ڈرامے میں ایک فنی حربہ یا ناظرین سے ڈرامائی سمجھوتا Aside کہلاتا ہے،جب سٹیج پر موجود کرداروں کے دل کا احوال بتانا ہو یا کسی طاقت ور کردار یعنی بادشاہ وغیرہ کی’حماقتوں‘ پر تبصرہ کرنا ہو اور یہ بھی چاہتے ہوں کہ بادشاہ سچی بات سن کر جاتے جاتے کسی طناز کا سر قلم ہی نہ کرا دے تو اس کردار کو اجازت دی جاتی ہے کہ وہ اپنے ہونٹوں کے کنارے پراپنے ہاتھ کی اوٹ بنا کر یا سٹیج کے کونے پر جا کر کہہ دے ’بھئی بڑا ہی ڈھیٹ بادشاہ ہے،یا کافی احمق نواب ہے،پورا کاٹھ کا الو ہے یہ شخص تو‘ وغیرہ اور فرض کیا جاتا ہے کہ سب ناظرین نے یہ بات سن لی مگر بادشاہ سلامت کے کانوں تک یہ بات نہیں پہنچی۔ یہ اور بات بعض دانشمند درباری کڑھتے رہتے ہیں،وہ چھپ چھپ کے روز نامچے لکھتے ہیں،ان میں کچھ اوراق بچ جاتے ہیں اور صدیوں بعد سامنے آ جاتے ہیں اور آج کی نسل حیران ہوتی ہے کہ انہوں نے کسی اور نام سے کوئی بلاگ کیوں نہیں بنا رکھا تھا؟ یہیں ایک بے بس بادشاہ یاد آ رہا ہے،جسے بہادر شاہ اور وہ بھی ظفر کہا جاتا ہے،جسے انگریزوں نے عضوِ معطل کر دیا تھا،مگر بعض ’غیر مہذب‘ علاقوں کے سپاہیوں کی اپنے حق میں بغاوت کے نتیجے میں کچھ دن دلی کے تخت پر اسے بے دلی سے بیٹھنا پڑا۔باغی سپاہی جانتے تھے کہ دربارکے کون کون سے وزیر،مشیر انگریزوں سے رابطے میں ہیں،مگر ظلِ الٰہی کو یہ پوری طرح معلوم نہیں تھا۔ سو ،تب کے ’مجاہد‘ کبھی کبھار بادشاہ کے کان میں کوئی راز داری کی بات کہہ دیتے ،مگر بادشاہ کو بے بسی کے عالم میں بھی آدابِ شاہی کے پامال ہونے کا صدمہ اس قدر تھا کہ انہوں نے اپنے ایک’مہذب‘ ساتھی سے کہا ’ان کم بختوں نے میرے کان اگال دان بنا رکھے ہیں‘۔گویا کچھ عرصے بعد معزول ہو سکنے والے حکمران بھی کسی سچ جاننے یابولنے والے کو اپنے قریب آنے نہیں دیتے۔ مگر یہ سچ فرنگی ایلچیوں کی ڈائریوں اور خفیہ مکاتیب میں کہیں نہ کہیں درج ہو جاتا ہے۔ اب تو وکی لیکس کے بعد پاناما لیکس نے دھوم مچا دی ہے، مگرقومی تاریخ کے اوراق کسی نہ کسی طور اورصورت میں بھی کھل رہے ہیں۔ روئیداد خان کا ہماری قومی تاریخ کو مسخ کرنے یا اداروں کو کمزور کرنے کا جو بھی کردار رہا ہو، "The British Papers اور American Papers The نامی ان کی مرتبہ دو کتابوں اور ایف ایس اعجازالدین کی کتاب "The White-House and Pakistan” کی مدد سے قیوم نظامی نے ’خفیہ پیپرز‘ کے عنوان سے ایک کتاب مرتب کر دی ہے ،جو ہمارے سماجی علوم کے ان ماہرین کو پڑھنی چاہئیے، پڑھوا کر ہی سہی ،جو ہائر ایجوکیشن کمیشن وغیرہ سے لاکھوں روپے کی گرانٹیں لے کر اہلِ پاکستان سے جب کبھی خطاب کرنے لگتے ہیں تو بڑی درد مندی سے اعتراف کرتے ہیں کہ ہمیں اس قومی زوال کی بڑی فکر ہے مگر ہمیں اردو نہیں آتی ،اس لئے اس غافل قوم کو جگانے سے قاصر ہیں۔ بہر طور جہانگیر بکس کی جانب سے مطبوعہ اس کتاب میں بہت اہم ریکارڈ ہے ۔ اس میں لیاقت علی خان کے قتل سے لے کر بھٹو کے اقتدار کے ابتدائی دو برسوں کے حوالے سے امریکی اور برطانوی سفیروں کی رپورٹیں بھی ہیں اور ان کے نام اہم ہدایات بھی۔اس میں سکندر مرزا کی جانب سے آئینِ پاکستان کی حرمت کے حوالے سے وہ الفاظ درج ہیں۔جو اگر کوئی ناراض بلوچ ادا کرے تو ہم سیخ پا ہو جاتے ہیں:
’انتہائی خفیہ:No.1665 dated:Oct 7,1958 ’صدر نے مجھے آج شام بتایا کہ وہ کمانڈر ان چیف اور سینئر جرنیلوں کے تعاون سے کل بروز منگل ساڑھے دس بجے رات مارشل لا نافذ کر دیں گے۔وہ رات گیارہ بجے برطانوی ہائی کمشنر اور امریکن سفیر کو طلب کر کے اپنے فیصلے سے مطلع کریں گے۔صدر بدھ کو سات بجے قوم سے خطاب کریں گے۔جب میں نے امید ظاہر کی کہ ان کا مجوزہ اقدام آئین کے دائرے میں ہو گا تو انہوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ آئین پھاڑ دیا جائے گا‘ ۔اسی برس کے اٹھارہ دسمبر کے مکتوب میں ہمارے ایک اور قومی سپوت جنرل یحییٰ خان کا بھی ذکر ہے،جو فوج میں ایوب خان کے جانشیں یا کم از کم آنکھ کے تارے کے طور پر ابھر رہے تھے،جن کے بارے میں یہ لکھا ہے’انجئینر ونگ کے میجر۔۔۔، اور اس کی آئرش بیوی بھی موجود تھے۔ وہ خاتون یحییٰ کی مسٹریس یا گرل فرینڈ کے طور پر نظر آ رہی تھی،جس کی جنرل کے ساتھ بے تکلفیوں نے اس شام یحییٰ اور م ۔۔۔ کے سوا سب کو حیران کر دیا‘۔
چار جون1971 کی ایک دستاویز میں ریٹائرڈ جسٹس جاوید اقبال کا بھی ذکر ہے، جنہیں ابھی جج بننا تھا۔ضیا الحق کی اسلامی جمہوریت کے لئے کچھ تاویلات بھی کرنی تھیں تاہم اس وقت وہ کونسل مسلم لیگ کے رہنما تھے اور لاہور سے بھٹو کے مقابلے میں الیکشن ہارے تھے:
’مجھے قزلباش کے ڈنر میں کونسل مسلم لیگ کے نمایاں لیڈر ڈاکٹر جاوید اقبال سے گفتگو کا موقع ملا،انہوں نے دو ہفتے قبل صدر یحییٰ سے ملاقات کی اور اس موقع پر اقتدار کی منتقلی کی سخت مخالفت کی۔ان کے خیال میں مشرقی پاکستان میں چونکہ ابھی معاملات طے نہیں پائے،اس لئے اقتدار کی منتقلی کا یہ مناسب موقع نہیں‘۔ مگر اب کے کئی حکمرانوں کے لئے چشم کشا اور عبرت انگیز دستاویزات ایوب خان کے بارے میں ہیں۔میرے لئے سب سے اہم سوال یہ ہے کہ زوال اور معزولی یا سبک دوشی کے عرصے میں وہ اپنے بیٹوں کی بجائے بیٹیوں کو سفارت کار کیوں بناتے ہیں؟ یا بیٹیاں ہی اخلاص اور درد مندی سے ان کی قاصد کیوں بنتی ہیں؟ یہ تو ہم جانتے ہیں کہ غیر ملکی دوروں میں وہ اپنی بیگم کی بجائے اپنی بیٹی کو لے جاتے تھے،مگر مجھے اعتراف ہے کہ اپنے دوست سحر صدیقی کی طرف سے لکھی بعض اہم مگر اپنی ناپسندیدہ سوانح عمریوں[غلام اسحاق خان،بیگم کلثوم سیف اللہ] کو پڑھنے کے باوجود میں نہیں جانتا تھا کہ ایوب خان کی یہ بیٹی اپنے بھائیوں کے بارے میں کیا رائے رکھتی تھی۔اب مجھے گوہر ایوب کی یاد داشتوں کو دوبارہ پڑھنا پڑے گا کہ کیا ان میں اس درد مندی اور بصیرت کا کوئی نصف بھی موجود ہے،جو ،ان کی اس بہن کی ملاقات کی رپورٹ میں ظاہر ہوتا ہے:
26 فروری 1969 کے ایک خفیہ خط میں برطانوی سفیر نے بغیر کسی لاگ لگاﺅ کے لکھا،حالانکہ ان کا نام H.A.Twist تھا:’ میَں نے حال ہی میں صدر ایوب کی بیٹی بیگم[نسیم]اورنگ زیب سے دو طویل ملاقاتیں کی ہیں۔۔اورنگ زیب پہلی ملاقات میں موجود تھے،مگر دوسری میں نہیں۔ میَں پہلی ملاقات کی تفصیل نہیں بتاﺅں گا کیونکہ اب وہ تاریخ کا حصہ بن گئی ہے۔۔مجھے حیرانی ہوئی جب انہوں نے 16فروری کی ملاقات میں سوال کیا ’میَں خاص طور پر اس سوال کا جواب لینے کے لئے آئی ہوں’ صدر کو کیا کرنا چاہیئے‘۔۔جب نسیم دوسری مرتبہ 25 فروری کو آئیں،تو ان کا سوال پہلے کی طرح حیران کن تھا’ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اگر سیاست دان راضی نہ ہوں تو صدر کو اقتدار چھوڑ دینا چاہیئے‘؟۔نسیم نے کہا،اس کے والد سابقہ اعلان کے بعد[کہ وہ آیندہ انتخابات میں حصہ نہیں لیں گے]اپنے وزیروں اور مسلم لیگ کے سرکردہ اراکین کے رد عمل سے سخت مشتعل ہوئے ہیں۔ دو گورنروں نے ان پر پیٹھ پیچھے چھرا گھونپ دینے کا الزام لگایا ہے۔۔۔صدر اور اس کے خاندان کے خلاف کردار کشی کی مہم میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔اس وقت پاکستان میں دو گروپ ہیں،ایک تسلیم کرتا ہے کہ اس کے باپ نے پاکستان کے لئے خدمات انجام دی ہیں،تاہم اس کے باپ کو اس کی ماں کے مشورے پر اس وقت ریٹائر ہو جانا چاہئے تھا۔دوسرا گروپ سمجھتا ہے کہ وہ خود بھی کرپٹ ہے اور اس نے اقتدار کے لئے انصاف کی دھجیاں بکھیر دیں۔اپنے خاندان کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ بھی اس کی تقلید کرے‘۔میَں نے نسیم سے کہا کہ اس نے اپنے والد کو انتباہ کیوں نہ کیا کہ دولت جمع کرنے کی وجہ سے اس کی ساکھ کو نقصان پہنچ رہا ہے؟ اس نے کہا کہ اس نے انتباہ کیا تھا مگر اس کے بھائی اپنے والد کو فریب دیتے رہے‘۔ سوال یہ ہے کہ اکثر حکم رانوں کے بیٹے بھی مفاد پرست درباریوں کی طرح فریب کیوں دیتے ہیں؟ کبھی جعلی ڈگریوں کا کاروبار کرتے ہیں، منی لانڈرنگ کرتے ہیں،ہر قسم کے تحائف ہر ایک غرض مند سے لیتے ہیں اور اگر کوئی دنیا بھر میں پھیلی ہوئی ان املاک اور بے نامی اکاﺅنٹ کے بارے میں تفتیش کی غرض سے کبھی پوچھ ہی لے تو وہ معصومیت سے کہتے ہیں کہ ہم سے سوال کرنے والے جانتے ہی نہیں کہ دراصل نظریہ پاکستان کیا ہے؟
فیس بک کمینٹ