ہر سال کی طرح اس سال بھی 4فروری کو World Cancer Day یعنی” کینسر/سرطان کاعالمی دن “ منایا جا رہا ہے۔2016سے لے کر 2018تک اس دن کا ایک Theme مقرر ہے اور وہ ہے "We Can, I Can” یعنی اجتماعی اور انفرادی طور پر ہمیں کینسر سے بچاﺅکے لیے کام کرنا ہے اور ہم ایسا کرسکتے ہیں جس طرح سے مختلف لو گو ں پر کینسر کے اثرات اورعلامات مختلف ہوتی ہیں اور ہر شخص جس پر یہ موذی مرض حملہ کرتا ہے ، مختلف اندازمیں اس مرض اور اس کے علاج کو برداشت کرتا ہے،بالکل اس طرح سے ہم سب لوگوں کو اپنی اپنی جگہ پر اس کی روک تھام کے لیے کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ہمارے ہاں عام طور پر چھاتی کاسرطان ، مُنہ کا سرطان ، آنتوں کا سرطان ، خوراک کی نالی کا سرطان ، خون کا سرطان ، انڈے
دانی کا سرطان،رحم اور رحم کے نچلے حصے کا سرطان اور اب ایک بڑی تعداد میں جگر کا سرطان دیکھا جارہا ہے۔پاکستا ن کا شمار بدقسمتی سے ایشیاءکے اُن ممالک میں ہوتا ہے جہا ں چھاتی کا سرطان سب سے زیادہ ہے۔ایک اندازے کے مطابق 2017 میں چھاتی کے سرطان کے 90 ہزار کیس رپورٹ ہوئے اور اس سال تقریبا40 ہزار اموات اس موذی مرض کے ہاتھوں ہوئیں ۔ایک اور اندازے کے مطابق2012میں کینسر کےایک لاکھ 48 ہزار کیس رپورٹ
ہوئے اور اب اس تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے۔
اس موذی مرض کی وجوہات میں زیادہ تر تمباکو نوشی ، شراب نوشی ، ناقص خوراک ، موٹاپا اور Hereditary Cancer
یعنی موروثی سرطان شامل ہیں ۔اس کے علاوہ ہیپا ٹا ئٹس Bاور C اہم وجوہا ت ہیں۔کینسر کے مرض کو اگر ابتدائی مراحل میں تشخیص کر لیا جائے تو اس کے علاج کے ذریعے سے اچھے اور بہتر نتائج سامنے آسکتے ہیں اور ہم اس بیماری کو شکست دے سکتے ہیں عام طور پر کچھ علامات ہیں جن پر توجہ دینا نہایت ضروری ہے جیسے بلاوجہ تھکاوٹ یا سستی ،چھاتی میں گلٹی یا نپل سے خون آنا ،بھوک کاکم لگنا ، مستقل کھانسی رہنا یا بلغم میں کھانسی آنا ، جسِم کے کسی بھی حصے میں گلٹی کا نکلنا یا موجودہ گِلٹی کا تیزی سے بڑھ جانا، پاخانے یا پیشاپ سے خون آنا، وزن میں کمی ہونا وغیرہ ۔ ہم سب کو چاہیے کہ کینسر کی روک تھام کے لیے اپنا اپنا حصہّ ضرور ڈالیں تاکہ اس مرض کے موذی اثرات سے خود کو بچا سکیں۔سکول ، کالج اور یونیو رسٹیوں میں آگاہی پروگرام کروانے سے اپنی آنے والی نسلوں کو اس مرض سے بچا سکتے ہیں۔ٹی وی ، ریڈیواور اخبارکے ذریعے سے عوام الناس میں شعورپیدا کرنے سے بھی اس مر ض میں کافی کمی واقع ہو سکتی ہے۔پاکستان میں مختلف شہروں میں کینسر کے علاج کے لیے ہسپتال بنائے گئے ہیں لیکن جس تیزی کے ساتھ یہ مرض بڑھ رہا ہے اس سلسلے میں مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔کیونکہ بد قسمتی سے اس مرض کاعلاج مہنگا ہے۔کینسر کے علاج میں سرکاری اور غیر سرکاری ہسپتال اپنا اپنا کردار نبھا رہے ہیں۔ملتان میں اس حوالے سے مینار کینسر ہسپتال اور نشتر ہسپتال ملتا ن کا آنکولوجی وارڈ یہ خدمات سر انجام
دے رہے ہیں اور بہاولپورمیں BINOہسپتال اور وکٹوریہ ہسپتال کا شعبہ سرطان اس حوالے سے کام کر رہے ہیں۔لیکن جس تیزی کے ساتھ جنوبی پنجاب میں کینسر کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے یہ سہولیات ناکافی ہیں۔اس لیے سرکاری اور غیر سرکاری تنظیموں کا کینسر کے علاج اور روک تھام کے لیے عملی میدان میں آنا ضروری ہے۔آئیے ہم آج خود سے یہ وعدہ کرتے ہیں کہ ہم سب لوگ مِل کر کینسر کی روک تھام لیے کام کریں گے،ورنہ اعدادوشمارہمیں یہ بتاتے ہیںکہ آئندہ 25سالوں میں دنیا بھر میں کینسر کے مریضوں کی تعداد سب سے زیادہ ہو گی۔
فیس بک کمینٹ