سے پیش آتے تھے۔ برانچ کے چیف مینیجر ناصر حسین شاہ جو سینئر وائس پریذیڈنٹ تھے ساری بینک کی خط و کتابت انگریزی میں مجھ سے کرواتے تھے۔مجھے ایڈوانس ڈیپارٹمنٹ الا ٹ کیا گیا۔ مینیجر کے محبت بھرے رویئوں اور سارے افراد کی رہنمائی سے لاھور میں ڈیڑھ برس بڑے خوش و خرم انداز میں گزرا
کچھ عرصہ بعد ہیڈ آفس کی ہدایت پر میرا ملتان ریجن تبادلہ کر دیا گیا جہاں آتے ہی ملتان نواں شہر کی نئی برانچ کا افتتاح ہوا اور مجھے مینیجر بنا د یا گیا۔ میں ان دوستوں کا تا مرگ شکر گزار رہوں گا اور پروردگار عالم کا شاکر ہوں۔
پھر اپنے والد سید محمد قسور گردیزی کی خواہش پر ملازمت سے استعفا دے کر زراعت اورمینگو گرور بننے سے پہلے مجھے دو ملازمتوں کا موقع ملا جن کی وجہ سے میں عام ضرورت مند ملازمت پیشہ افراد سے کندھا ملانے اور بہت کچھ زندگی کے نشیب وفراز سے آگاہ ھوا۔ جس کی علیحدہ تفصیل لکھنے کا دل چاہتا ھے۔ وہ باتیں اور مجھ جیسے عام انسان کی کہانی جس کو سننے اور پڑھنے کیلئے شاید آج کسی کے پاس وقت ہو۔ سردست اس تحریر کو لکھنے کا مجھے خیال اس وقت آیا جب مجھے بینک کا ڈیوٹی کارڈ کاغذات میں ملا جس پرمیری یہ تصویر چسپاں تھی ۔اسی بہانے آپ کو بینک کے زمانے کی کہانی سنا دی ۔
فیس بک کمینٹ