موت کی بساط پر چُنے ہوئے زندگی کے مہرے وقت کی چال کے ہاتھوں ایسے بے بس کہ اچھا خاصا کھیل جاری ہوتا ہے اور آنکھ جھپکتے کوئی ایسے گرتا ہے کہ پھر اس کا خیال ہی باقی رہ جاتا ہے۔ موت مختلف ناموں اور حوالوں سے وجود میں داخل ہوتی ہے۔ کبھی برسوں زہر کا ناگ اندر چوکڑی مارے سویا رہتا ہے۔ دنیا جہان کی خبر رکھنے والا اشرف المخلوقات اپنے ہی وجود کے اندر موجود اس موذی سے بے خبر اچھی صحت پر نازاں پھرتا ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ انسان کا وجود بھی ایک درخت کی طرح ہے جس پر کئی موسم آتے جاتے ہیں۔ کچھ درخت ہر طرح کی دیکھ بھال کے باوجود آکاس بیل کی جکڑ میں آکر زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اور کچھ جو بظاہر ہرے بھرے نظر آتے ہیں ان کے اندر بھی کہیں نہ کہیں دیمک کے امکانات موجود ہوتے ہیں۔ یہ دیمک دکھ سے جنم لیتی ہے۔ ہم سب کا کسی نہ کسی حوالے سے اس دیمک سے واسطہ پڑتا رہتا ہے۔ اگر ہم ذاتی طور پر خوش بھی ہوں تو معاشرتی اور سماجی جبر اس دیمک کو پیدا کرنے میں کردار ادا کرتے ہیں۔ موت کے مختلف نام ہیں۔ کینسر بھی موت کی ہی ایک قسم ہے جس کے تصور سے ہی اذیت محسوس ہونے لگتی ہے۔ مدیحہ گوہر کو تین سال پہلے یہ بیماری لاحق ہوئی لیکن اندر کھاتے نہ جانے کب سے اسے مختلف سوالات دیمک کی طرح چاٹ رہے تھے۔ وہ جس طرح زندگی کو سوچتی تھی اور جیسی زندگی اسے نظر آتی تھی اور جن مقامات پر وہ اپنی ہزار کاوشوں سے ناکام رہتی تھی وہ سب مل کر کینسر کی شکل دھار رہے تھے۔ نظریاتی انسان جب ظاہری تگ و دو سے حالات پر قابو نہ پا سکے تو اس کا ظاہر مضبوط نظر آتا ہے مگر اندر کچھ ضرور ٹوٹتا رہتا ہے۔ اتنی توانا، زندگی کی خوبصورتیوں سے مالا مال، کمٹمنٹ سے مشکلات کو سہل کرنے والی، منافقت، لگی لپٹی اور بناوٹ سے بالکل پاک صاف اور اُجلی مدیحہ گوہر سے پہلی ہی ملاقات میں میری دوستی ہو گئی۔ ہر وقت ایک دلفریب مسکراہٹ اس کے چہرے پر کھیلتی رہتی تھی۔ اس کی مسکراہٹ میں ایک مثبت طاقت دکھائی دیتی تھی جس میں نہ ہارنے کا عزم نمایاں ہوتا تھا۔ زندگی سے بھری ہوئی مدیحہ محبت اور ناپسندیدگی میں شدت کی قائل تھی۔ درمیانہ راستہ اور سمجھوتہ اس کی ڈکشنری میں موجود نہ تھا۔ ٹیلیوژن پر ایک دور میں اسکے ڈراموں کی دھوم تھی۔ اداکاری تو وہ کر ہی نہیں سکتی تھی۔ احساسات کو مکمل طور پر خود میں جذب کر کے حقیقت نگاری کرتی تھی اسی لئے بھلی لگتی تھی۔ پھر اس نے معاشرے میں پھیلے ناسوروں کے خلاف جدوجہد شروع کی۔ خوش قسمتی سے اسے شاہد محمود ندیم جیسا جیون ساتھی ملا جو وژنری، لبرل، دانشور اور دھیمے مزاج کا خوبصورت انسان ہے۔ دونوں کی خوب نِبھی۔ سماجی انصاف، آزادی اظہارِ رائے اور انسانی قدروں کی سربلندی کا مینی فیسٹو لے کر دونوں نے اجو کا تھیٹر کا آغاز کیا۔ یہ لوگ دور دراز گاؤں میں جا کر اسٹریٹ تھیٹر کرتے تھے اور لوگوں کو ان کے حقوق کے حوالے سے شعور اُجاگر کرتے تھے۔ اس کیساتھ ساتھ اسٹیج پر بھی پرفارمنس کا سلسلہ جاری رہا۔ سماجی، سیاسی اور معاشرتی برائیوں، طبقاتی اونچ نیچ اور زمانے کے جبر کو انہوں نے مختلف ڈراموں کے ذریعے بیان کرنا اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا۔ اجوکا کی تخلیق ’’بلّھا‘‘ سے زیادہ شاید ہی بلّھے شاہ کی شخصیت، شاعری اور عہد کے مظالم کی عکاسی ہو سکے۔ داراشکوہ اور کتنے کردار جو خود سوال بن گئے کے جواب زمانے کے دریچے سے شاہد ندیم نے ڈھونڈے اور مدیحہ نے انہیں اسٹیج کیا۔ یہ لوگ ملکوں ملکوں پھرتے رہتے تھے۔ ہندوستان، یورپ، امریکہ ہر جگہ پذیرائی انکا نصیب بنی۔
مدیحہ کی فکر کا محور انسان کی سماجی، معاشی آزادی اور طبقاتی تقسیم کا خاتمہ تھا۔ وہ صوفیوں کے نظریے کے مطابق کائنات کو ڈھالنے کا جتن کرتی رہی۔ ایک جرأت مند عورت جو تمام عمر اپنے نظریات پر قائم رہی بلکہ ان کا دفاع بھی کیا زمانے سے، زمانے کی رسموں سے، طاقتوروں سے اور تقسیم کرنے والوں سے لڑتی رہی۔ ضیاء الحق کے لاگو کردہ حدود آرڈیننس کے خلاف بھرپور احتجاج کیا اور مال روڈ کے اس احتجاج میں بری طرح زخمی بھی ہوئی۔ خواتین کے حقوق کے لئے ریلیوں میں شریک ہوئی، لاٹھیاں کھائیں، زخم سہے مگر رستہ نہ بدلا۔ کینسر سے بھی کئی سالوں سے لڑ رہی تھی۔ ایک دفعہ تو دوبارہ جی اٹھی تھی۔ کیموکی اذیت بھی اس کے چہرے کی مسکراہٹ پر اثرانداز نہ ہو سکی۔ نومبر میں فیض میلے پر اس سے آخری ملاقات ہوئی۔ بھلی چنگی لگ رہی تھی مگر کچھ دنوں بعد بیماری نے پھر حملہ کر دیا۔ اعلیٰ علاج معالجے اور دیکھ بھال کے باوجود نڈھال ہوتی گئی۔ کیسی ڈائن بیماری تھی ایسی چمٹی کہ اس کی تمام قوت ارادی اور حوصلے کو کھا گئی۔ دُکھ تو اس بات کا ہے کہ وہ کئی دن لمحہ لمحہ تھوڑا تھوڑا مرتی رہی۔ ہر گھڑی درد جھیلتی رہی۔ شاہد ندیم کی محبت اور رفاقت اس کی ڈھال تھی مگر یہاں وہ بے بس ہو گئے۔ شاید سفر ختم ہو گیا تھا۔ وجود کی میعاد پوری ہو چکی تھی۔ اب اسے مٹی کا رزق بننا تھا۔ اس کے جنازے پر ایک جہان سوگوار موجود تھا۔ وہی صحن جہاں ہم نے کئی بار مختلف تقریبات میں شرکت کی تھی، اس کے ہاتھ کے بنے ہوئے کھانے کھائے تھے، اس کے بہترین انتظامات پر داد دی تھی، اس کا گھر ایک عجائب خانہ ہے۔ دنیا جہان کے نوادرات سے بھرا ہوا، کمروں سے گزرتے ہوئے ہمیشہ ڈرتی رہتی تھی کہیں کسی چیز سے ٹکرا کر کچھ ٹوٹ نہ جائے مگر وہ سب چیزیں اس دن بھی سلامت پڑی تھیں جب انہیں سجانے والی ٹوٹ چکی تھی۔ پچھلے دنوں شاہد صاحب سے ملاقات میں اس کی بیماری کی شدت کی اطلاع ملی۔ نیلم احمد بشیر سے کہا چلو چلتے ہیں مگر دل نے اجازت ہی نہ دی۔ بیمار، بے رونق مدیحہ گوہر دیکھنے کا حوصلہ ہی نہ تھا۔ یادوں میں اس کا مسکراتا چہرہ رکھنا چاہتی تھی مگر جب اس کا جنازہ اٹھانے لگے تو میں بھاگتی ہوئی اس کے پاس گئی اور شاہد صاحب سے آخری دیدار کی درخواست کی مگر وہاں میری دوست مدیحہ نظر ہی نہیں آ رہی تھی کیوں کہ اس کا چہرہ تو مسکراہٹ کی تجسیم تھا۔ میرے دل نے چیخ کر کہا مدیحہ مسکراؤمگر کوئی جواب نہ آیا۔ بھلا مٹی بھی کبھی بولتی ہے۔ میں حیرانی سے اسے اور مجمع کو دیکھ رہی تھی۔ سب اس کے دوست تھے اور سب ہی سوگوار تھے۔ وہیں WAF (وومن ایکشن فورم) کی خواتین بھی بڑی تعداد میں موجود تھیں۔ ایسی دبنگ آواز کا کھو جانا صرف اجوکا، شاہد ندیم، اس کے بچوں اور دوستوں کا نہیں بلکہ یہ پورے معاشرے کا اجتماعی نقصان ہے۔ ایک گھٹن زدہ سماج میں اپنی آواز کی گرج سے سناٹوں کو چیرنے والی اور وقت کے جابروں کے سامنے ڈٹ جانے والی مدیحہ گوہر کے مشن کو زندہ رکھنا ضروری ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ