مجبوری تھی موٹر سائیکل لینا بھی ضروری تھی اس لئے تھوڑی بچت کی۔۔ تھوڑا ” بھن تروڑ” کیا ۔ دیکھا تو پیسے پھر بھی کم تھے اس لئے تھوڑا اور بھن تروڑ کیا لیکن پیسے تھے کہ پورے نہ ہو پا رہے تھے تو عزیزو! اس سے پہلے کہ ہم پیسوں کے لیئے مزید کوئی جگاڑ لگاتے ۔۔ مقتدر حلقے نے فوراً ہی ایک سخت بیان جاری فرما دیا کہ اگر اب کی بار بھی تم نے ہل من مزید کا نام لیا تو تمہارے پیکرِ خاکی پر ضربِ خفیف نہیں بلکہ ضربِ شدید سے مضروب ہونے کا قوی امکان پایا جاتا ہے۔ چنانچہ مقتدر حلقے کے اس بیان پر ہم نے تھوڑے کو "بوتا” جانا اور اپنے ساتھ ایک ماہرِ موٹر سائیکلات کو (کہ جس کے بارے میں مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ میری طرح اسے بھی موٹر سائیکل کے بارے میں فقط اتنا ہی معلوم تھا کہ ہر موٹر سائیکل میں دو ٹائر ، ایک ہینڈل اور ایک سیٹ ہوتی ہے کہ جس پر بیٹھ کر موٹر سائیکل کو قابو کیا جاتا ہے) ساتھ لیا اور اس مارکیٹ کی طرف نکل پڑے کہ جہاں سیکنڈ ہینڈ موٹر سائیکلیں ملتی تھیں ۔ پہلی دکان پر ہی میری ایک چم چم کرتی نئی نویلی دکھنے والی بائیک پر ایسی نظر پڑی کہ پھر لوٹ کر نہیں آئی یہ صورت ِ حال دیکھ کر مالک دکان نے میرا کاندھا پکڑ کر باقاعدہ اپنی طرف متوجہ کیا اور کہنے لگے بھائی جی آپ موٹر سائیکل مارکیٹ میں آئے ہو کوئی گرلز کالج کے گیٹ پر نہیں کھڑے۔ دکان دار کی بات سن کر میں نے شرمندہ سی شکل بنا کر اس کی طرف دیکھا۔۔۔ اور خواہ مخواہ ہی دانت نکال دیئے ۔۔ پھر اس کے ساتھ ہی اپنی خفت مٹانے کے لئے ماہرِ موٹر سائیکلات کے کان میں کھسر پھسر کی جو کہ بوجہء ندامت اتنی اونچی ہو گئی کہ دکان دار نے بھی اسے باآسانی سن لیا اور کن اکھیوں سے ہماری طرف دیکھنے لگا ۔ادھر میری کھُسر پھُسر سن کر ساتھ آئے ماہر صاحب کہنے لگے یار اونچی بولو مجھے سمجھ نہیں آئی کہ میرا سارا دھیان گرلز کالج کے گیٹ کی طرف تھا پھر میری قہر بھری نظروں سے بات سمجھ کے بولا یار گڈی تو اے ون ہے لیکن جب دکان دار سے اس کی قیمت پوچھی تو میرا منہ فق اور ۔۔۔ میں حیران رہ گیا یہ اس رقم سے تقریباً دگنی تھی جو کہ اس وقت میرے کھیسے (جیب) میں پڑی ہوئی تھی ڈرتے ڈرتے دکاندار کو اپنی آفر بتائی ۔۔ جسے سن کر اس نے پنجابی کے ایک محاورے کے مطابق مجھے ایسی نظروں سے دیکھا کہ جیسے کانی مج ( بھینس ) قصائی کی طرف دیکھتی ہے موٹر سائیکل کیا لینی تھی الٹا بڑے بے آبرو ہو کر اس دکان سے ہم نکلے۔
وہاں سے نکل کر ہم نے پوری مارکیٹ کا چکر لگایا اور الحمداللہ ہمیں ہر طرف سے منہ کی کھانی پڑی بلکہ ایک دو جگہ تو پاؤں سے بھی کھانے کی نوبت آ گئی تھی لیکن کسی نہ کسی طرح ہم بچ نکلے۔ اور پھر حال ایں جا رسید کہ کہیں کسی بائیک کی قیمت ہمیں ایک آنکھ نہ بھائی۔۔اور کہیں پر دکاندار نے اس کی قیمت اتنی زیادہ بتا دی کہ بے اختیار ہمارے دل سے یہ نکلا کہ ہمارے دل سے مت کھیلو ۔۔کھلونا پاٹ جائے گا۔۔ آخر چلتے چلتے ہم ایک ایسی دکان پر پہنچے کہ جہاں موٹر سائیکلوں کی کافی ورائٹی پائی جا رہی تھی۔ باقیوں کی نسبت وہ دکاندار کافی تیز ، باتونی اور سب سے بڑی بات یہ کہ ہمیں جیسے بندوں کو بھی کہ جن کی شکل پر ہی چندہ برائے مسجد کا بورڈ لگا ہوتا ہے کو بڑا وی آئی پی پروٹوکول دے رہا تھا ۔ اسی دوران ہماری نظر نسبتاً دور کھڑی ایک لش لش کرتی بائیک پر جا پڑی اسے دیکھ کر ہم نے یوں ہی روانی میں اس کی تعریف کر دی اپنی بائیک کی تعریف سن کر دکاندار ایک دم پھڑک کر بولا۔۔ واہ جی واہ میں آپ کے حسنِ نظر کی داد دیتا ہوں پھر میرا ہاتھ پکڑ کر اس بائیک کے پاس لے گیا اور کہنے لگا۔۔ غور سے دیکھیں جناب ۔۔ یہ بائیک نہیں بلکہ تصویر ہے تصویر ۔۔ اور ۔ پھر میری طرف دیکھتے ہوئے بولا۔۔ جناب اس جیسی ” شیشہ گڈی ” آپ کو پوری مارکیٹ میں نہیں ملے گی اور پھر اس کے ساتھ ہی اس نے شیشہ گڈی کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیئے۔ چنانچہ "شیشہ گڈی ” کی اتنی زیادہ تعریف سن کر ڈرتے ڈرتے ہم نے اس کی قیمت پوچھی تو یہ ہمارے ” وارے ” کے آس پاس ہی پائی ۔ یوں تھوڑے سے بھاؤ تاؤ کے بعد ہم وہ شیشہ گڈی خریدنے میں کامیاب ہو گئے-
شروع کا ایک ہفتہ تو شیشہ گڈی بڑی اے ون چلی ۔۔۔ پھر آہستہ آہستہ اس کے جوہر کھلے ۔ یعنی کہ پہلے اس کے شاک کھلے ۔۔ پھر انجن کھلا ۔۔۔ اور آخر میں میرے ” کھُنے ” بھی کھل گئے۔ ہوا یوں کہ ایک دن میں شیشہ گڈی پر بیٹھا کہیں جا رہا تھا کہ پتہ نہیں کیسے ایک پرانی سی عورت معہ دو تین ہٹے کٹے اشخاص کے ۔۔عین میری بائیک کے سامنے آ گئی۔ ادھر چونکہ شیشہ گڈی کی بریک لگتے لگتے ۔۔۔ لگتی تھی اس لئے خطرہ بھانپتے ہی میں نے بائیک کی بریک کے ساتھ ساتھ زمینی بریک (مطلب دونوں پاؤں زمین پر لگا کر روکنا) بھی لگائی لیکن ۔۔۔ بریک لگتے لگتے بھی شیشہ گڈی اس مائی کے ساتھ ہلکی سی "وَج” گئی ادھر بائیک کا اس عورت کے ساتھ ٹچ ہونے کی دیر تھی کہ وہ بزرگ نما عورت جھٹ زمین پر گری اور لوٹنیاں لینے لگی۔۔۔ اور پھر اس خاتون نے لیٹے لیٹے اپنے سر پر دونوں ہاتھ رکھے ۔۔۔اور چیخ و پکار شروع کر دی کہ ہائے ہائے اس ” سائیکل موٹر ” والے کی ٹکر سے میری کمر ” بھج ” (ٹوٹ) گئی ہے یہ ماجرا دیکھ کر میں بائیک سے نیچے اترا اور اس خاتون کے پاس جا کر بولا۔۔ لیکن ماں جی پکڑ تو آپ نے اپنے سر کو رکھا ہے تو ؟ چونکہ میری بات میں دم تھا اس لیئے میری ” دَم دار” بات کو سنتے ہی اس خاتون نے جلدی سے اپنے ہاتھوں کو سر سے ہٹایا اور کمر پر رکھتے ہوئے ایک نظر میری طرف دیکھا (کہ جیسے کہہ رہی ہو اب ٹھیک ہے ) اور پھر ایسے بین ڈالے کہ اس کی چیخ و پُکار سن کر اس کے ساتھ آئے ہوئے تینوں گلو بٹ جو کہ اتفاق سے اس کے بیٹے بھی لگتے تھے خون خوار نظروں سے دیکھتے ہوئے میری طرف بڑھے ۔۔۔ ۔ آگے آپ خود اندازہ لگا لیں کہ ایسے موقعوں پر ” کھُنے” کھلنا بنتا ہے کہ نہیں؟؟
ایک اور دفعہ کا ذکر ہے کہ میں شیشہ گڈی پر بیٹھا کہیں جا رہا تھا کہ اتنے میں چوک آ گیا جیسے ہی میں چوک کے قریب پہنچا تو شیشہ گڈی کو اپنی طرف آتا دیکھ کر ہری بتی کا رنگ پیلا ہو گیا۔۔۔ اور دوستو جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ شیشہ گڈی کو بریک لگتے لگتے ۔۔۔ لگتی ہے اس لیئے یہ سوچ کر میں نے اس کی رفتار بڑھا دی کہ سگنل کا رنگ سرخ ہونے سے پہلے ہی اشارہ کراس کر جاؤں گا لیکن بدقسمتی سے جیسے ہی میں چوک کے عین قریب پہنچا ۔۔۔ اشارہ سرخ ہو گیا چونکہ بوجہ مجبوری میں رک نہیں سکتا تھا ۔۔(کیونکہ اگر میں رکتا بھی تو شیشہ گڈی نے نہیں رکنا تھا ) چنانچہ جیسے ہی میں نے چوک کراس کیا تو اشارے کی خلاف ورزی دیکھ کر سارجنٹ نے مجھے رکنے کا اشارہ کیا لیکن میں نے دل ہی دل میں یہ کہہ کر کہ یہ شیشہ گڈی ہے یہ نہیں رکتی۔۔ چلتا رہا یہ دیکھ کر سارجنٹ نے میرے پیچھے دوڑ لگا دی اور جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ شیشہ گڈی کی رفتار ۔۔ اللہ اللہ ۔۔میں نے اسے تیز بھگانے کی بڑی کوشش کی ۔۔ لیکن اس کی رفتار میں سرِ مُو بھی فرق نہ آیا۔۔۔ادھر سارجنٹ شیشہ گاڑی کے پیچھے جذباتی ہو کر اتنا تیز دوڑا کہ وہ دوڑتے دوڑتے اس سے آگے نکل گیا۔۔۔۔ اب صورتِ حال یہ تھی کہ شیشہ گڈی اس کے پیچھے اور وہ میرے آگے آگے دوڑ رہا تھا اچانک ہی اسے خیال آیا اور اس نے پیچھے مُڑ کر شیشہ گڈی کی طرف دیکھا اور رُک گیا پھر اسے کیئرئیر سے پکڑ کر روک لیا ۔۔ جیسے ہی میں رکا اس نے مجھے اور میں نے اسے پہچان لیا چنانچہ مجھے پہچانتے ہی کہنے لگا نکال دو سو روپے۔۔۔ ورنہ تمہیں اور تمہاری شیشہ گڈی دونوں کو بند کر دوں گا ۔۔اس پر میں نے حیران ہو کر اس سے پوچھا کہ جناب دو سو کس بات کے؟ ریٹ تو سو کا چل رہا ہے ۔۔۔ تو اس پر وہ کہنے لگا کہ ایک سو اشارہ توڑنے کے اور دوسرا سو مجھے بھگانے کا ۔۔۔پھر ادھر ادھر دیکھتے ہوئے کہنے لگا ۔۔چھیتی کر۔۔ چیل کے گھونسلے میں ماس کہاں؟ اوپر سے مہینے کی آخری تاریخیں چل رہیں تھیں ۔ میرے پاس پیسے تو نہیں ۔۔ ہاں بجلی کا بل ضرور پڑا ہو ا تھا ۔۔ یہ سوچ آتے ہی ۔۔۔ میں نے بھی پراسرار نظروں سے ادھر دیکھا ۔۔۔۔اور پھر جیب کے اندر ہی بجلی کے بل کو موڑ توڑ کر ۔۔۔۔ تعویز سا بنایا ۔۔۔اور پھر ادھر ادھر دیکھتے ہوئے سارجنٹ کی جیب میں ڈال کر فوراً ہی وہاں سے رفو چکر ہو گیا۔۔۔۔
دوستو شیشہ گڈی کہ جس کو بعض حاسدین بوجہ حسد کھٹارا گڈی بھی کہتے ہیں کی اور کیا خوبیاں بیان کروں کہ یہ اپنی مثال آپ ہے ۔۔۔ اس کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ بھرے چوک میں بند ہونے کی صورت میں خون خوار قسم کے ٹریفک سارجنٹس نے بھی اس کو دھکے لگائے ہوئے ہیں آئے دن مستریوں کے پاس جانے کی وجہ سے موٹر سائیکل ٹھیک کرنے والے کافی احباب میرے دوست بن چکے ہیں بلکہ ایک دو کے ساتھ تو میں نے کمیٹیاں بھی ڈالی ہوئیں ہیں یہی لوگ چھوٹی موٹی خرابی کی صورت میں مفت مرمت بھی کر دیتے ہیں اسی طرح شیشہ گڈی کے ” ٹائروں کے طفیل ” کافی ” چھوٹے ” اس پر ہاتھ سیدھا کر کے اب اچھے خاصے استاد بن گئے ہیں ۔ دوستو شیشہ گڈی کبھی تو سو ککوں پر بھی اسٹارٹ نہیں ہوتی اور کبھی پہلی کک سے بھی پہلے سٹارٹ ہو جاتی ہے کبھی چلتے چلتے یونہی رک جاتی ہے یہ۔۔۔۔ اور کبھی رک جانے کی صورت میں چلنے کا نام ہی نہیں لیتی میرا دوست کہتا ہے کہ تم بھی شیشہ گڈی پر لوکل بسوں کے گیٹ پر لکھا یہ جملہ لکھوا لو کہ بسم اللہ پڑھ کر سوار ہوں ۔۔ ہو سکتا ہے کہ یہ آپ کا آخری سفر ہو ۔ غرض کہ شیشہ گڈی کے بارے میں آپ کہہ سکتے ہیں کہ
انجن کی خوبی نہ ڈرائیور کا کمال ۔۔۔۔۔ چلی جا رہی ہے خدا کے سہارے
فیس بک کمینٹ