پچیس جون سے اب تک احمد پور شرقیہ میں رونما ہونے والے سانحے سے متعلق حقائق،واقعات اور لوگوں کے خیالات جیسے جیسے سامنے آ ئے تو ساتھ ہی ساتھ پریم چند کا افسانہ کفن،منٹو کا افسانہ نعرہ اور عصمت چغتائی کا افسانہ دو ہاتھ یکے بعد دیگرے ذہن کے پردے پر نمودار ہوتے گئے۔
پریم چند کے افسانہ "کفن” کے آغاز میں ہی منظر نگاری اور صورت حال بیان کرتے ہوئے بتا دیا جاتا ہے کہ الاؤ روشن ہے اور گاؤں کے دو چمار اور افسانے کےمرکزی کردار مادھو (باپ) اور گھیسو (بیٹا) اس کے گرد بیٹھے کھیت سے چوری کئے ہوئے آلو بھون کر کھا رہے ہیں۔اور اندر گھیسو کی بیوی دردہ زہ سے پچھاڑیں کھا رہی ہے۔ اور دونوں میں سے کوئی بھی اس کی خبر گیری یا اس حالت میں اس کی مدد کے لئے کسی کو بلانے کی خاطر اٹھ کر جانے کو تیار نہیں کہ کہیں دوسرا اس کے حصے کے یا باقی سارے آلو نہ کھا جائے۔ اور صبح جب گھیسو اندر جاتا ہے تو وہ بہت ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر چکی ہوتی ہے۔اور جب وہ دونوں گاؤں کے مکھیا اور دوسرے لوگوں سے پیسے اکٹھے کر کے کفن خریدنے کے لئے شہر جاتے ہیں تو ان پیسوں سے ایک ڈھابے پر بیٹھ کر پوری کباب کھاتے ہیں اور شراب کے نشے میں دھت ہو کر وہیں گر جاتے ہیں۔
بلا شبہ پریم چند اپنے عظیم افسانے میں اس اذیت ناک صورت حال اور باپ بیٹے کے ان دونوں کرداروں کے مکروہ پن،بے حسی اور ڈھٹائی،کام جوری،اور دوسری کرداری خامیوں کو بہت مہارت اور کامیابی سے پیش کیا ہے۔
کیونکہ ایک بڑا اور حساس تخلیق کار صورت واقعہ اور کسی بھی کردار کی محض سطحی یا ظاہری پیشکش ہی نہیں کرتا۔بلکہ وہ اپنے تمام تر معاشرتی ، تاریخی، معاشی اورمذہبی شعور کو بروئے کار لا کر ایسی صورت حال اور ایسے کج رو کرداروں کے رویوں کے لئے ان تمام عوامل اور رویوں کا کھوج لگاتا ہے جو مادھو اور گھیسو جیسے کرداروں کو تشکیل دینے کا سبب بنتے ہیں۔بالکل ایک ماہر طبیب اور ماہر نفسیات کی طرح جو بیمار جسم اور بیمار ذہن کی بیماری کی تشخیص کرتے ہیں۔اور اس ضمن میں وہ تمام علامات اور وجوہات پیش نظر رکھتے ہیں جو ان جسمانی یا ذہنی عوارض یا بگاڑ کا باعث بنتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ برے سے برے یا خطرناک مرض کا شکار مریضوں سے بھی ان کا رویہ ہمدردانہ اور مسیحانہ ہوتا ہے۔ وہ مریض سے نفرت کرنے اور اس کو اس خطرناک یا گندی بیماری کے ہاتھوں مرنے کے لئے نہیں چھوڑ دیتے بلکہ اس بیماری اور اس بیماری وجوہات کو ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔اور ایک بڑا ادیب اپنے قلم سے مسیحائی کرتا ہے۔
"کفن” افسانے میں جہاں پریم چند ان دونوں کرداروں کی کام چوری اور اور ڈھٹائی کا ذکر کرتے ہیں وہیں اس طرح کی کج روی کے پیدا ہونے کا ایک سبب کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں
"جس سماج میں دن رات محنت کرنے والوں کی حالت ان سے کچھ اچھی نہ تھی۔اور کسانوں کے مقابلے میں وہ لوگ جو کسانوں کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانا جانتے تھے،کہیں زیادہ فارغ البال تھے۔وہاں اس طرح کی ذہنیت کا پیدا ہو جانا کوئی زیادہ تعجب کی بات نہ تھی”
اسی طرح جب دونوں باپ بیٹا بدھیا کے کفن کے پیسوں سے عیاشی کر رہے تھے۔تب کہیں ضمیر کی چبھن کے نتیجے میں وہ خود کو یہ کہہ کر تسلی دیتے ہیں جبکہ یہ مکالمے بہت تلخ حقیقت بھی ہیں
"ہاں بیٹا،بیکنٹھ میں جائے گی۔ کسی کو ستایا نہیں،کسی کو دبایا نہیں۔مرتے مرتے ہماری زندگی کی سب سے بڑی لالسا پوری کر گئی۔وہ نہ بیکنٹھ میں جائے گی تو کیا یہ موٹے موٹے لوگ جائیں گے جو گریبوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے ہیں اور اپنے پاپ دھونے کے لئے گنگا میں نہاتے ہیں اور مندر میں جل چڑھاتے ہیں”
عصمت چغتائی کے افسانے "دو ہاتھ”میں جب گاؤں کی معزز مہیلائیں بوڑھی مہترانی جس کا بیٹا رام اوتار لام پر گیا ہوا ہے کو بلوا کر اسے بہو کی بد کرداری کے طعنے دیتی ہیں اور کہتی ہیں کہ اس کو میکے پھنکوا دو تو وہ اپنی مجبوری کا بیان کرتے ہوئے اس طرح انکار کرتی ہے کہ بہو مفت نہیں آئی دو سو روپے جھونکے ہیں۔اور بہو دو ہاتھ والی ہے چار آدمیوں کا کام نبٹاتی ہے۔رام اوتار کے جانے کے بعد کیا بڑھیا سے اتنا کام سنبھلتا۔یہ بڑھاپا تو اب بہو کے دو ہاتھوں کے صدقے میں بیت رہا ہے۔اور ایک جگہ کہتی ہے کہ پتہ نہیں اس نے اوراس کی معصوم بہو نے لوگوں کا کیا بگاڑا ہے۔ مہترانی سے کسی کا میلا نہیں چھپتا۔ان بوڑھے ہاتھوں بڑے بڑے لوگوں کے گناہ دفن کئے ہیں۔یہ دو ہاتھ چاہیں تو رانیوں کے تخت الٹ دیں۔
رام اوتار کے لام سے واپس آنے کے بعد جب اسے اس کے ناجائز بیٹے کا طعنہ دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اپنی بیوی کو اس ناجائز بیٹے سمیت میکے بھجوادو تو رام اوتار یہ کہتے ہوئے ندامت سے سر جھکا لیتا ہے کہ سرکار لونڈا بڑا ہو جاوے گا تو اپنا کام سمیٹے گا۔وہ دو ہاتھ لگائے گا سو اپنا بڑھاپا تیرا ہو جاوے گا۔
اور آخری اقتباس ملا حظہ فرمائیں۔جس کی زہرناکی اور کڑواہٹ کو برداشت کرنا اور پی جانا کسی بھی نام نہاد معزز ،باشعور اور مہذب معاشرے کے بس کی بات نہیں۔
"یہ ہاتھ نہ حرامی ہیں نہ حلالی،یہ تو بس جیتے جاگتے ہاتھ ہیں۔جو دنیا کے چہرے کی غلاظت دھو رہے ہیں۔اور اس کے بڑھاپے کا بوجھ اٹھا رہے ہیں۔یہ ننھے منھے مٹی میں لتھڑے ہوئے سیاہ ہاتھ دھرتی کی مانگ میں سندور سجا رہے ہیں۔”
منٹو کا افسانہ” نعرہ”میں منٹو نے ایک ایسے غریب اور مجبور لیکن خود دارآدمی کی نفسیاتی کشمکش کو بہت دردمندی اور مہارت سے پیش کیا ہے۔جس کو اپنی محنت اور خودداری پر بہت غرور ہے لیکن جب لگاتار پانچ سال وہ کھولی کا کرایہ سیٹھ کو ادا کرتے رہنے کے بعد محض دو ماہ کا کرایہ بروقت نہیں دے پاتا کہ اس کی حاملہ بیوی کی بیماری اور اسکے علاج پر سارے پیسے لگ جاتے ہیں۔تو سیٹھ اس کو غلاظت بھری گالیاں دے کر نہ صرف اس کی عزت نفس کی دھجیاں اڑا دیتا ہے بلکہ اس کی خودداری کے احساس کو بھی تباہ و برباد کر دیتا ہے۔اور اس ساری ذلت کے نتیجے میں ایک اذیت ناک نفسیاتی کشمکش کا شکار ہونے کے بعد جب وہ اس سیٹھ کی بلڈنگ کے نیچے کھڑا ہو کر منہ اوپر کرکے اپنے اندر کی ناقابل براشت اذیت کو ایک فلک شگاف نعرہ کی صورت میں چیخ کر باہر نکالتا ہے”ہت تیری”تو پاس سے گزرتا آدمی اپنی ڈر جانے والی بیوی سے کہتا ہے”پاگل ہے”
منٹو کا یہی دو لفظوں کا مکالمہ اسی نوعیت کے دوسرے جملے کسی بھی اخلاقی کوڑھ زدہ معاشرے کے لئے نشتر کا کام کرتے ہیں۔ایک ایسا معاشرہ جو امیر کو تو حق دیتا ہے کہ غریب کی کسی مجبوری کے جواب میں اسے غلاظت بھری گالیاں دے کر اس کی خودداری اور عزت نفس کو چکنا چور کر دے۔لیکن اگر غریب اپنی اذیت کے ناقابل برداشت احساس کے بوجھ سے چیخ بھی نہیں سکتا۔اور اسے بے حس معاشرہ پاگل قرار دے دیتا ہے۔
کیا ایسا معاشرہ انسانیت کے معیار پر پورا اتر سکتا ہے جس میں غریب کا مقدر صرف ذلت بھری زندگی ہے اور مرنے کے بعد بھی اس کو تذلیل اور ملامت کے سوا کچھ نہیں ملتا
بہاولپور سانحہ(25 جون)سے اب تک اس سانحے سے متعلق حقائق،واقعات اور لوگوں کے خیالات جیسے جیسے سامنے آتے گئے۔تو ساتھ ہی ساتھ پریم چند کا افسانہ کفن،منٹو کا افسانہ نعرہ اور عصمت چغتائی کا افسانہ دو ہاتھ یکے بعد دیگرے ذہن کے پردے پر نمودار ہوتے گئے۔
پریم چند کے افسانہ "کفن” کے آغاز میں ہی منظر نگاری اور صورت حال کا بیان کرتے ہوئے بتا دیا جاتا ہے کہ الاو روشن ہے اور گاوں کے دو چمار اور افسانے کےمرکزی کردار مادھو(باپ) اور گھیسو(بیٹا)اس کے گرد بیٹھے کھیت سے چوری کئے ہوئے آلو بھون کر کھا رہے ہیں۔اور اندر گھیسو کی بیوی دردہ زہ سے پچھاڑیں کھا رہی ہے۔اور دونوں میں سے کوئی بھی اس کی خبر گیری یا اس حالت میں اس کی مدد کے لئے کسی کو بلانے کی خاطر اٹھ کر جانے کو تیار نہیں کہ کہیں دوسرا اس کے حصے کے یا باقی سارے آلو نہ کھا جائے۔اور صبح جب گھیسو اندر جاتا ہے تو وہ بہت ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر چکی ہوتی ہے۔اور جب وہ دونوں اس کے کفن کے لئے گاوں کے مکھیا اور دوسرے لوگوں سے پیسے اکٹھے کر کے کفن خریدنے کے لئے شہر جاتے ہیں تو ان پیسوں سے ایک ڈھابے پر بیٹھ کر پوری کباب کھاتے ہیں اور شراب کے نشے میں دھت ہو کر وہیں گر جاتے ہیں۔
بلا شبہ پریم چند اپنے عظیم افسانے میں اس اذیت ناک صورت حال اور باپ بیٹے کے ان دونوں کرداروں کے مکروہ پن،بے حسی اور ڈھٹائی،کام جوری،اور دوسری کرداری خامیوں کو بہت مہارت اور کامیابی سے پیش کیا ہے۔
کیونکہ ایک بڑا اور حساس تخلیق کار صورت واقعہ اور کسی بھی کردار کی محض سطحی یا ظاہری پیشکش ہی نہیں کرتا۔بلکہ وہ اپنے تمام تر معاشرتی،تاریخی،معاشی اورمذہبی شعور کو بروئے کار لا کر ایسی صورت حال اور ایسے کجرو کرداروں کے رویوں کے لئے ان تمام عوامل اور رویوں کا کھوج لگاتا ہے جو مادھو اور گھیسو جیسے کرداروں کو تشکیل دینے کا سبب بنتے ہیں۔بالکل ایک ماہر طبیب اور ماہر نفسیات کی طرح جو بیمار جسم اور بیمار ذہن کی بیماری کی تشخیص کرتے ہیں۔اور اس ضمن میں وہ تمام علامات اور وجوہات کو پیش نظر رکھتے ہیں جو ان جسمانی یا ذہنی عوارض یا بگاڑ کا باعث بنتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ برے سے برے یا خطرناک مرض کا شکار میریضوں سے بھی ان کا رویہ ہمدردانہ اور مسیحانہ ہوتا ہے۔وہ مریض سے نفرت کرنے اور اس کو اس خطرناک یا گندی بیماری کے ہاتھوں مرنے کے لئے نہیں چھوڑ دیتے بلکہ اس بیماری اور اس بیماری وجوہات کو ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔اور ایک بڑا ادیب اپنے قلم سے مسیحائ کرتا ہے۔
"کفن” افسانے میں جہاں پریم چند ان دونوں کرداروں کی کام چوری اور اور ڈھٹائی کا ذکر کرتے ہیں وہیں اس طرح کی کجروی کے پیدا ہونے کے کا ایک سبب کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں
"جس سماج میں دن رات محنت کرنے والوں کی حالت ان سے کچھ اچھی نہ تھی۔اور کسا نوں کے مقابلے میں وہ لوگ جو کسانوں کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانا جانتے تھے،کہیں زیادہ فارغ البال تھے۔وہاں اس طرح کی ذہنیت کا پیدا ہو جانا کوئی زیادہ تعجب کی بات نہ تھی”
اسی طرح جب دونوں باپ بیٹا بدھیا کے کفن کے پیسوں سے عیاشی کر رہے تھے۔تب کہیں ضمیر کی چبھن کے نتیجے میں میں وہ خود کو یہ کہہ کر تسلی دیتے ہیں جبکہ یہ مکالمے بہت تلخ حقیقت بھی ہیں
"ہاں بیٹا،بیکنٹھ میں جائے گی۔کسی کو ستایا نہیں،کسی کو دبایا نہیں۔مرتے مرتے ہماری زندگی کی سب سے بڑی لالسا پوری کر گئی۔وہ نہ بیکنٹھ میں جائے گی تو کیا یہ موٹے موٹے لوگ جائیں گے جو گریبوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے ہیں اور اپنے پاپ دھونے کے لئے گنگا میں نہاتے ہیں اور مندر میں جل چڑھاتے ہیں”
عصمت چغتائی کے افسانہ "دو ہاتھ”میں جب گاوں کی معزز مہیلائیں بوڑھی مہترانی جس کا بیٹا رام اوتار لام پر گیا ہوا ہے کو بلوا کر اسے بہو کی بد کرداری کے طعنے دیتی ہیں اور کہتی ہیں کہ اس کو میکے پھنکوا دو تو وہ اپنی مجبوری کا بیان کرتے ہوے اس طرح انکار کرتی ہے کہ بہو مفت نہیں آئی دو سو روپے جھونکے ہیں۔اور بہو دو ہاتھ والی ہے چار آدمیوں کا کام نبٹاتی ہے۔رام اوتار کے جانے کے بعد کیا بڑھیا سے اتنا کام سنبھلتا۔یہ بڑھاپا تو اب بہو کے دو ہاتھوں کے صدقے میں بیت رہا ہے۔اور ایک جگہ کہتی ہے کہ پتا نہیں اس نے اوراس کی معصوم بہو نے لوگوں کا کیا بگاڑا ہے۔ مہترانی سے کسی کا میلا نہیں چھپتا۔ان بوڑھے ہاتھوں بڑے بڑے لوگوں کے گناہ دفن کئے ہیں۔یہ دو ہاتھ چاہیں تو رانیوں کے تخت الٹ دیں۔
رام اوتار کے لام سے واپس آنے کے بعد جب اسے اس کے ناجائز بیٹے کا طعنہ دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اپنی بیوی کو اس ناجائز بیٹے سمیت میکے بھجوادو تو رام اوتار یہ کہتے ہوئے ندامت سے سر جھکا لیتا ہے کہ سرکار لونڈا بڑا ہو جاوے گا تو اپنا کام سمیٹے گا۔وہ دو ہاتھ لگائے گا سو اپنا بڑھاپا تیرا ہو جاوے گا۔
اور آخری اقتباس ملا حظہ فرمائیں۔جس کی زہرناکی اور کڑواہٹ کو برداشت کرنا اور پی جانا کسی بھی نام نہاد معزز ،باشعور اور مہذب معاشرے کے بس کی بات نہیں۔
"یہ ہاتھ نہ حرامی ہیں نہ ہلالی،یہ تو بس جیتے جاگتے ہاتھ ہیں۔جو دنیا کے چہرے کی غلاظت دھو رہے ہیں۔اور اس کے بڑھاپے کا بوجھ اٹھا رہے ہیں۔یہ ننھے منھے مٹی میں لتھڑے ہوئے سیاہ ہاتھ دھرتی کی مانگ میں سندور سجا رہے ہیں۔”
منٹو کا افسانہ” نعرہ”میں منٹو نے ایک ایسے غریب اور مجبور لیکن خود دارآدمی کی نفسیاتی کشمکش کو بہت دردمندی اور مہارت سے پیش کیا ہے۔جس کو اپنی محنت اور خودداری پر بہت غرور ہے لیکن جب لگاتار پانچ سال وہ کھولی کا کرایہ سیٹھ کو ادا کرتے رہنے کے بعد محض دو ماہ کا کرایہ بروقت نہیں دے پاتا کہ اس کی حاملہ بیوی کی بیماری اور اسکے علاج پر سارے پیسے لگ جاتے ہیں۔تو سیٹھ اس کو غلاظت بھری گالیاں دے کر نہ صرف اس کی عزت نفس کی دھجیاں اڑا دیتا ہے بلکہ اس کی خودداری کے احساس کو بھی تباہ و برباد کر دیتا ہے۔اور اس ساری ذلت کے نتیجے میں ایک اذیت ناک نفسیاتی کشمکش کا شکار ہونے کے بعد جب وہ اس سیٹھ کی بلڈنگ کے نیچے کھڑا ہو کر منہ اوپر کرکے اپنے اندر کی ناقابل براشت اذیت کو ایک فلک شگاف نعرہ کی صورت میں چیخ کر باہر نکالتا ہے”ہت تیری”تو پاس سے گزرتا آدمی اپنی ڈر جانے والی بیوی سے کہتا ہے”پاگل ہے”
منٹو کا یہی دو لفظوں کا مکالمہ اسی نوعیت کے دوسرے جملے کسی بھی اخلاقی کوڑھ زدہ معاشرے کے لئے نشتر کا کام کرتے ہیں۔ایک ایسا معاشرہ جو امیر کو تو حق دیتا ہے کہ غریب کی کسی مجبوری کے جواب میں اسے غلاظت بھری گالیاں دے کر اس کی خودداری اور عزت نفس کو چکنا چور کر دے۔لیکن اگر غریب اپنی اذیت کے ناقابل برداشت احساس کے بوجھ سے چیخ بھی نہیں سکتا۔اور اسے بے حس معاشرہ پاگل قرار دے دیتا ہے۔
کیا ایسا معاشرہ انسانیت کے معیار پر پورا اتر سکتا ہے جس میں غریب کا مقدر صرف ذلت بھری زندگی ہے اور مرنے کے بعد بھی اس کو تذلیل اور ملامت کے سوا کچھ نہیں ملتا
فیس بک کمینٹ