میر نے یہ شکوہ کوئی دو سوسال قبل کیا تھا۔لیکن آج اس صورت حال کی کوئی عملی تصویر دیکھنا چاہے تو ہم خانماں برباد پاکستانیوں کو دیکھ لے۔احمد پور شرقیہ کے کھیتوں میں جلی ہوئی ہڈیوں سے لے کر پارہ چنار کے بازاروں میں بکھرا ہوا لہوہماری بے چارگی و بے بسی کی ایک طویل داستان ہے، جس کا آخری باب معلوم نہیں کب لکھا جائے گا ؟ ۔کوئٹہ بلوچستان کے ہزارہ قبائل کا قتل عام ہو یا پارہ چنار کے پشتونوں کا،لاہور سے پشاور کے گرجا گھروں میں کھیت رہے عیسائی ہوں یا داتا دربار سے لے کر سندھ لعل شہباز قلندر کے مزار تک خون میں نہلائے گئے زائرین ہوں، سب ایک ہی دھرتی ماں کے جگر گوشے ہیں۔ ان کا مذہبی عقیدہ کوئی بھی ہو کیا آئین پاکستان نے انہیں برابرکا شہری نہیں مانا؟۔جب کوئی بھی ریاست کسی ایک مسلک کو گود لے لیتی ہے تو دوسرے مسلک اور عقیدے والوں پر دنیا تنگ ہو جاتی ہے۔ تاریخ کے ہر دسویں پنے پر اس طرح کی شہادتیں بکھری پڑی ہیں۔مگر کوئی آنکھیں کھول کر سبق سیکھنے پر تیار تو ہو۔ مذہب اور ریاست کے گٹھ جوڑ سے قدم قدم پر مرتی سسکتی انسانیت نے اُس وقت سکھ کا پہلا سانس لیا تھا جب ریاست اور مذہب کے دھارے الگ الگ کر دیے گئے تھے۔ جہاں جہاں یہ کام ہوا ہے وہاں آج ریاست بھی مضبوط ہے اور مذہب بھی موجود ہے اور انسانیت چین کا سانس لے رہی ہے۔مگر ہمارے ہاں شاید ابھی وہ وقت نہیں آیا ۔ حالانکہ اب ایک لاکھ کے قریب بے گناہ انسان اس بے رحم گٹھ جوڑ کی بلی چڑھ چکے ہیں۔ایک عقیدے کے سر پر ہاتھ اور دوسروں سے سوتیلی ماں جیسا سلوک روا رکھ کر ریاست اپنے ہی گلے پر چھری چلانے کے درپے ہے۔ اس خطرناک کھیل میں اسے مگر نوشتہ دیوار پڑھنے کی فرصت کہاں؟۔کاش نیشنل ایکشن پلان پر اُس کی روح کے مطابق کوئی عمل کرتا۔حکومت کا دوہرا معیار دیکھیں کہ احمد پور شرقیہ میں اس کی اپنی ہی لاپرواہی کے نتیجے میں رونما ہونے والے حادثے میں مرنے والوں کی جان کی قیمت بیس لاکھ اور پارا چنار میں ایک سوچے سمجھے منصوبے کے نتیجے میں مرنے والوں کی جان کی قیمت صرف تین لاکھ ۔ پنجابی خون تقریباً سات گُنا مہنگا ہے دوسروں کے مقابلے میں اس حکومت کی بے شرم آنکھوں میں۔میں ایک پنجابی ہوں اور اس پر مجھے فخر ہے۔ مگر میں اپنے پشتون بھائی سے کیسے آنکھ ملا پاﺅں گا ؟ جب وہ مجھ سے پوچھے گا تمہارا خون اتنا مہنگا اور میرا سستا کیوں ہے؟۔پچھلے دنوں برمنگھم میں منعقدہ ایک تقریب میں ایک پاکستانی عیسائی بھائی سے ملاقات ہوئی۔ اس نے بھری محفل میں ایک ایسی بات کہی کہ نہ میرے پاس جواب تھا نہ سر اُٹھاکر اُس کی طرف دیکھنے کی ہمت۔اُس نے کہا، میں عقیدے کا عیسائی مگر کلچر کے حوالے سے مسلمان ہوں۔ اُسی مٹی سے جنم لیا ہے جہاں سے تمہارا خمیر اُٹھا ہے۔تماری بستیاں سلامت اور میری جلائی کیوں جا رہی ہیں۔تم بھی پنجابی ہو اور میری ماں بولی بھی یہی ہے۔تمہارے بچے شاید گھر میں اُردو بولتے ہوں مگر میرے پنجابی بولتے ہیں ۔صرف ایک عقیدے کے اختلاف پر اتنی بھیانک سزا؟۔کیا قصور ہے ہمارا اور ہمارے بچوں کا ؟۔کوئی عامر لیاقت، کوئی انصار عباسی۔کوئی اوریا مقبول جان،کوئی مولوی فضل الرحمن، کوئی علامہ ساجد نقوی، کوئی سراج الحق، مجھے بتائے کہ میں اپنے اس دھرتی ماں جائے بھائی کو کیا جواب دوں ؟۔اگر آزادی کا نتیجہ یہی نکلنا تھا تو غلامی میں کیا بُرائی تھی؟۔ کم از کم اُس وقت عقیدے کے نام پر تو انسان کا خون حلال ہونے کا تصور نہیں تھا۔ پھر میر تقی میر یاد آتے ہیں۔ ۔
نسیم آئی میرے قفس میں عبث
گلستاں سے دو پھول لائی نہیں
جب تک اس ریاست میں مذہب اور مسلک کی بنیاد پر سیاست کا دروازہ یکساں بند نہیں ہوتا ۔اور مذہب کے معاملے میں تمام شہریوں سے برابری کا سلوک نہیں ہوتا۔انہیں وہ برابر کی حیثیت نہیں دی جاتی جس کی ضمانت انہیں ریاست کا آئین دیتا ہے ، تب تک مسلک کے نام پر خون کی ہولی کھیلی جاتی رہے گی۔جب تک خفیہ ایجنسیاں کبھی ایک کو گلے لگا کر دوسروں کو سبق کبھی دوسروں کو جپھی ڈال کر پہلوں سے حساب چکتا کرنے کا کھیل بند نہیں کرتیں اس دھرتی کی ماﺅں کی گود اُجڑتی رہے گی۔جب تک ہم ایک برادر اسلامی ملک کو سگا اور دوسرے کو سوتیلا سمجھ کر اُن کی آپس کی سیاسی جنگوں کا ایندھن بنتے رہیں گے ، تب تک ہماری اپنی دھرتی ماں کا چہرہ کبھی آنسوؤں سے خشک نہیں ہوگا ۔ نہ اس کے چہرے پر کبھی مسکراہٹ دیکھنے کو ملے گی۔
جرنیل ، جاگیر دار، سرمایہ دار اور مذہبی پیشوایت کے گٹھ جوڑ سے وجود میں آنے والی بے رحم اشرافیہ کے ہاتھوں یہ ریاست یرغمال بن چُکی ہے۔ آج کی جمہوری حکومت کی منافقت اور دوہرا معیار دیکھیں کہ اس کی عمل داری کے ایک کونے میں جمشید دستی جیسا سیاست دان اور ممبر پارلیمان ایک عام اخلاقی مجرم کی طرح ہاتھ پاﺅں باندھ کر حوالات میں بھوکا پیاسا پھینک دیا جاتا ہے،تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔جرم اس کا غریب کسانوں کو نہر سے پانی مہیا کرنابتایا جاتا ہے۔جو جاگیر داراشرافیہ کے نزدیک قتل سے بھی بڑا جرم ہے۔ اور دوسری طرف شہر کوئٹہ کے بیچوں بیچ دن دہاڑے ایک وڈیرا سیاست دان مجید اچکزئی ایک پولیس اہل کار کو اپنی گاڑی تلے کچلتا ہے،مقدمہ نامعلوم افراد پر درج ہوتا ہے۔ میڈیا کے شور پر گرفتاری عمل میں آتی ہے تو بڑے صاحب کے سلاخوں کے پیچھے کھڑے ہو کر فوٹو کھنچوانے سے قبل وہاں کمرا ٹھنڈا کرنے والی مشین لگوائی جاتی ہے۔جمشید دستی کو ظلم کا نشانہ بنا کر سیاسی اشرافیہ نے عوام کو ایک پیغام دیا ہے، اپنی اوقات اور حیثیت میں رہو۔ تم اگر ووٹ لے کر ممبر پارلیمان بن بھی جاﺅ تو پھر بھی اپنی حیثیت مت بھولنا۔مگر کب تک؟۔ آخر ایک وہ دن طلوع ہونا ہی ہے جب عوام کو اس کھیل کی سمجھ آئے گی۔جب انہیں شعور آئے گا کہ انہیں مذہب ، مسلک، رنگ نسل ،زبان، عقیدے ،علاقے کی بنیاد پر تقسیم کر کے دراصل اُن کے بنیادی انسانی حقوق پر قبضے کا کھیل رچایا گیا تھا۔شعور کا وہ دن ہی اس دھرتی کا یوم حساب ہوگا۔جب لپ لپ پٹرول بالٹیوں میں بھر کر بچوں کی عیدی کا سامان خریدنے کا خواب دیکھنے والوں کا حساب بھی ہوگا،پارہ چنار کے بازاروں میں یتیم بچوں کا گلی سڑی سبزیاں چن کر بیوہ ماﺅں کو لا کر دینے سے پہلے خون کے دھبوں میں تبدیل ہوجانے کا حساب بھی ہوگا۔ ہمارے بچوں کے منہ سے نوالے چھین کر بیرون ممالک محلات تعمیر کرنے والوں کا کھاتہ تو کھل چکا ہے۔ باقی کے حساب بھی بے باق ہو ں گے۔ ہوں گے کیوں نہیں، آخر ہم ذمین زادے ہیں ، کوکھ زادے ہیں ، حلال زادے ہیں ۔ کب تک ہم سے سوتیلوں اور حرام زادوں جیسا سلوک روا رکھا جائے گا۔ کب تک؟
فیس بک کمینٹ