یوں تو ہماری قوم نے ہرمنفی میدان میں اپنی نایاب صلاحیّتوں کا لوہا منوایا ہے مگر خواتین کو ہراساں کرنے میں جو کاملہ پاکستانی مردوں کو حاصل ہے اس کی مثال ہی فرق ہے۔ جِس ملک میں اوریا مقبول جان جیسی ذہنیّت کے لوگ اہلِ دانِش کہلاتے ہوں، وہاں کے مردوں میں خواتین کو ہراساں کرنے کا وصف ہونا تو عین واجب ہے۔ بس کبھی کبھی یہ پریشانی لاحق ہو جاتی ہے کہ بہت سے ممالک میں پاکستان کو صرف اس حوالے سے جانا جاتا ہے کہ پاکستان غالباً پہلی یا واحد اسلامی مملکت ہے جہاں بینظیر بھٹو ایک خاتون وزیرِ اعظم رہیں۔ ان ممالک کے لوگوں کو ہماری ذہنیّت کا علم ہو جائے تو وہ ہمارے بارے میں کیا رائے قائم کریں گے؟ یوں بھی اس ایک مثال کے چھوٹے سے کمبل سے ہم اپنے کون کون سے کرتوت چھپا پائیں گے۔
امسال چھ جون کو برٹش پاکستانی کرسچن ایسوسی ایشن نے سوشل میڈیا پر منکشف کیا کہ تھائی لینڈ میں پاکستانی سفارت خانے کے ایاز نامی ایک ملازم کے پاس مہرآور اسحاق نامی ایک مسیحی خاتون اپنے پاسپورٹ کی تجدید کروانے آئی تو حضرت نے ان سے کہا کہ یوں تو سیاسی پناہ حاصل کرنے والوں کے پاسپورٹ کی تجدید نہیں ہو سکتی، مگر وہ اس سلسلے میں اس 23 سالہ، قبول صورت خاتون کی ’مدد‘ ضرور کریں گے۔ مگر چونکہ وہ اس ’مدد‘ کو خفیہ رکھنا چاہتے ہیں، اس لیئے ضروری ہے کہ وہ ان کو سفارت خانے سے باہر کسی نجی جگہ پر ملیں۔ اگر مہرآور ایسا کر پائیں تو وہ یقیناً تجدیدِ پاسپورٹ کا کوئی نہ کوئی رستہ نکال لیں گے۔
ایک محفوظ مستقبل کی تلاش میں سرگرداں مہرآور اسحاق کو ایاز کی نیّت کا تو یقیناً پتہ چل گیا ہو گا۔ کیونکہ کسی حد تک تو اس کے سیاسی پناہ حاصل کرنے کے مقاصد میں یہ بات بھی شامِل ہو گی کہ اگر پاکستان میں وہ خود کو لحاف میں لپیٹ کر بھی گھر سے نکلتیں تو ایاز جیسے ’اوریانیّت زدہ‘ لوگ ان کی زنانہ اناٹومی کا کھوج لگا کر ہی دم لیتے۔ مگر کیا کیجیئے، مہرآوراسحاق باعزت زندگی بِتانے کی لگن میں اپنے گھر سے نکل چکی تھی اور ایاز کے پاس اس کے پاسپورٹ کی تجدید کی درخواست منسوخ کرنے کا اختیار تھا، بلکہ اب بھی ہے۔ کیونکہ تاحال مہرآور کو انصاف ملا ہے نہ ایاز اپنے کیفرِکرتوت کو پہنچا ہے۔
مجھے یقین ہے کہ مہرآور نے اپنے مقصد کے لیئے اپنا تمام اثر و رسوخ استعمال کیا ہو گا، لیکن اس کے پاس اگر اثر و رسوخ ہوتا تو وہ سیاسی پناہ لینے کی کوشش کیوں کرتی کہ اثر و رسوخ رکھنے والوں کے لیئے پاکستان سے عمدہ کونسی جنت ہو سکتی ہے۔ شائد اسی لیئے اس نے ایاز کو ’پرایئویٹ‘ میں ملنے کے لیئے ہاں کہہ دی۔
اس سے قبل مہرآور اسحاق نے سفارت خانے کے اعلیٰ افسران کو شکائت بھی کی اور انہوں نے کمیٹی بنا کر سخت تادیبی کارروائی کا وعدہ بھی کیا۔ مگر میرا تحقیقی تخیّل مجھے واضح تصویریں دکھاتا ہے کہ کیسے اس وعدے کے بعد سفارت خانے کے دیگر لوگ مہرآور کی شکایت اور اپنے وعدوں پر ٹھٹھے لگا لگا کر ہنستے ہوں گے۔ کیسے چند مرد مل کر ایک تنہا نوجوان خاتون کے جسمانی خطوط کا ذکر فرماتے ہوں گے، اس کا اندازہ تو میرے قارئین کو بھی ہو گا۔
مگر اس دوران اپنا ملک چھوڑ کر آنے والی ایک لڑکی، جو اپنے اور اپنے خاندان کے لیئے ایک عام سی باوقار ذندگی جینے کے لیئے تھائی لینڈ میں نجانے کہاں رہتی ہو گی، کیسے کھاتی ہو گی، اپنی ضروریات کیسے پوری کرتی ہو گی، اس کا اندازہ شاید میرے کچھ قارئین نہ لگا سکیں۔ میری مراد ان قارئین سے ہے جو کسی ایسے متوسط یا نچلے متوسط طبقے سے تعلق نہیں رکھتے جہاں کوئی لڑکی اپنے گھر کی واحد کفیل ہوتی ہے۔ میری مراد ان قارئین سے بھی ہے جو سمجھ نہیں پاتے کہ ایک خاتون کی عصمت تو اسی وقت تار تار ہو جاتی ہے جب مرد کی نظریں اس کے ملبوس کے آر پار ہوتی ہیں۔ میری مراد ان قارئین سے بھی ہے جو یہ نہیں جانتے کہ مخلوط نظامِ تعلیم کی مخالفت کرنے والے، لڑکیوں کے کھیلنے پر پابندی لگانے والے، جامعات میں طالبات کو کرکٹ کھیلنے پر پھینٹی لگانے والے تو فقط اپنی سوچ کے ساتھ ہی خواتین کی عصمت دری کر دیتے ہیں۔ اپنے ایسے قارئین کے لیئے عرض ہے کہ تھائی لینڈ میں پاکستانی سفارت خانے کا ملازم ایاز اور اوریا مقبول جان وغیرہ مردوں کی اسی قبیل سے تعلق رکھتے ہیں۔
خیر، مہرآور ایک پرایئویٹ بلڈنگ میں ایاز سے مدد حاصل کرنے چلی گئی۔ اسے جانا ہی تھا۔ اس کا پاسپورٹ مارچ میں ختم ہوچکا تھا اور یہ مئی کا آخری عشرہ تھا۔ یہ جزئیات فضول ہیں کہ ایاز نے اسے شراب میں روفانل ملا کر پلانے کی کوشش کی، نزدیک آنے کی کوشش کی وغیرہ وغیرہ۔ سوال یہ ہے کہ جب یہ معاملہ کامران دھنگل اور اقصیٰ نواز جو سفارت خانے کے سینئر افسران ہیں، ان کے نوٹس میں آ گیا تھا تو اس کا فیصلہ تا حال کیوں نہ ہو سکا؟
سوال یہ ہے کہ مہرآور اسحاق کو ایک ایک این جی او کے ذریعے لوگوں سے اپیلیں کروانے کی ضرورت کیوں پڑی؟ اور سب سے بڑا سوال تویہ ہے کہ اس کو پاکستان سے جا کر، یو این ایچ سی آر کے ذریعے سیاسی پناہ لینے کی ضرورت ہی کیوں پڑی؟
خیر، اس این جی او کے چیئرمین کی مدد سے ایاز عصمت دری کی آخری منزل کو تو نہ چھو سکا مگر اس کا جواب کون دے گا کہ بے عزتی کی اس سطح تک آنے میں جو مہرآور پر بیتی، کیا یہ کسی عصمت دری سے کم ہے؟ اس کا حساب کون دے گا کہ ایاز، جِس کے ساتھ سفارت خانے کا محمود بھی ضرور شامِل ہو گا، جس نے اس کام کے لیئے تھائی لیںڈ میں ایک نجی جگہ لے رکھی ہے، ادھر کتنی مہرآوریں اب تک اپنی عزت لٹا چکی ہیں؟ اس کے اعداد و شمار کِس سے حاصل کیئے جائیں کہ اب تک کتنے پاکستانی، اپنے ملکِ عزیز سے زندہ بھاگنے کی کوشش میں اس طرح کی مختلف صعوبتیں جھیل رہے ہیں؟
نئی مرد شماری کے مطابق ہماری گنتی تقریباً اکیس کروڑ بتائی جاتی ہے۔ جو لوگ اثر رسوخ رکھتے ہیں شائد تعداد میں اکیس ہزار بھی نہیں۔ مگر ان اکیس ہزار خواص نے باقی کے تمام لوگوں کو اس نہج پر پہنچا دیا ہے کہ وہ اپنا ہی ملک چھوڑ کر جانے کے لیئے ہر دم تیّار ہیں۔ اگر ہم اکیس کروڑ مل کر ایک نعرہ بھی لگا دیں تو یہ اکیس ہزار بہرے ہو کر پاکستان سے بھاگ جائیں۔ مگر ہم گزشتہ ستّر سال میں اپنی اجتماعی آواز نہیں بنا سکے اور آج ہماری بیٹیاں، پرائے ملکوں میں اپنے ہی ہم وطن بھایئوں کے ہاتھوں اپنی عصمت تار تار کروانے پر مجبور ہیں۔
آخری سوال صرف اتنا ہے کہ اگر یہ دھرتی ہماری ماں ہے تو مہرآور اسحاق کِس کی بیٹی ہے۔
فیس بک کمینٹ