دنیا میں بہت سے عظیم ادارے صدیوں سے وقت کی ضروریات کے مطابق تربیت کا اہتمام کر رہے ہیں مگر آج ہم جس درسگاہ کی بات کر رہے ہیں اس کی شروعات ایک صحرائی، بنجر اور بے آباد سرزمین میں کی گئی۔ نہ پاؤں تلے قالین نہ سر پر کوئی چھت اور نہ ہی کوئی اور سہولت اور آسانی میسر مگر مقصد، سبق اور نتیجہ اتنا عظیم کہ رہتی دنیا تک مثال بن گیا۔ یوں کربلا ایک ایسی درسگاہ کے طور پر سامنے آتی ہے جس کا دائرہ کار پوری دنیا تک محیط ہے۔ یہ درسگاہ ایک ایسی دستک ہے جو ہر مذہب کے ماننے والے کا دل محسوس کرتا ہے کیونکہ اس کا نصاب آفاقی سچائیوں اور عالمی قدروں پر مشتمل ہے اس لیے یہ کسی عقیدے اور تفریق کی چار دیواری میں مقید نہیں بلکہ زمین و آسمان کی فضاؤں میں خوشبو کی طرح رچی زندگی کو جواز فراہم کرتی ہے۔
اس درسگاہ میں پوری دنیا کیلئے عزم و استقلال، صبر، دلیری اور انسانی زندگی کو اُجالنے والا ضابطہ عملی طور پر تشکیل دیا گیا۔ حق و باطل کے حوالے سے انسان کی ترجیحات متعین ہوئیں۔ عشق کے فلسفے کی تشریح ہوئی، سچا عاشق کس طرح ریاضتوں کی بچھائی سرنگوں، آہنی رکاوٹوں اور کانٹوں بھرے راستوں پر اُف کئے بغیر سرخرو ہونے تک سفر جاری رکھتا ہے۔
ذات کی نفی کے کئی مرحلے ہوتے ہیں۔ ہمارا کلمہ جو ہمارے ایمان کی بنیاد ہے وہ ’’لا‘‘ سے شروع ہوتا ہے یعنی نہ، نفی، ہر شے کا حتیٰ کہ اپنی ذات کا بھی انکار کرنے کے بعد ربّ جو کائنات کا خالق ہے اور اس کے پیارے حبیب ﷺ جو وجہ تخلیق کائنات ہیں کا اقرار ہے۔ زندگی، دنیا اور آخرت کا فلسفہ اسی کلمے میں پوشیدہ ہے۔ یہی نور کا سلسلہ ہے جو دلوں، روحوں اور وجود کے اندھیروں کو اُجال کر انسان کو اس کے مقصد یعنی ربّ کی رضا اور ربّ کی مخلوق سے جوڑتا ہے۔
ربّ کو اپنے بندے کی محبت، نیاز مندی اور عشق پسند ہے۔ عشق جو علم اور عبادت سے اگلی منزل کا نام ہے۔ عبادت جب عشق کا روپ دھار لیتی ہے تو پھر من و تو کا فاصلہ مٹ جاتا ہے۔ یہ کمال کی منزل ہے، انسانی روح کی لطافت اور سرشاری کا مقام ہے اس لئے صوفیاء اس منزل کے حصول کیلئے کٹھن ریاضتیں کرتے ہیں۔ صوفی وحدت الوجود کا قائل ہے اور یہ سبق کربلا کی درسگاہ نے اس کے دل کی ریل پر رکھا ہے جسے وہ اپنی باطنی آنکھ سے ہر لمحہ پڑھتا اور ازبر کرتا رہتا ہے۔ یوںاس کا ہر لمحہ وجد، وِرد اور تسبیح میں ڈھل جاتا ہے۔ اس کے اندر باہر، آس پاس، نظر کے سامنے، نظر سے اوجھل، خیال کے پروں پر، ذہن کی سلیٹ پر، دل کے دریا میں ہر جگہ ایک ہستی یوں براجمان ہو جاتی ہے کہ نور کا ہالہ اسے گھیرے میں لئے رکھتا ہے۔
صوفی ایک ہستی کو اپنی منشا و مقصود بنانے کا عملی سبق حضرت امام حسین ؓکی زندگی کے کربلا میں قیام کے دنوں سے اخذ کرتا ہے۔ تاریخ انسانی میں حضرت امام حسینؓ کے عشق لازوال جیسی کوئی دوسری مثال موجود نہیں۔ اپنی ذات کی قربانی دینا، اپنی ذات کی حد تک دکھ درد جھیلنا اور مشکلات کا سامنا کرنا الگ بات ہے۔ دنیا میں بہت سے بڑے لوگوں نے مقصد کے حصول میں کڑی مشکلات کا سامنا کیا، سقراط کی طرح زہر کا پیالہ پی کر امر ہونا زیادہ کٹھن نہیں لیکن ہر لمحہ اپنے معصوم جگر گوشوں، بیماروں، عورتوں، بزرگوں اور پیاروں کو پیاس کیلئے تڑپتے دیکھنا، اردگرد زخم زخم وجودوں کی درد بھری آہیں سننا، پکارتی آنکھوں کے سوالوں کی تکلیف محسوس کرنا، بیماروں اورلاچاروں کی بے بسی برداشت کرنا زیادہ بڑی آزمائش ہے۔
یزید کا ظلم و جبر حسین کے عزم و استقلال میں دراڑ نہ ڈال سکا کیونکہ اس عشق کی طاقت ان کے ہمراہ تھی جو ہر شے اور رشتے کی قربانی طلب کرتا ہے۔ ایک کے سوا سب کو چھوڑنے کا تقاضا کرتا ہے۔ یوں دنیا کی تاریخ میں حسینؓ اس طرح عشق کے امتحان میں سرخرو ہوئے کہ حق کی علامت بنے اور حسینیت ایک مکتب فکر بن کر انسانوں کے ضمیر پر لاگو ہوئی۔ حسینؓ نے ثابت کیا کہ بھلے وقتی طور پر شر کا غلبہ ہو مگر دائمی جیت ہمیشہ خیر کی ہوتی ہے اس لئے شر کے خوف سے خیر کا رستہ ترک کرنا انسانیت کے خلاف ہے۔ حسینؓ نے یہ گُر بھی سکھایا کہ باطل کا سامنا ہو تو کم عددی قوت کی پروا کی بجائے حق کا علم بلند کرنے کو مقصد بنانا چاہئے کیونکہ کچھ جنگوں میں تدبیر اور وسائل کی بجائے عزم، ارادہ اور نیت جیت کا سبب بنتی ہے۔
آج کا انسان سائنسی اور تمدنی ترقی کی اونچی منزل پر پہنچ چکا ہے مگر ابھی شعوری حوالے سے وہ زوال کے رستوں میں ہے اسلئے کہ ابھی اس نے ظاہر کو پیمانہ بنا رکھا ہے۔ وہ من میں موجود حق کی پکار نہیں سُن پا رہا۔ اس لئے وہ خیر و شر میں تفریق کر کے مقصدیت کا رستہ بھی طے نہیں کر پا رہا۔ اپنے عمل کو اپنے مفاد تک محدود رکھنے سے معاشرے میں تبدیلی نہیں آتی۔ جب تک ظلم پر خاموش رہیں گے جبر کھل کھیلتا رہے گا۔ کربلا باطل کو مغلوب کر کے خیر کے غلبے کیلئے کوشش کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔ کربلا کی درسگاہ پوری انسانیت کو پھر وہ نصاب پڑھنے کی آواز دے رہی ہے جو زمانہ ذہن کےا سٹور میں پڑی الماری میں رکھ کر بھول گیا ہے۔ ایمان کو ظاہری عبادتوں تک محدود کر کے زندگی کا مقصد نہیں پایا جا سکتا۔ عشق کی سلامتی ضروری ہے اور یہ قربانی کی طلبگار ہے۔
ایمان سلامت ہر کوئی منگے، عشق سلامت کوئی ہُو
جس منزل نوں عشق پہنچاوے ایمان خبر نہ کوئی ہو
ایمان منگن شرماون عِشقوں دل نوں غیرت ہوئی ہُو
عِشق سلامت رکھیں باہُوایمانوں دیاں دھروئی ہُو
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ