زندگی اتنی ٹیڑھی تو نہیں۔ اگر منزل کا تعین کر لیا جائے تو راستے بنتے چلے جاتے ہیں، نشانیاں ظاہر ہونے لگتی ہیں اور کڑیاں ملنی شروع ہو جاتی ہیں۔ قدم ازخود اس سمت بڑھنے لگتے ہیں اور ایک دن سفر مکمل ہو جاتا ہے۔ اصل مرحلہ فیصلہ سازی ہے۔ اپنے رجحانات کو دیکھتے ہوئے اپنی ذات پر ضابطہ لاگو کرنا اور پھر پوری زندگی اس کی روشنی میں آگے بڑھتے رہنا۔ صرف ایک بار وقت کا بچھایا جال ہٹانے کے لئے پوری قوت صرف کرنی پڑتی ہے۔ زندگی کے رستے پر پڑے زہر کے پیالے سے ایک کڑوا گھونٹ بھر کر جھوٹ کو پھانسی دینی پڑتی ہے پھر سقراطی دانش اور روحانی قوت انگلی پکڑ لیتے ہیں، گرنے دیتے ہیں نہ حوصلہ ہارنے۔ انسان لامحدود ہوتا جاتا ہے۔ اس کے اردگرد پھیلے مختلف دائرے اپنا وجود کھونے لگتے ہیں۔ قطرہ اور سمندر ایک ہو کر ناقابل شکست شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ انسان کے اندر طاقت کے کئی ذخیرے آباد ہیں۔ یہ طاقت جسم سے زیادہ ارادے اور فکر میں پوشیدہ ہوتی ہے۔ اگر یہ متحرک ہو جائے تو انسان پوری دنیا کا سامنا کرنے کو تیار ہو جاتا ہے۔ ہر قسم کا خوف اور لالچ ملیامیٹ ہو جاتے ہیں۔
آج دنیا جسے ایک عظیم وکیل اور انسانی حقوق کی علمبردار کے طور پر خراج تحسین پیش کر رہی ہے ایک دن وہ بھی ایک عام لڑکی کی طرح اپنے باپ کی وکالت کے لئے التجائیں کرتی اور دُہائیاں دیتی پھر رہی تھی۔ لوگ اس کے درد سے آشنا ضرور تھے مگر مداوا کرنے کو تیار نہ تھے اس لئے اس کی بات سُنی ان سُنی کر کے اس کے دکھ کو بڑھاتے جا رہے تھے۔ وہ چیخ چیخ کر ان کی توجہ کو آواز دیتی رہی مگر سننے والے بہرے بن کر نظر انداز کرتے رہے۔ وہ سب کمزور لوگ تھے جنہیں جان اور مفادات کا خوف لاحق تھا۔ ان کے لئے ضابطہ اور زندگی الگ الگ خانوں میں بٹے ہوئے تھے۔ ان کمزور لوگوں کو پکارتے پکارتے اس کی آواز رندھ گئی تو اس لمحے نے اسے طاقتور بننے کا اشارہ دیا۔ کسی کے پیچھے چلنے اور مدد مانگنے کی بجائے خود قافلے کی رہنمائی کا خیال اس کے دل میں جگمگایا۔ اُس نے طے کر لیا کہ وہ لڑے گی یہ سوچے بغیر کہ مقابل کتنا طاقتور اور بڑا ہے، سر اٹھا کر چلے گی یہ پرواہ کئے بغیر کہ زمانہ اس کے اس روئیے کو کیا نام دیتا ہے، اپنی مرضی سے جئے گی اور اپنی ذات کے حوالے سے ہر فیصلے کا اختیار اپنے ہاتھ میں رکھے گی، انسانیت کی بقا کے لئے ہر طاقت کو للکارے گی۔ وہ قانون کی طالب علم تھی لیکن اس نے اپنے مدعی کو جتوانے کے داؤ پیچ سیکھنے کی بجائے ان اصولوں کی روح سے آشنائی پیدا کی جو مخلوق کی بھلائی سے جڑے تھے۔ خود سے عہد کرتے ہی اس نے ضابطے کی آہنی وردی پہنی جس پر موسم کی گرمی سردی اور رویوں کی تلخی کبھی اثر انداز نہ ہو۔ باہر پھیلے استحصال کے نظام کے خلاف نفرت کو یکجا کر کے وہ چٹان بن گئی۔ نڈر، دلیر اور بے خوف ہر محاذ پر ڈٹی اور جمی رہنے والی، بھلا چٹان کب سمجھوتہ کرتی ہے یا لہروں کو راستہ دیتی ہے آخر سیلاب کو ہی رُخ بدلنا پڑتا ہے۔ ایسے مواقع پر جب کوئی سرگوشی کرنے اور لب ہلانے کی جرأت نہ کر سکے اس کی گرج دار آواز سناٹوں کو چیرتی سنائی دیتی تھی۔ لگی لپٹی رکھنا اس کے مزاج نے سیکھا ہی نہیں تھا۔ علامتوں میں بات کرنے کی بجائے ہدف کو نشانہ بنانا اسے خوب آتا تھا۔ مظلوموں، کمزوروں، بے آسرا لوگوں کی مدد کے لئے اس نے وقت کے جابروں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنی خفگی کا اظہار کیا۔ اتنا ضبط، اتنا حوصلہ، اتنی جرأت کہ چاروں طرف سے ہونے والی سنگساری پر وہ بے نیازی کہ مخالفین سر پٹک کر رہ جائیں۔ اسے فرصت ہی کب تھی؟ اتنے کیس، اتنی محرومیاں، اتنی زیادتیاں، اتنی بے انصافی ہر پل اُسے آواز دیتے تھے۔ دولت والے اُس کے پیچھے اور وہ مظلوموں کے در پر حوصلے اور ساتھ کی پیشکش لئے موجود۔ کہیں کوئی مایوس نہ ہو جائے، اکیلا نہ پڑ جائے، ہر طبقۂ فکر کے لوگوں کے لئے لڑنے والی کو جہاں لاکھوں دعاؤں اور نیک تمناؤں کے تحائف ملے وہیں انہی طبقات کے ظالم کی طرف کھڑے کرداروں کی خطرناک کردار کشی بھی سہنی پڑی۔ مگر کوئی بھی حربہ اُس کے چٹانی حوصلوں کو مات نہ دے سکا۔ اُسے خوف کے قلعے میں محصور ہونے پر مجبور نہ کر سکا، اُس کے مقصد سے ہٹا کر سمجھوتے پر قائل نہ کیا جا سکا۔ وہ سب کی دوست تھی مگر کوئی اپنائیت اُسے ضابطے کی خلاف ورزی پر مائل نہ کر سکی۔ یہ شعر اُسی پر صادق آتا ہے۔
اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں بیگانے بھی ناخوش
میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند
اُس نے دنیا گھومی، کھنگالی اور پرکھی، سینکڑوں لائبریریوں کو ذہن میں نقش کیا، لاکھوں چہروں کو پڑھا مگر جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ کہنے کا سلیقہ نہ سیکھ سکی۔ وہ جمہوریت کو اس لئے پسند کرتی تھی کہ اس سے جمہور اور قانون کی بالادستی جڑی تھی اور جب جب کسی جمہوری حکومت نے انسانی حقوق کو پامال کیا وہ ان کے خلاف صف آراء ہوئی۔ دوستی کا لحاظ کیا نہ کسی عہدے سے مرعوب ہوئی۔ جو سچ تھا وہ کہا اور ڈنکے کی چوٹ پر کہا۔ عجیب عورت تھی اس کا کوئی ایجنڈا ہی نہیں تھا، نہ کسی کو شکست دینا مقصود تھا اور نہ کسی پر غالب آنا۔ ایک وقت میں جس کے حق میں کھڑی تھی کسی اور وقت اس کے خلاف آواز بلند کر رہی تھی۔ آج کمٹمنٹ سے جڑے بے شمار لوگ ہمارے اس جہان میں موجود ہیں مگر عاصمہ جہانگیر جیسی کوئی ایک ہستی کہ جس کی پوری زندگی جرح اور احتجاج کرتے گزری ہو، وہ ہر لمحہ وقت کی عدالت میں مقدمے کی فائل لئے دلائل دیتی رہی، اس نے وقت کی لاٹھیاں سہیں مگر ہاتھ سے انسانیت کا پرچم نہ گرنے دیا۔ اس کا حوصلہ مضبوط تھا مگر معاشرے میں پھیلے ظلم پر ہر لمحہ تڑپتا دل اور فکر مند ذہن اندر ہی اندر اسے نڈھال کرتا رہا۔ آج ایک دنیا اس کے لئے سوگوار ہے۔ انسان کو انسان کا رتبہ دلانے کی خواہش میں زندگی کو وقف کرنے والی چلی گئی مگر پاکستانی عورتوں کو ایک سبق اور عزم دے گئی کہ اگر مقصد سے لگن سچی ہو تو کوئی رکاوٹ حوصلے مسمار نہیں کر سکتی۔ آئیے اُس کے مشن کو زندہ رکھنے کا عہد کریں۔ معاشرے میں پھیلے استحصال کے خلاف آواز بلند کرنے اور انسانی حقوق کی علمبرداری کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔ عاصمہ جہانگیر کوئی فرشتہ تھی نہ دیوی مگر اُس نے اس طرح زندگی بسر کی جو انسانیت کا امتیاز ہے۔ اگر ہر محکمے میں سو لوگ بھی ایسے موجود ہوں تو دنیا میں انقلاب آ جائے۔ کتنی خوش قسمت تھی آخری لمحے تک ڈیوٹی پر کھڑی رہی۔ مجھے اُمید ہے آج بھی وہ سفید سوٹ پہنے بڑی عدالت میں فریاد کر رہی ہو گی کیوں کہ ابھی کئی مقدمے اس کی فائلوں میں موجود تھے۔
فیس بک کمینٹ