آخرکار بلاول بھٹو زرداری ملتان تشریف لے ہی آئے۔ مَیں سوچتا ہوں اگر وہ نہ بھی آتے تو کیا ہو جاتا۔ اگر وہ ہو کر واپس چلے گئے ہیں تو اس کا پیپلز پارٹی کو کیا فائدہ ہوا یعنی کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے۔
ان کے آنے سے قبل تیاریاں یوں کی جا رہی تھیں جیسے پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب میں انقلاب آ جائے گا۔ علاقے سے بہت سے بڑے نام پارٹی میں شامل ہوں گے۔ لیکن سوائے ایک بے ہنگم افطاری کے کچھ بھی نہ ہوا۔ بلاول بھٹو زرداری کی آمد سے قبل ایک تجزیہ پیش کیا جا رہا تھا کہ بہت سے بڑے نام پیپلز پارٹی میں آ رہے ہیں۔ اب بلاول کی موجودگی میں جن لوگوں نے شمولیت اختیار کی ان میں حسن راں، ارشد راں اور عباس راں نمایاں تھے۔ ملک محمد حسن راں کی اپنے بیٹوں سمیت پی پی کو جوائن کرنا اگرچہ بڑی خبر ہے لیکن یہ خبر بھی تقریباً چار ماہ پرانی ہے کیونکہ محمد حسن راں پاکستان بننے کے بعد سے لے کر اب تک مخدوم سجاد حسین قریشی گروپ سے وابستہ تھے۔ بلکہ محمد عباس راں (سابق ایم پی اے) کا کہنا ہے کہ میرے دادا بھی قریشی خاندان سے وابستہ رہے۔ حسن راں خاندان پہلی مرتبہ قریشی گروپ کو چھوڑ کر گیلانی گروپ کی چھتری تلے آیا ہے۔ اس سے مخدوم شاہ محمود قریشی کی اپنے آبائی حلقے میں گرفت کمزور ہوئی لیکن مجموعی طور پر فائدہ پی پی کو ملا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اگلے انتخابات میں ملک محمد حسن راں کس انداز سے پی پی کو فائدہ پہنچاتے ہیں۔ بات ہو رہی تھی بلاول بھٹو زرداری کے دورہ ملتان کی۔ جہاں پر رحیم یار خان سے تعلق رکھنے والے بیگم و تنویر شاہ، لیہ سے رفاقت گیلانی، لودھراں سے سیّد فضل شاہ، بہاولپور سے تعبیر الحسن، عادل عباسی اور آصف عباسی نے پی پی میں شمولیت اختیار کی۔
قارئین کرام! جنوبی پنجاب کی سیاست پر اس خاکسار کی خاصی نظر ہے۔ لیکن مَیں نے اپنی یادداشت پر بہت زور ڈالا لیکن کوشش کے باوجود حسن راں خاندان کے علاوہ باقی تمام افراد میرے لیے نئے ہیں۔ پھر مَیں نے سوچا کہ وقت نے شاید میرا حافظہ کمزور کر دیا ہو۔ مَیں نے رحیم یار خان، لیہ، لودھراں اور بہاولپور میں مقیم اپنے سیاسی تجزیہ نگاروں سے رابطہ کیا۔ تو معلوم ہوا کہ لیہ کے شہری حلقہ میں رفاقت گیلانی کے خاندان کا خاصا اثر ہے لیکن حالیہ بلدیاتی انتخابات میں پی پی کا ٹکٹ لینے سے انکار کر دیا تھا۔ ابھی ان کے سیاسی سفر کا آغاز ہے لیکن کوئی بعید نہیں کہ انتخابات کے قریب آ کر کسی اور پارٹی میں شامل ہو جائیں۔ تعبیر الحسن سیاسی طور پر معروف نام ہے لیکن سیاسی حلقوں میں نہیں سماجی حلقوں کا بڑا نام ہے۔ اگر یہ مستقل طور پر پارٹی میں کھڑے رہیں تو شاید قابلِ ذکر ووٹ لے سکتے ہیں لیکن جیت نہیں سکتے۔ اسی طرح عادل عباسی اور آصف عباسی بظاہر عباسی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں لیکن ان کی اپنی حیثیت کونسلر شپ کا انتخاب لڑنے کی بھی نہیں ہے۔
اب آ جائیں بلاول بھٹو زرداری کے دورہ ملتان کی طرف۔ بلاول بھٹو زرداری کو عوام سے دور رکھا گیا۔ حالانکہ اس سے قبل ذوالفقار علی بھٹو بغیر حفاظتی اقدامات کے اندرون شہر اور گھنٹہ گھر کے نواح میں بغیر اطلاع کے آ جایا کرتے تھے۔ لوگوں میں گھل مل جاتے۔ پھر ایسے کاموں کا یہ فائدہ ملا کہ ملتان نے پی پی کو اکثریت دلا دی۔ اسی طرح بے نظیر بھٹو نے ملتان کینٹ کے چائنیز ہوٹل میں اپنی کتاب ”ڈاٹر آف دی ایسٹ“ کی تقریبِ رونمائی میں شرکت کی اور سینکڑوں لوگوں کو اپنی کتاب پر آٹوگراف دیئے۔ ملتان کا کون سا ایسا سیاسی خانوادہ ہے جہاں کی غمی خوشی میں بے نظیر بھٹو شریک نہ ہوئی ہوں۔ کیا ان کو سیکورٹی تھریٹ نہیں تھے۔ لیکن اس کے باوجود انہوں نے عوام سے رابطہ منقطع نہ کیا۔ یہ بات درست ہے کہ سیکورٹی کے معاملات ماضی کے مقابلے میں بہت ابتر ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری کی جان کو بھی بہت خطرے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ انہیں عوام سے دور کر دیا جائے۔ پارٹی کی کسمپرسی کا اندازہ اس بات سے لگایا جائے کہ بلاول بھٹو زرداری کی آمد پر ایئرپورٹ سے لے کر بچ ولاز تک کوئی پرچم آویزاں نہ کیا گیا۔ پارٹی کے نئے عہدےداروں کی طرف سے فلائی اوور کے درمیان جو پینافلیکس لگائے گئے ان کا سائز اتنا چھوٹا تھا کہ تیزی سے گزرنے والی ٹریفک ان کو پڑھ بھی نہیں سکتی تھی۔ یعنی وہ ملتان جہاں پر گیلانی نے بطور وزیراعظم اربوں روپے خرچ کر ڈالے اُسی پارٹی کے سربراہ کی آمد پر جس طرح کا استقبال کیا گیا اس سے آپ آنے والے انتخابات میں پارٹی رہنماؤں کی دلچسپی کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔
بلاول بھٹو زرداری کے اعزاز میں سیّد یوسف رضا گیلانی کی افطار پارٹی میں سیّد حامد سعید کاظمی، مخدوم شہاب الدین، ملک الطاف علی کھوکھر، نتاشہ دولتانہ، مخدوم احمد محمود، حیدر زمان قریشی، حیدر عباس گردیزی اور دیگر نے شرکت کی۔ ڈاکٹر جاوید صدیقی نے شہر کی چند جگہوں پر بڑے پینافلیکس لگوا کے حاضری لگائی۔ لیکن اس سب سے باوجود شہر میں پارٹی کے حوالے سے کوئی قابلِ ذکر سرگرمی دیکھنے کو نہ ملی۔ اصولی طور پر اس دن تمام راستے لوگوں سے بھرے ہوتے جہاں بلاول بھٹو زرداری کے گزرنے کا پروگرام تھا۔ ہمیں یاد ہے جب محترمہ بے نظیر بھٹو ملتان آیا کرتی تھیں تو ملتان سے تعلق رکھنے والے خواجہ رضوان عالم، حبیب اﷲ شاکر، سلیم راجہ، سلیم الرحمان میؤ وغیرہ اپنے علاقوں سے جلوسوں کے ساتھ اس روٹ پر موجود ہوتے تھے جہاں سے صرف بے نظیر بھٹو کی گاڑی گزرا کرتی تھی۔ کیا یہ ممکن نہیں تھا کہ ملتان کے مختلف چوراہوں پر پی پی اپنے کارکنوں کو جمع کر کے بلاول بھٹو زرداری کا استقبال کرتی۔ لیکن یہ سب کام اب کون کرے؟ حالات ہی بدل گئے۔ کارکن سے لے کر مرکزی رہنما پارٹی چھوڑ کر جا چکے ہیں۔ نئے اور بااثر لوگ آنے کو تیار نہیں۔ ایسے میں کیسے ممکن ہے کہ پارٹی میں نئی جان پڑے۔ جب تک پارٹی کے مرکزی لیڈر عوامی سطح پر رابطہ مہم شروع نہیں کرتے تب تک پارٹی مردہ ہی رہے گی۔
پیپلز پارٹی کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ 2018ءکے انتخابات میں اس کا مقابلہ ن لیگ کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی کے تازہ دم کارکنوں سے ہے۔ پی پی کے لوٹے اب پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم پر اب انہی کے سامنے ہوں گے۔ اس وقت یوسف رضا گیلانی کی کابینہ کے آدھے سے زیادہ وزیر پی ٹی آئی کا حصہ بن چکے ہیں۔ انہوں نے پارٹی چھوڑنے کا فیصلہ کیوں کیا؟ اس کا جواب آصف علی زرداری اور یوسف رضا گیلانی کے علاوہ ان سے بھی لیا جا سکتا ہے جو آج پارٹی کو خیرباد کہہ رہے ہیں۔ دور کیوں جائیں مَیں ملتان کی بات کرتا ہوں۔ یوسف رضا گیلانی کے دونوں ایم پی اے پی ٹی آئی میں شامل ہو چکے ہیں۔ عامر ڈوگر اپنے والد کے حلقے میں ضمنی انتخاب میں جاوید ہاشمی اور پی پی کے جاوید صدیقی کو شکست دے کر ایم این اے منتخب ہو کر عمران خان کے سپاہی کا درجہ پا چکے ہیں۔ دوسرے ایم پی اے احمد حسین ڈیہڑ نے بطور ایم پی اے اپنے ہی حلقے میں اتنے ظلم و ستم ڈھائے کہ اگر اب پی ٹی آئی انہیں ایم این اے کا ٹکٹ بھی دے تو موصوف کی سابقہ کارکردگی اتنی بری ہے کہ وہ سکندر بوسن سے کبھی نہیں جیت پائیں گے۔
بات ہو رہی ہے بلاول بھٹو زرداری کے دورہ ملتان کی۔ وہ آئے اور چلے گئے۔ اخبارت میں کوریج ہوئی، ٹی وی چینلز نے ان کی تقریر کو لائیو دکھایا لیکن اس کے علاوہ کچھ بھی نہ ہوا۔ اسی لیے تو ہم نے آغاز میں لکھا تھا:
کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے
اصولی طور پر کالم تو مَیں نے پچھلے پیرے میں تمام کر دیا تھا کہ اچانک پی پی کے بارے میں کچھ اور خبریں آنی شروع ہو گئی کہ پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما اور سابق ایم این اے میاں ساجد پرویز نے بلاول بھٹو زرداری کے ہاتھ بیعت کر لی ہے۔ اسلام آباد سے برادرم ضیاءکھوکھر کا فون آیا کہ میاں ساجد پرویز کے پارٹی میں آنے سے کیا فائدہ ہو گا؟ مَیں نے جواب دیا صفر+صفر+صفر۔ انہوں نے فون بند کر دیا تو مَیں ایک مرتبہ پھر اخبارات کا مطالعہ کرنے لگا۔ تو کسی کونے میں ایک اور خبر پڑھی اور مَیں نے محترم ضیاءکھوکھر کو خود فون ملایا اور کہا جناب ڈیرہ غازی خان سے سردار ذوالفقار علی کھوسہ بھی اس پیرانہ سالی میں جوانِ رعنا بلاول بھٹو زرداری سے ملاقات کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ ضیاءکھوکھر نے کہا اس کے بعد آپ کیا کہتے ہیں۔ مَیں نے جواب دیا آج کل جتنے لوگ بھی پارٹی میں آ رہے ہیں مجھے تو یوں لگ رہا ہے یہ سب گلاس توڑنے آ رہے ہیں۔
(بشکریہ : روزنامہ ایکسپریس)