فرض کرو محمد علی جناح انیس سو پچپن تک زندہ رہتے تو کیا قرار دادِ مقاصد تب بھی منظور ہوتی؟ ایوب خان کو بطور کمانڈر انچیف دوسری بار توسیع ملتی؟ غلام محمد اور اسکندر مرزا کا نام کسی نے سنا ہوتا؟
فرض کرو مشرقی پاکستان کا نام ہوتا مغربی پاکستان تو کیا پھر بھی بنتا ون یونٹ؟
فرض کرو فاطمہ جناح پاکستان کی صدر ہوتیں تو کیا پینسٹھ کی جنگ تب بھی ہوتی؟ کیا مجیب الرحمٰن غدار قرار پاتا؟
فرض کرو ذوالفقار علی بھٹو جنرل ذوالفقار علی بھٹو ہوتے تو کیا پانچ جولائی اور چار اپریل پھر بھی آتا؟
فرض کرو انڈیا کا نام ہوتا سعودی عرب اور افغانستان کا نام ہوتا یو اے ای اور پھر وہاں سے آ رہی ہوتی شدت پسندوں اور جنونیوں کے لیے نجی ذرائع سے امداد۔ تو کیا تب بھی برسوں تک بلا روک ٹوک آتی رہتی؟
فرض کرو امریکی ڈرونز جلال آباد کے بجائے انبالہ سے پرواز بھرتے تو کیا ان کے حملوں کی تعداد تب بھی چھ سو سے زائد ہوتی؟ اور فرض کرو امریکی ہیلی کاپٹر سرینگر سے اڑ کر ایبٹ آباد میں اترتے تو کیا سری نگر واپس بھی جاتے؟ کیا پاکستان کی زمینی ، فضائی اور بحری حدود ایک ہی ہیں یا کیٹگری اے اور بی پر مشتمل ہیں ؟
فرض کرو پاناما پیپرز دو ہزار چھ میں لیک ہوتے اور ان میں صدر پرویز مشرف اور ان کے اہلِ خانہ کا نام بھی ہوتا؟
فرض کرو آصف زرداری کسی بھی وجہ سے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو برطرف کر کے آئین کی جزوی معطلی کرتے اور پھر ایمرجنسی لگا دیتے اور صدارت سے سبکدوشی کے بعد ان پر آئین کے آرٹیکل چھ سے غداری کا مقدمہ قائم ہوجاتا کہ جس کی سزا موت ہے۔تو کیا انہیں ضمانت پر بیرونِ ملک جانے کی اجازت ہوتی؟
فرض کرو آئیل ٹینکر بہاول پور کے بجائے پاڑہ چناڑ میں الٹتا اور ایک سو نوے افراد جل جاتے اور دو خود کش حملے بہاول پور میں ہوتے اور پچاسی ہلاکتیں ہوتیں۔ تب نواز شریف کا طیارہ سب سے پہلے کہاں اترتا؟
فرض کرو احمد شجاع پاشا امریکہ میں پاکستانی سفیر ہوتے اور حسین حقانی لاہور کی ایک عدالت میں بیٹھ کر ریمنڈ ڈیوس کی بابت امریکی سفیر کیمرون منٹر سے ایس ایم ایس پر مسلسل رابطے میں ہوتے تو پاکستانی میڈیا اور اسٹیبلشمنٹ حقانی کا کیا کرتے؟
شاید ریمنڈ ڈیوس کی کتاب ’دی کنٹریکٹر‘ بھی اتنی ہی اہم ہے جتنے پاناما پیپرز۔ کیا عمران خان ریمنڈ ڈیوس کے انکشافات کی چھان بین کے لیے عدالت سے رجوع کرنا چاہیں گے یا ازخود نوٹس لینے کی درخواست کریں گے یا عدم شنوائی کی صورت میں دھرنا دیں گے؟
یا کسی جانب سے تحقیقاتی کمیشن کا مطالبہ ہوگا کہ جس میں اس وقت کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی، سابق وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی، سابق صدر آصف علی زرداری، سابق سپاہ سالار جنرل ریٹائرڈ پرویز کیانی، سابق سپائی ماسٹر لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ احمد شجاع پاشا، ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کا فیصلہ دینے والی عدالت کے سابق آنر ایبل جج اور دو مقتولوں کے ورثا اور ان کے وکلا بھی ڈر اور دھمک سے پاک شہادت قلمبند کروا سکیں۔
اور ’ریمنڈ ڈیوس کو پھانسی دو‘ کے فلک شگاف نعروں کے ساتھ دھواں دھار مظاہروں کی ماہر جماعتِ اسلامی، جمیعت علمائے اسلام اور دیگر دینی جماعتوں سے بھی وضاحت مانگی جائے گی کہ یہ تحریک ریمنڈ ڈیوس کا طیارہ بلند ہوتے ہی مزید پھیلنے کے بجائے جھاگ کی طرح کیوں بیٹھ گئی؟ کیا اس تحریک میں بھی کوئی ٹائمر نصب تھا؟
اور فرض کرو کھلبوشن جادیو بلوچستان ہی سے پکڑا جاتا مگر را کے بجائے ریمنڈ ڈیوس کی طرح سی آئی اے کا ایجنٹ نکلتا تب بھی اعترافی وڈیو سامنے آتی؟
(بشکریہ : بی بی سی اردو)
فیس بک کمینٹ