عورت کون ہے ؟ کیا ہے ؟ ایک حقیقت ہے یا صرف کہانی ؟ مرد کے ساتھ اس کا رشتہ صرف ضرورت کی بنیاد پر ہے یا اس رشتے میں کوئی خلوص اور اعتبار نام کی چیز بھی موجود ہے ؟
کیا عورت صرف اُس کی آسائش اور دل بہلانے کے ہی پیدا کی گئی ؟ اُس روح کی کیا حیثیت ہے جو عورت کے وجود میں بستی ہے ؟ کیا میاں بیوی بس جسمانی رشتے کا نام ہے ؟ لیکن میرے یہ سوال۔۔۔ سوال ہی رہیں گے میں جانتی ہوں۔میں سوال ہی کر سکتی ہوں ۔۔ سوال کرنے والے کا اختیار جواب پر نہیں ہوتا ۔ وہ صرف سوال کر سکتا ہے ۔ اور تسلی دینے کے سوا میں اور کچھ بھی تو نہیں کر سکتی ۔۔ یہ بہ ظاہر مہذب معاشرہ بھلا کہاں اجازت دیتا ہے کہ عورت چاہے وہ کتنی ہی پڑھ لکھ جائے ۔ مرد سے سوال کرے ۔ عورت صرف جوابدہ ہوتی ہے ۔
بس دُعا ہے ۔ اللہ تعالٰی سے کہ انسان کو انسانیت پر قائم رکھنے والا بنا دے اور ایسا بنا دے کہ ثمینہ جیسی عورتیں زندہ درگور نہ ہوں ۔ جب تک سانسیں باقی ہیں وہ زندگی کی دوڑ میں شامل رہیں۔۔ کئی عورتیں حسرت سے زندگی کو اپنے سامنے بھاگتے دوڑتے دیکھتی ہیں لیکن خود تنہا رہ جاتی ہیں یہاں تک کہ موت آکر اُنہیں اپنے ساتھ لے جاتی ہے اور پھر ان کی تنہائی ابدی ہو جاتی ہے ۔ ثمینہ بھی ایسے ہی لمحے کی منتظر ہے ۔
دیکھا جائے تو عملی طور پر میں بھی ان عورتوں کو تسلی دینے کے سوا اور کیا کر سکتی ہوں اُن کا ہاتھ تھام کر تسلی کے دو بول ۔۔ بس یہی دے سکتی ہوں میں ۔۔ آپ تک اگر میری زندگی کے تلخ تجربوں سے بھری یہ چھوٹی چھوٹی سی کہانیاں پہنچ جائیں تو شاید کہیں بات پہنچ جائے ۔ شاید انہیں پڑھ کر کوئی اپنی سوچ تبدیل کر لے ۔یہی فیصلہ کیا ہے میں نے شاید میرے چند لفظ ثمینہ جیسی کسی عورت کا نصیب بدل دیں۔۔ شاید ۔۔۔
َ” میرے شوہر نے مجھے چھوڑ دیا ہے “۔ وہ کہتا ہے کہ اب وہ میرا ساتھ نہیں دے سکتا‘‘
میں نے حیرت سے اُس عورت کی آنکھوں میں جھانکا اور پوچھا” کیوں “ ؟
وہ سرد سے لہجے میں بولی ”میں اب اُس کے قابل کہاں ؟“
میں نے پھر پوچھا ”ایسا کیا ہوا ؟
وہ بولی ” ڈاکٹر صاحبہ ! اب میں کینسر کی مریضہ دن بدن موت کے قریب جا رہی ہوں میں اُس کی زندگی کو کینسر کی طرح کھائے جا رہی ہوں اُس کا وقت ،اُس کا پیسہ ضائع کر رہی ہوں ، اُس کی دل لگی کا سامان کیسے کروں ؟ وہ جیت کا رسیا اور میں خود ہار رہی ہوں‘‘
یہ بات چیت میرے اور ثمینہ کے درمیان جاری تھی میں آؤٹ ڈور میں روز کی طرح مصروف تھی جب ثمینہ کا نام لے کر میرے معاون نے ایک مریضہ کو میرے پاس بھیج دیا ۔ اُسے چھاتی کا کینسر تھا آخری سٹیج کا کینسر ۔۔ محض 30سال کی عمر میں وہ یہ سب برداشت کر رہی تھی ۔ علاج کی مشکلات ،مالی مسائل ۔۔ اور بے وفائی کا دکھ ۔۔ اُس کی آنکھوں کی چمک ختم ہو چکی تھی ، شادی کو محض 3 سال گزرے تھے اور اب اُس کا شوہر اُسے چھوڑ گیا تھا ۔میں روز ایسی کہانیاں سنتی اور دیکھتی ہوں روز کسی نہ کسی مریض کی آنکھیں پڑھ کر رشتوں کی سفاکی میری روح کو زخمی کرتی ہے ۔۔ ہم جو ایک اسلامی معاشرے میں رہتے ہیں ایک ایسا اسلامی معاشرہ جسے سب لوگ اپنے اپنے طریقے سے سدھارنے اور بنانے کی کوششوں میں ہیں لیکن ہم سب جو معاشرے کو سدھارنے کا دعویٰ کرتے ہیں بس خود کو نہیںسدھارتے ۔
ثمینہ کی کہانی بھی ایسی ہی ایک کہانی تھی ۔ نہ وہ اپنے میکے جا سکتی تھی اور نہ ہی شوہر کے گھر ۔ وہ جائے تو کہاں جائے امان پائے تو کہاں پائے ۔ میں نے اُس کو حوصلہ دیا اور اُس کا ہاتھ تھام کر کہا ” کوئی بات نہیں ثمینہ آپ پریشان نہ ہوں اللہ ہے نا آپ کے ساتھ وہ بہتری کرے گا “۔
اچانک میرے ذہن میں سوال آیا ’’ثمینہ !آپ کے کتنے بچے ہیں؟ وہ بولی ” ایک بیٹا ۔دو سال کا ہے ۔۔ شوہر کہتا ہے کہ وہ اُسے بھی لے جائے گا ۔ بس کچھ ہی دنوں میں اُس کی دوسری شادی ہے ‘‘۔ اُس کی آنکھوں میں بےچارگی تھی اور میں اُس کا ہاتھ تھامے سوچ رہی تھی ۔ ہمارے معاشرے کا مرد کس قدر خودغرض ہو چُکا ہے ۔۔ ’’کیا سبھی مرد ایسے ہی سفاک ہوتے ہیں؟‘‘
’’ہاں ایسے ہی ہوتے ہیں‘‘
ثمینہ کے اس سوال کا میں نفی میں جواب دینا چاہتی تھی لیکن میں نے اس کی تائید کر کے اسے مزید اذیت سے بچا لیا ۔۔ مسیحا جو ہوں ۔