ڈاکٹر عباس برمانیلکھاریمزاح

جواب آں تنقید : استاد اللہ بخش زخمی/عباس برمانی

چودھری عبدالغفور آف کانا کاچھا سابق ڈرائنگ ماسٹر نے جو ان دنوں بسلسلہ روزگار طائف میں مقیم ہیں اور وہاں ایک سکول کی کینٹین پہ ویٹر ہیں ، نقاد جھانسوی کے قلمی نام سے عوام الناس کو نقاد ہونے کا جھانسہ دینے کی ناکام کوشش کی ہے۔ آپ ویٹر ہوں یا سویپر اس میں کوئی عیب نہیں ، ٹھیک ہے رزق حلال اور سعودی ریال کمائیے لیکن ادبی داعشی مت بنیے، تنقید لکھنا بھی گناہ نہیں لیکن قدیم اہل طائف کی طرح بدزبانی اور سنگ زنی مت کیجیے۔
جھانسوی صاحب نے اپنے تنقیصی اور تضحیکی مضمون کا آغاز شیکسپیئر اور فرائیڈ کے من گھڑت اقوال سے کیا ہے، میں چیلنج کرتا ہوں کہ وہ ان اقوال کو درست ثابت کریں میں خود ناول ردی میں فروخت کر کے بچوں کو برگر کھلا دوں گا۔
فاضل نقاد نے ، یہاں میں فاضل سے مراد عالم فاضل نہیں فالتو لے رہا ہوں جیسے کہتے ہیں فاضل پرزے، صرف شیکسپیئر اور فرائیڈ آشنائی کا فراڈ ہی نہیں کیا اور بھی من گھڑت نام اور جعلی اقوال لکھ کر اپنے مغربی ادب کے ماہر ہونے کا جھانسہ دیا ہے ۔
ان کے ایک سابق کولیگ گورنمنٹ مڈل سکول کانا کاچھا کے سینئر انگلش ٹیچر چودھری محمد بوٹا شیلی جو انگریزی کے ایک اچھے شاعر بھی ہیں ، بتاتے ہیں کہ مغرب سے ان کا بس اتنا تعلق ہے کہ کبھی کبھار مغرب کی طرف منہ کر کے نماز پڑھ لیتے تھے ،اور ادب سے کیا واسطہ ہو گا کہ بچپن سے ادھیڑ عمر تک جانے مانے بے ادب رہے ہیں۔جہاں تک میرے ناول کا تعلق ہے ، چار سو صفحات میں سے سو صفحات معروف ادیبوں، نقادوں، کتاب دوستوں کی آراء پر مشتمل ہیں ۔ نقاد صاحب نے ان کا حوالہ نہ دے کر ایک سنگین ادبی بددیانتی کا ارتکاب کیا ہے ۔ انہوں نے ناول کے پلاٹ پر زبان طعن دراز کرتے ہوئے مجھے رہائشی پلاٹوں کی دلالی کا مشورہ دیا ہے، وہ اس امر سے نابلد ہیں کہ میں گزشتہ چوتھائی صدی سے پلاٹ فروخت کر رہا ہوں، ناولوں کے پلاٹ، وطن عزیز ہی نہیں بیرون ملک سے بھی بڑے بڑے ناول نگار مجھ سے پلاٹ خریدتے ہیں، تجارتی اخلاقیات کے پیش نظر میں ان کے اسمائے گرامی ظاہر نہیں کر رہا۔
انہوں نے میرے ناول کے کرداروں کو لعنتی کردار قرار دیا ہے، آپ کانا کاچھا مڈل سکول کے اساتذہ کرام بلکہ عام شہریوں کے سامنے ان ذات شریف کا نام لیں ،تو اسی فیصد لوگ اپنے جواب کا آغاز ہی اچھا وہ لعنتی کردار کہہ کے کرتے ہیں ۔۔۔۔ جھانسوی صاحب چلیں یہی بتا دیں کہ آپ اپنا گاؤ ں چھوڑ کے سعودیہ کیوں بھاگے ہوئے ہیں ۔
میرے ناول کے کرداروں کو مضبوط نہ کہنے والے کا اپنا کردار نہ صرف مضبوط نہیں بلکہ انتہائی مشکوک بھی ہے ، ان کے سابق ہیڈماسٹر تو ان کی ولدیت کے بارے میں بھی یہی کہتے ہیں ۔۔ خیر ہمیں اس سے کیا۔۔
انہوں نے میرے ناول کے انجام کا بھی ٹھٹھہ اڑایا ہے ، اپنے انجام کی فکر کیجئے جھانسوی صاحب، آخرکار آپ نے سعودیہ سے واپس آنا ہے ، کانا کاچھا کے لوگوں کو آپ نے جس قسم کے جھانسے دیے تھے اور جو جو فراڈ کیے تھے اور سکول میں جن جن بدکرداریوں کے مرتکب ہوئے تھے یہاں آپ کا انجام بالخیر ہرگز نہیں ہو سکتا، دعا کیجیے کہ آپ کے جسد خاکی کو طائف کی خاک ہی قبول کر لے۔۔
میرے پیارے قارئین کے ذہنوں میں یہ سوال ضرور اٹھ رہے ہوں گے کہ میں نے تنقید کا تکنیکی جواب نہیں دیا ،نقاد کی ذات تک محدود رہا ہوں۔۔۔ بالکل درست، میں نے یہ دانستہ کیا ہے، اس بدذات کی بدکرداریاں سامنے لانا اشد ضروری تھا، تاکہ آپ پر واضح ہو جائے کہ ایسا لعنتی کردار ، تنقید جیسے مقدس عمل کو انجام دینے کے لیے سرے سے ہی نااہل ہے۔
اب آتے ہیں ناول کی طرف، اپنے دہی کو کوئی کھٹا نہیں کہتا اور اپنے منہ میاں مٹھو نہیں بننا چاہئے ، چند بڑے لوگوں کی آراء پڑھ لیجئے، سب عاقل و بالغ اور حقیقتاً بڑے ہیں، ان میں سے کسی کی بھی عمر ساٹھ سال سے کم نہیں۔۔۔ یہ گراں قدر آراء پیش لفظوں اور دیباچوں کی صورت میں پورے ایک سو صفحات پر بکھری ہوئی ہیں ، اور انہیں پڑھنے کے لئے آپ کو محض چھ سو پچاس روپے خرچ کرنا ہوں گے ، ان قیمتی آراء کے ساتھ آپ کو تین سو صفحات کی ایک دلچسپ، کھٹ مٹھی ، چٹپٹی ، رومانی اور ایکشن و سسپنس سے بھری کہانی بونس میں پڑھنے کو ملے گی، اس میں وہ سب کچھ ہے جو آپ پڑھنا چاہتے ہیں، ساڑھے چھ سو کیا ہے ، بقول جھانسوی ایک عدد سستا میکڈونلڈ پیکج۔۔۔۔۔ سو پیارے قارئین کولسٹرول مت بڑھائیے معلومات بڑھائیے مسرت و لذت بڑھائیے۔۔۔۔ کھودا پہاڑ پڑھیے۔۔

فیس بک کمینٹ

متعلقہ تحریریں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Adblock Detected

Please consider supporting us by disabling your ad blocker