پاکستان میں آج انتخابی مہم کا آخری دن تھا۔ نواز شریف نے قصور میں اور بلاول بھٹو زرداری نے لاڑکانہ میں جلسہ کرکے پولنگ سے پہلے عوام تک اپنا حتمی پیغام پہنچایا۔ تحریک انصاف کو میدان سے صاف کردیا گیا ہے۔ اس کی انتخابی مہم سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے ذریعے نہایت محدود پیمانے پر چلائی گئی ۔ اسے نہ جلسہ کرنے کی اجازت ملی اور نہ ہی ورچوئیل انتخابی مہم کا موقع فراہم ہؤا لیکن دوسری دونوں بڑی پارٹیوں کی طرح تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدوار بھی پارٹی کی واضح کامیابی کی امید کے ساتھ میدان میں ہیں۔
نواز شریف یا مسلم لیگ (ن) گزشتہ دو ہفتے کے دوران سرگرم دکھائی دیے، جبکہ بلاول بھٹو زرداری اور پیپلز پارٹی ایک ماہ سے زیادہ مدت سے انتخابی مہم چلا رہے ہیں ۔ زمینی حقائق البتہ یہی ہیں کہ اس بار انتخابی مہم میں گرمجوشی دکھائی نہیں دی۔ تسلسل سے ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیوں کی وجہ سے خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں انتخابی مہم کے لیے حالات مشکل رہے۔ پنجاب اور سندھ میں عوام میں 8 فروری کے حوالے سے جوش کے مقابلے میں مایوسی زیادہ محسوس کی گئی۔ مہنگائی اور بے یقینی کی وجہ سے بھی انتخابی مہم گرمجوشی اور روائیتی ہنگامہ آرائی سے محروم رہی ہے۔ اس کے باوجود عوام تک ہر پارٹی کا پیغام پہنچ چکا ہے اور وہ کسی حد تک ان انتخابات کے نتائج سے بھی آگاہ ہیں۔
یوں تو انتخابات کے موقع پر انتخابی امیدوار اپنے اپنے حلقے میں رونق میلہ لگاتے ہیں ۔ اس کے علاوہ خاص طور سے شہری علاقوں میں رہنے والے ووٹر بڑی تعداد میں کسی ممکنہ تبدیلی کی خواہش و امید پر بڑھ چڑھ کر سیاسی مباحث اور سرگرمیوں کا حصہ بنتے ہیں۔ سوشل و الیکٹرانک میڈیا کے زمانے میں شاید زمینی سطح پر مہم جوئی کی ضرورت کم ہوگئی ہو لیکن عوامی مایوسی اور پریشان حالی کی سب سے بڑی وجہ یہ بھی رہی ہے کہ اس بار انتخابات میں ووٹ پڑنے اور ان کا شمار ہونے سے پہلے ہی یہ یقین عام ہوچلا ہے کہ کس نے ہارنا ہے اور کون جیتے گا۔ کون حکومت بنائے گااور کسے اپوزیشن میں بیٹھنا ہوگا۔ کسی حد تک یہی صورت حال مسلم لیگ (ن) کے حوالے سے 2018 کے انتخابات میں بھی دیکھنے میں آئی تھی۔ اس وقت تمام ’غیر مرئی‘ قوتیں تحریک انصاف کو کامیاب کروانے اور عمران خان کو ملک کی امید کے طور پر سامنے لانے میں سرگرم تھیں۔ اس بار ان ہی قوتوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ عمران خان کی قیادت میں تحریک انصاف ملکی مفاد کے خلاف ہے۔البتہ اس بار ایک فرق واضح طور سے محسوس کیا گیا ہے کہ 2018 میں نواز شریف اور مریم نواز کو اگرچہ انتخابات سے پہلے ہی گرفتار کرلیا گیا تھا اور مسلم لیگ (ن) کو سیاسی طور سے دبانے کا اہتمام بھی کیا گیا تھا لیکن اس کے باوجود پارٹی کو انتخابی مہم چلانے میں کسی بڑی رکاوٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا ۔ اور نہ اس سے انتخابی نشان واپس لیا گیا تھا۔ اسٹبشلمنٹ کے دباؤ کی وجہ سے الیکٹ ایبلز ضرور دھڑا دھڑ مسلم لیگ (ن) کا ساتھ چھوڑ کر جہانگیر ترین کے جہاز میں بیٹھ کر عمران خان کی سرپرستی قبول کرنے بنی گالہ جارہے تھے لیکن پارٹی کی عوام تک رسائی میں غیر معمولی رکاوٹیں کھڑی نہیں کی گئی تھیں۔ اسی لیے مسلم لیگ (ن) 2018 کے انتخابات میں اگر چہ واضح اکثریت حاصل نہیں کرسکی تھی لیکن اسے قومی و پنجاب اسمبلی میں دوسری بڑی پارٹی کی حیثیت حاصل رہی تھی۔ 2024 کے انتخابات سے پہلے نہ صرف تحریک انصاف سے الیکٹ ایبلز ہانک کر دوسری ’قابل اعتبار‘ پارٹیوں میں بھیجے گئےبلکہ پارٹی سے انتخابی نشان بھی واپس لے لیا گیا۔ پولنگ سے محض چند روز پہلے عمران خان کو ایک ہی ہفتے کے دوران میں یکے بعد دیگرے تین مختلف مقدمات میں طویل سزائیں دی گئیں۔ ان سزاؤں پر احتجاجی مظاہرے تو دیکھنے میں نہیں آئے لیکن اس سے عوام کی اکثریت کو یہ ضرور اندازہ ہوگیا کہ اس بار تحریک انصاف کو موقع نہیں ملے گا۔
اسی لیے نوٹ کیا گیا ہے کہ اس بار ماند انتخابی سرگرمی کے علاوہ ماحول میں عمومی مایوسی کا ماحول شدید اور گہرا ہے۔ اس کی ایک وجہ تو عوام کی عمومی معاشی حالت بھی ہے۔ ابتر معاشی حالات اور اشیائے صرف کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ نے عوام کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو ماند کیا ہے۔ اس پر مستزاد نگران حکومت نے چند ماہ کے دوران میں متعدد بار پیٹرولیم مصنوعات اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کے ذریعے رہی سہی کسر نکال دی ہے۔ سیاسی لیڈروں نے انتخابی وعدوں مہنگائی جیسے بنیادی مسئلہ کا کوئی ٹھوس حل پیش نہیں کیا اور نہ ہی سادہ الفاظ میں یہ واضح کیا ہے کہ وہ کیسے عوام کی مشکلات کم کریں گے اور انہیں گرانی ، بیروزگاری اور دیگر سماجی مسائل سے نجات دلائیں گے۔ ان حالات میں عوام میں یہ تاثر قوی ہؤا ہے کہ انتخابات طاقت ور اشرافیہ کا کھیل ہے جس میں عام لوگوں کو حصہ دار بنانے کا دعویٰ ضرور کیا جاتا ہے لیکن وہ انہیں کوئی سہولت یا رعایت دینے پر آمادہ نہیں ہیں۔ اس بے بسی نے اب قومی مایوسی کی شکل اختیار کرلی ہے۔
دیکھا جاسکتا ہے کہ نواز شریف نے انتخابی مہم کے دوران تسلسل سے یہی راگ الاپا ہے کہ اگر 2017 میں ان کی حکومت ختم نہ کی جاتی تو پاکستان اس وقت ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہوتا ۔حالانکہ اس وقت ماضی میں کیا ہؤا کی بجائے مستقبل میں کیا ہوگا ، کے بارے میں بتانا اہم ہے تاکہ عوام میں امید کی کوئی جوت جگائی جاسکے۔ نواز شریف تجربہ کار سیاست دان ہونے کے باوصف، عوامی مایوسی کم کرنے کے لیے کوئی متوازن بیانیہ سامنے لانے میں ناکام رہے۔ ان کا اصرار ہے کہ انہیں اقتدار دیا جائے تو وہ ملک کی تقدیر بدل دیں گے لیکن ان کے پاس اس سوال کا جواب نہیں ہے کہ وہ یہ کام کیسے کریں گے اور اس کے لیے وسائل کہاں سے دستیاب ہوں گے۔ انہوں نے جس شہر میں بھی جلسہ منعقد کیا ہے، وہاں نت نئے ترقیاتی منصوبوں کا اعلان کیا ہے لیکن ان کی ضرورت و افادیت کے علاوہ ان کے مالی بوجھ کے حوالے سے بات کرنا مناسب خیال نہیں کیا ۔
ان کے مقابلے میں بلاول بھٹو زرداری کی انتخابی مہم کا زور اس بات پر رہا ہے کہ بوڑھوں کو سیاسست سے ریٹائر ہوجانا چاہئے کیوں کہ موجود ہ مسائل انہی کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں۔ لیکن وہ یہ مطالبہ کرتے ہوئے یہ نہیں دیکھتے کہ پیپلز پارٹی کے معاون چئیرمین آصف زرداری بھی عمر میں نواز شریف اور شہباز شریف کے برابر ہی ہیں اور ماضی قریب کے سیاسی فیصلوں میں ان کا اثر و رسوخ بھی موجود رہا ہے۔ بلاول کے نزدیک ’عمر رسیدہ‘ صرف نواز شریف ہیں کیوں کہ وہ بظاہر وزارت عظمی کے امید وار ہیں جسے اب بلاول بھٹو زرداری اپنا حق سمجھتے ہیں۔ انہوں نے بھی نوازشریف ہی طرح عوام کو معاشی سہولتیں دینے کے بلند بانگ دعوے کیے ہیں جن میں تنخواہوں کو دوگنا کرنا، 300 یونٹ تک مفت بجلی فراہم کرنا، تعلیم اور صحت کی سہولتوں کو عام کرنا اور عوامی بہبود کے دیگر منصوبے شروع کرنا شامل ہے۔ البتہ نواز شریف کی طرح بلاول بھٹو زرداری بھی یہ بتانے کے روادار نہیں ہیں کہ مہنگی معاشی اصلاحات کے لیے ایک غریب مقروض ملک کی معیشت سے کیسے وسائل حاصل کیے جائیں گے۔ پیپلز پارٹی گزشتہ پندرہ سال سے مسلسل سندھ میں حکومت کررہی ہے ۔ اس کی قیادت اس صوبے میں فلاحی منصوبوں کا کوئی مثبت ریکارڈ پیش کرنے میں بھی کامیاب نہیں ہوسکی۔ حالیہ بارشوں میں کراچی میں سامنے آنے والے مسائل، صوبائی حکومت کی ناقص منصوبہ بندی اور ترجیحات کا پول کھولنے کے لیے کافی تھے۔
تحریک انصاف چونکہ اس وقت ریاستی عتاب کا سامنا کررہی ہے لہذا اسے لگتا ہے کہ ’حقیقی آزادی‘ کے بے معنی نعرے اور عمران خان کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک کا حوالہ دے کر عوام سے ہمدردی کا ووٹ لیا جاسکتا ہے۔ اور اسے ایسی شاندار کامیابی حاصل ہوگی کہ اڈیالہ جیل کی ’دیواریں گر جائیں گی‘ اور عمران خان سیدھے وزیر اعظم ہاؤس پہنچ جائیں گے۔
تین بڑی پارٹیوں کی اس تگ و دو کے دوران میں البتہ یہ سوال ہنوز جواب طلب ہے کہ ملک میں نئی حکومت کیسے قائم ہوگی اور وہ ملکی مسائل سے نمٹنے کے لیے کس قدر بااختیار ہوگی۔ قیاس کیا جارہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) اس وقت اسٹبلشمنٹ کے ساتھ ایک ہی پیج پر ہے۔ آرمی چیف جنرل عاصم منیر ملکی معیشت کو ہر قیمت پر بحال کرنے کا عزم رکھتے ہیں اور ان کے خیال میں مسلم لیگ (ن) شاید یہ کام بخوبی انجام دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ لیکن اس ملین ڈالر سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو کتنا اختیار حاصل ہوسکے گا اور کیا ماضی کی طرح اختیارات کی تقسیم کے سوال پر ایک بار پھر فوج اور سیاسی قیادت میں چھینا جھپٹی شروع نہیں ہوجائے گی۔
اس وقت جو سیاسی منظر نامہ دکھائی دیتا ہے، اس میں کسی ایک پارٹی کو قومی اسمبلی کے علاوہ پنجاب اسمبلی میں واضح اکثریت حاصل نہیں ہوسکےگی۔ مخلوط حکومت قائم ہوگی جس میں عام طور سے وزارتوں اور مراعات کے حصول کی لڑائی کو قومی مفادات پر فوقیت حاصل رہتی ہے۔ تحریک انصاف کے بعد قائم ہونے والی پی ڈی ایم کی مخلوط حکومت اس کی نمایاں مثال ہے۔ ایسا سیاسی کلچر ملکی معیشت کے بارے میں مشکل فیصلوں کا متحمل نہیں ہوسکے گا۔ ایک اندیشہ یہ بھی موجود ہے کہ ناکام ہونے والی پارٹی ، خاص طور سے تحریک انصاف دھاندلی کا عذر تراش کر، احتجاجی تحریک شروع کرسکتی ہے۔ نئی حکومت اگر فوری اقدامات کے ذریعے عوام کو سہولتیں دینے میں کامیاب نہ ہوئی تو ایسے کسی احتجاج کا راستہ روکنا ممکن نہیں ہوگا ۔کیوں کہ سیاسی ضرورت مند ملکی ترقی میں کوئی کردار بھلے ادا نہ کرسکیں لیکن عوامی غم و غصہ کو بروئے کار لانے کا ہنر بہر حال جانتے ہیں۔انتخابی نتائج کے بارے میں ایک قیاس یہ ہے کہ اگر اسٹبلشمنٹ نے اس بار ایک ہی ’گھوڑے‘ پر بازی لگانے کا قصد کیا تو مسلم لیگ (ن) اندازوں سے بڑھ کر کامیابی حاصل کرسکتی ہے۔ اس صورت میں شاید فوری معاشی استحکام کا مقصد حاصل ہوسکے۔ لیکن کیا اسٹبلشمنٹ ایک ایسے شخص کی قیادت میں قائم پارٹی کو اتنا اختیار دینے پر راضی ہوجائے گی جو اس سے پہلے تین بار اختیارات و حکمت عملی کے سوال پر ہی عسکری قیادت سے اختلافات کا شکار رہا ہے۔ دوسری ممکنہ انتہائی صورت یہ ہے کہ تحریک انصاف کا حامی ملک کا نوجوان ووٹر بہت بڑی تعداد میں ووٹ دینے کے لیے باہر نکلے اور تمام تجزیوں اور اندازوں کو غلط ثابت کردے۔
25 کروڑ آبادی والے ملک میں یہ امکان ہر وقت موجود رہتا ہے لیکن پاکستان کی انتخابی تاریخ سے اس کی تائید نہیں ہوتی۔ ووٹ ٹرن آؤٹ اگر 50 فیصد یا اس سے کم رہا تو اسمبلیوں میں ان لوگوں ہی کی اکثریت ہوگی جو اسٹبلشمنٹ کا منہ دیکھ کر سیاسی وفاداریوں کا تعین کرتے ہیں۔ یہ کہنا البتہ ممکن نہیں ہے کہ یہ عناصر کوئی مستحکم حکومت قائم کرنے میں معاون ہوسکیں گے۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ