احمد پورشرقیہ سے بہاولپور کی طرف آنے والی قومی شاہراہ پر پکی پل کے قریب عید سے ایک روز پہلے ہی عید کا سماں تھا۔صبح سویرے ایک آئل ٹینکر سڑک پر الٹا اوراس میں موجود ہزاروں لیٹر پٹرول سڑک اور اس کے نشیب میں موجود کھیتوں میں بہنے لگا۔اس پسماندہ علاقے میں تیل کی یہ دولت حیران کن بھی تھی اور علاقے کے لوگوں کے لیے خوشی کی خبر بھی ۔سو سڑک کے قرب وجوار میں موجود بستیوں تک جب یہ اطلاع پہنچی کہ ہماری بستی کے قریب ہی تیل کی دولت ہماری منتظر ہے ، تو وہاں سے بچے ،عورتیں اور جوان بھاگم بھاگ یہ دولت سمیٹنے پہنچ گئے۔ کسی کے ہاتھ میں بوتل تھی ،کسی نے گھر سے بالٹی اٹھائی،کسی کو پلاسٹک کا کین مل گیا اور وہ سب اس سڑک اور اس سے ملحقہ کھیتوں میں جمع ہوگئے۔وہ سب ہنستے تھے ،مسکراتے تھے ،قہقہے لگاتے تھے اور اپنے برتنوں میں تیل بھر تے تھے۔یہ ان سب کے لئے خوشی کالمحہ تھا۔غربت ،افلاس اپنی جگہ لیکن وہ کوئی لوٹ مار تو نہیں کررہے تھے۔وہ تو بس تیل کی دولت سمیٹ رہے تھے ۔وہ عالمی طاقتوں کی طرح تیل کے لئے لڑ تے بھی نہیں تھے ، وہ تو ایک دوسرے کی مدد بھی کر رہے تھے ، وہ مسکراتے تھے اور بہت خوش نظر آتے تھے ۔ وہ عید سے ایک دن پہلے ہی عید کے ماحول میں تھے۔
روہی کا علاقہ تو ویسے بھی میلوں کے حوالے سے جاناجاتا ہے۔ اوریہ میلے روہی میں مختلف موسموں میں لگتے ہیں ۔دوردراز سے لوگ ان میلوں میں پہنچتے ہیں اور خوشیاں سمیٹتے ہیں۔لیکن یہ عید سے پہلے عید والا میلہ تو یہاں پہلی بار لگا تھا۔کچھ ہی دیر میں یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح دوردراز بستیوں میں بھی پہنچ گئی۔وہاں سے بھی لوگوں نے میلے کا رخ کرنا شروع کردیا۔ہجوم بڑھتا گیا ۔قہقہے بلند ہوتے رہے۔قہقہے لگانے والوں ،اپنی تصویریں اور موبائل فون سے ویڈیوز بنانے والوں کو معلوم نہیں تھا کہ عید کا یہ میلہ کچھ ہی دیر میں موت کے رقص میں تبدیل ہونے والا ہے۔ہجوم جب بڑھ گیا تو قومی شاہراہ پر سفر کرنے والوں نے بھی رک کر یہ تماشہ دیکھنا شروع کردیا۔مفت کاپٹرول بھلا کسے عزیز نہ ہوتا۔اس پٹرول پر تو اوگرا کی بھی اجارہ داری نہیں تھی ، یہ تو بس آئل ٹینکر سے زمین پر آ گرا تھااور وہ سب اس کے مالک تھے ۔ہمارا قومی مزاج ہے کہ ہم مفت کی چیز کو بے رحمی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔مال مفت دل بے رحم والا محاورہ یونہی تو نہیں بنا۔اوریہ محاورہ بھی صدیوں پرانا ہے ،اس زمانے کا ہے جب تہذیب تھی ،اقدار موجود تھیں،شائستگی تھی اور شاید افراتفری بھی اتنی زیادہ نہیں تھی ۔سو اس زمانے میں اگر کسی نے یہ محاورہ بول دیا تو اس کا مطلب صاف ظاہرہے کہ مفت کے مال پر لوگ ہمیشہ سے اسی طرح بے رحمی کے ساتھ جھپٹتے ہیں۔سو اگر احمد پورشرقیہ کے ان سادہ لوح ،معصوم دیہاتیوں نے ایسا کیا توانہیں اس پرمطعون نہیں کیا جاسکتا۔انہیں لٹیرا نہیں کہناچاہیے لیکن افسوس کہ یہ سب کچھ بھی ان معصوموں کے حصے میں آیا۔
یہ جشن ایک گھنٹہ سے زیادہ جاری رہا۔ہجوم بڑھتا گیا،پھراس میں صرف غریب ہی شامل نہ رہے ۔ موٹرسائیکلوں کے ساتھ ساتھ کچھ کاروالے بھی اس جشن کاحصہ بن گئے۔وہ میلہ ،وہ جشن جو عید سے پہلے شروع ہوچکا تھا،اسی چولستان کے قریب تھا جسے خواجہ صاحب کی روہی کہتے ہیں اور جہاں پیلوں پکتے ہیں اورپھرآ چنوں رل یار کی صدا بلند ہوتی ہے۔سو وہ لوگ پیلوں تو نہیں چن رہے تھے ۔رل مل کر پٹرول ضرور جمع کررہے تھے۔اسی مقام کے عقب میں ایک سڑک ہے جو قلعہ دراوڑکو جاتی ہے جسے اب ڈیرہ ور کہتے ہیں۔اور جب چنن پیر کامیلہ لگتا ہے تو یہ روہی آباد ہوجاتی ہے،روہیلے ناچتے ہیں ،گاتے ہیں اوران کی سریلی آوازیں چاندنی رات میں عجب سماں باندھتی ہیں۔اوراسی روہی میں،جائے حادثہ کی قریبی بستی سے جمیل پروانہ اور نصیر مستانہ نے جب 1970ء کے عشرے میں لوک گیت گائے تو ان کی آواز سارے خطے میں سنائی دینے لگی تھی۔یہیں کہیں انقلابی شاعر سفیر لاشاری کا گاؤں تھا جنہوں نے معروف سرائیکی ترانہ لکھا۔
اور پھرہمیں یاد آیا کہ چند برس قبل سوشل سیکٹر سے وابستہ ہمارے دوست شاہ نوازخان نے اصرارکیاتھا کہ ہم ان کے ساتھ چولستان کادورہ کریں۔اور ہم انہی علاقوں سے ہوتے ہوئے اس قلعہ دراوڑتک پہنچے تھے جس کی باقیات ہی اب باقی ہیں۔اور جس کی تزئین وآرائش اورمرمت کے مطالبوں پر کوئی توجہ نہیں دیتا۔اس قلعے کاتذکرہ اب ڈیزرٹ ریلی کے موقع پرہی زیادہ ہوتا ہے۔اور یہ ریلی بھی تو اشرافیہ کا مرکزہے جسے سالانہ بنیادوں پر ملٹی نیشنل کمپنیوں کی مدد سے خطے کی ثقافت اجاگر کرنے کے نام پر منعقد کیاجاتا ہے اوروہاں جو ثقافت دیکھنے میں آتی ہے اس کا اس خطے سے دور کابھی کوئی واسطہ نہیں۔جوخطے کے باسی ہیں ۔جو روہی کے روہیلے ہیں انہیں اس ریلی کے موقع پر اس علاقے میں آنے کی اجازت ہی نہیں ہوتی کہ یہاں اس وقت امیر زادے موجودہوتے ہیں،اراکین اسمبلی ہوتے ہیں،کچھ وزیر،مشیر آتے ہیں جن کی تعیش کا انتظام ہوتا ہے۔اور جہاں امیر زادے موجودہوں جہاں ان کے خیمے لگے ہوں وہاں غریب روہیلوں کو بھلا جشن میں کیسے شامل کیا جاسکتا ہے۔شاہ نوازخان جب ہمیں قلعہ دراوڑ لے کر گئے اور پھرجب ہم اس قلعے میں داخل ہونے لگے تو مرکزی دروازے پر ہمیں ہدایت کی گئی کہ آپ سرجھکاکر اس عظیم قلعے میں داخل ہوجائیں کہ قلعے کے دروازے پر سینکڑوں کی تعداد میں چمگادڑیں تھیں جو الٹی لٹکی ہوئی شور مچاتی تھیں ۔اس قلعے کی بربادی پر نوحہ کناں تھیں۔ہمیں بہت حیرت ہوئی تھی کہ آخر یہ اتنی بہت سی چمگادڑیں اس قلعے میں کیوں بسیرا کیے ہوئے ہیں۔اورچمگادڑیں صرف وہیں نہیں تھیں ۔وہ قلعے کے دیگر حصوں میں بھی موجودتھیں۔سو ہم ان کھنڈرات پر گھومتے رہے اوردریائے ہاکڑا کی خشک گزرگاہ میں بنے ہوئے اس عظیم قلعے کانوحہ ان چمگادڑوں سے سنتے رہے۔
اسی قلعہ دراوڑ سے کوئی 45کلومیٹر کے فاصلے پر ایک جشن جاری تھا۔جو جشن مرگ میں تبدیل ہونے والاتھا۔ہنستے مسکراتے ،سیلفیاں بناتے،ویڈیوز بناتے،پٹرول بالٹیوں اوربوتلوں میں بھرنے والے ان معصوم لوگوں کو معلوم ہی کب تھا کہ وہ عید سے ایک روز پہلے پٹرول کی دولت سے مالا مال نہیں ہورہے ،خوشیاں حاصل نہیں کررہے ،وہ تو بالٹیوں میں موت بھررہے ہیں۔وہ نہیں جانتے تھے کہ کچھ ہی دیر بعد یہاں جو آگ بھڑکے گی وہ انہیں تو دکھوں سے آزاد کردے گی لیکن ان کے پیاروں کو ایک ایسا دکھ دے جائے گی جو آخری سانس تک باقی رہے گا۔اور وہ جو اس وقت ویڈیوز میں دکھائی دے رہے تھے ،وہ جواپنی موٹرسائیکلوں پر بیٹھے تھے، وہ تو یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ وہ کچھ ہی دیر میں نامعلوم افراد کی فہرست میں شامل ہونے والے ہیں۔اس دور افتادہ علاقے میں بسنے والے بھلا ڈی این اے کے ذریعے اپنے پیاروں کی شناخت کے عمل سے کیسے گزرسکتے تھے۔سو ان میں سے 125 لوگوں کو اجتماعی قبر میں امانتاً سپردخاک کردیاگیا کہ جب ان کی شناخت ہوگی،توان کی باقیات ان کے ورثاء کے حوالے کردی جائیں گی۔اور ان کی شناخت بھلا کب ہوگی؟ایک ایسا خطہ جو برسوں سے اپنی شناخت کی جنگ لڑرہاہے۔اس میں بسنے والے اگر موت کے بعد اپنی شناخت سے محروم ہوگئے تو اس سے بھلا فرق ہی کیا پڑتا ہے کہ یہاں تو زندہ لوگوں کی بھی کوئی شناخت نہیں۔
( بشکریہ : روزنامہ خبریں )
فیس بک کمینٹ