دسمبر 24 سال 2023
نشتر وارڈ 23 میں معمول کی ڈیوٹی پر تھی۔۔۔موسم میں خنکی کی وجہ سے بار بار چاۓ کی طلب ہوتی ہے اور فراغت کا وقت گزارنے کا بہانہ ہوتا ہے۔۔۔ہم نے وارڈ میں چاۓ منگوائی تھی۔۔ابھی چند گھونٹ پیے تھے جب فون کی آواز نے متوجہ کیا۔۔۔ادیب بھائی کے نمبر سے کال آرہی تھی۔۔۔یہ غیر معمولی بات تھی۔۔۔ادیب بھائی تو اس وقت دفتر ہوتے ہیں اور سر ہمیشہ شام میں فون کرتے ہیں۔۔۔۔یا اللہ خیر ہو کہہ کر فون اٹھایا۔۔ادیب بھائی کے نمبر سے رضوانہ باجی کی آواز سن کر میں مزید پریشان ہو گئی۔۔۔باجی نے کہا حریم ابو کو لے کر آۓ ہیں طبیعت خراب ہے۔۔۔مجھے نہیں معلوم میں نے وارڈ تئيس سے ایمرجنسی کا سفر کیسے کیا۔۔۔میں پاؤں کہیں رکھ رہی تھی اور پڑ کہاں رہے تھے۔۔۔راستے میں تعمیراتی کام چھتوں سے ٹپکنے والا پانی اور پتھر گارا اور ریت۔۔۔سب آنکھوں میں مرچیں بھر رہے تھے۔۔۔۔ایمرجنسی جا کر دیکھا ایک کمرہ،دوسرا کمرہ، مردانہ وارڈ، سر نہیں ملے۔۔۔فون ملايا اور الٹراساونڈ روم کی طرف بھاگی۔۔۔وہاں ڈیوٹی پر تعینات سينئر کو تعارف کروایا اور طبیعت پوچھی۔۔۔وہ بڑے حیران ہوۓ۔۔۔کہنے لگے آج کل ڈاکٹر بن کر استاد کے لیے کون آتا ہے۔۔۔میں بس یہی کہہ سکی۔۔۔سر بطور انسان اور بطور ڈاکٹر میں اگر یہاں ہوں اور جو بھی ہوں سر کی وجہ سے ہوں۔۔۔۔۔۔استاد جی ہماری گفتگو اور طبعی تبصرے سے لا تعلق درد سے نڈھال تھے۔۔۔۔مجھے پہچانا نہیں۔۔۔۔میں جانتی ہوں یا میرا اللہ کہ دل کا کیا حال ہوا۔۔۔سر پریشان نہ ہوں اس لیے میں نے سینے پر ہاتھ رکھ کر بتایا سر میں حریم ہوں۔۔۔
یادوں کے کیلنڈر کے کئی صفحے پلٹے گئے اور 2009 پر جا رکے۔۔۔جب سر نہم جماعت کو پڑھانے آۓتھے اور ہم نے اپنا اپنا نام بتا کر تعارف کروایا تھا ۔۔میں نے بھی بتایا تھا سر میں حریم ہوں۔۔۔ہماری کلاس فطرتاً ذہین مگر بلا کی شرارتی تھی اور سب سے زیادہ قابل ذکر خوبی ہمارا اتفاق تھا۔۔۔۔ہم پڑھائی کے معاملے میں سمجھوتا نہیں کرتے تھے۔۔جو پسند نہیں آتا تھا اس سے پڑھنے کا سوال ہی نہیں ہوتا۔۔۔سکول کے کسی مقابلے میں اگر فیصلہ ووٹنگ پر ہونا ہوتا تو بھی ہم سب کا چناو یکتا ہوتا اور ہم جسے چاہتے جتوا دیتے جسے چاہتے مات دیتے۔۔۔کھانا پینا اور پڑھنا بھی اکٹھے ہوتا۔۔۔سر حبیب الرحمن بٹالوی صاحب آۓ اور یہ شرارتی کلاس تہذيب و تربیت کے رنگوں میں رنگ گئی۔۔۔سر نے سختی سے منع کیا ہوتا کہ میرے آنے پر کھڑا نہ ہوا جاۓ۔۔ادھر ضد کہ ميں خدا کے حضور تکبر کی زد میں نہ آ جاوں۔۔ادھر ضد کہ جن کو مرشد مانا ان کی تعظيم میں کھڑے کیسے نہ ہوا جاۓ۔۔۔گھسے پٹے مفہوم اور طوطوں کی طرح تشریح اور حوالے کے اشعار رٹوانے سے کوسوں دور ہم خاکوں، افسانوں، انشائيوں ، کے سمندر کوزے میں بند کر کے ذہنی پختگی کے کئی درجے پار کر گئے۔
میٹرک سے قبل ہم جہان دانش، سو نوبل انعام یافتہ افسانے، شہاب نامہ، زاویہ ، بانو قدسیہ ، نسیم حجازی اور فارسی اردو کے نامور کلام پڑھ چکے تھے۔۔۔ایک روز ہم سکول کی الوداعی تقریب کی تیاری کر رہے تھے جب ایک استاد سر کے پاس آۓ اور کچھ الفاظ کا مطلب پوچھنے لگے۔۔جب وہ سر سے استفادہ کر کے چلے گئے تو میں نے ساتھ والی سہیلی کے کان میں کہا۔۔۔یار سر کو اتنے آسان الفاظ کے معانی نہیں آتے يہ تو ہمیں بھی آتے۔۔۔حیرت ہے! اس نے کہا حریم ان کو حبیب الرحمن بٹالوی نے اردو نہیں پڑھائی۔۔۔۔سب سے زیادہ انتظار ہمیں اردو کے ٹیسٹ چيک ہونے کے بعد ملنے کا ہوتا۔۔۔Good اور excellent کے روکھے سوکھے دور میں سر لکھتے تھے اللہ کرے زور قلم اور زيادہ۔۔۔اللہ کرےحسن قلم اور زیادہ۔۔۔۔بہت خوب۔۔۔سلامت رہیں۔۔۔۔سر کے سناۓ گئے نثری اور شعری حوالے کس طرح ہماری گفتگو اور تحریر میں شامل ہوتے گئے پتہ نہیں لگا۔۔۔ سر جب سب کے سامنے ہماری تحریر میں سے بہترین سطور کا ذکر کرتے تو اس ستائش پر جو حوصلہ افزائی محسوس ہوتی اس کا کوئی بیان نہیں۔۔۔سر نے بعض وجوہات کی وجہ سے سکول چھوڑ کر جانے کا کہا تو ہماری وہ حالت تھی کہ کاٹو تو لہو نہیں۔۔۔سر جانے لگے تو ہم سب کھڑے ہو گئے۔۔۔پوری کلاس کی آنکھیں آنسوؤں سے لبریز۔۔۔یہ آنسو سر کے پاؤں کی زنجیر بن گئے اور ہمارے سکول سے فارغ التحصیل ہونے تک سر بھی نہیں گئے۔۔۔ہمیں سالانہ امتحان کی تیاری کروائی اور ایک دہم جماعت کی نادان ناسمجھ بچی کو اپنی کتاب ” کتاب میں رکھے لفظ“ اور ”ماں کی اشکوں بھری کہانی“ پر اظہار خيال لکھنے اور اسے اپنی کتاب میں شامل کرکے مجھ ناچيز پر احسان عظیم کیا۔۔مزيد یہ کہ اپنی کتاب کی تعارفی تقریب میں بھی اظہار خيال کے لیے کچھ لکھ کر لانے اور پڑھنے کا موقع دیا۔۔ملتان کی ہر دلعزيز ادبی شخصیات ، محترم رضی الدین رضی ،شاکر حسین شاکر ،عبدالعزيز بلوچ ،منیر رزمی، اقبال عابد، الیاس کبیر پوری،جن کو میں تو جانتی تھی لیکن وہ بھی مجھے جاننے لگے ہیں یہ سر ہی کی بدولت ہوا۔۔یہ سب جانتے ہیں کہ میں حریم ہوں یہ بھی سر کی دین ہے۔۔۔۔۔حوصلہ افزائی اور لکھائی پڑھائی میں رہنمائی کا سلسلہ چلتا رہا۔۔۔سر کے شاگردوں اور دوستوں نے سر کے بارے اور سر کی تحریروں پر جو کچھ لکھا میں سر سے ان خاکوں خطوط مضمون سب کو یکجا کر کے کتاب کی شکل میں شائع کرنےکی اجازت کی فرمائش لیے سر کے حضور بار بار پیش ہوتی۔۔۔لیکن سر کو ستائش سے شدید اختلاف تھا۔۔۔بعد ازاں میری ذاتی زندگی میں ایسے حالات آۓ کہ میں نے لکھنا چھوڑ دیا اور امید بھرا ہر رستہ بھی ۔۔۔سر نے مجھے دوبارہ قلم تھمانے کے لیے کتاب شائع کرنے کی اجازت دی جیسے کوئی بچے کو بہلانے کے لیے اس کی پسندیدہ ٹافی چاکلیٹ دے کر سکول کا کام کرنے پر ابھارتا ہے۔۔۔سر اپنے پسندیدہ اشعار اور کلام کی جیتی جاگتی تصویر تھے۔۔۔ہمیشہ کہتے تھے میں نے بہت کم ایسے لوگ دیکھے جو اپنے لباس سے زيادہ قیمتی تھے
لوگ مجھے سے پوچھتے ہیں کیا ہے تیرا مشغلہ جگنووں کو پالنا اور روشنی بکھیرناہمیشہ سر یہی کرتے رہے
24 دسمبر کو میں ڈيوٹی پر تھی جب سر ایمرجنسی آۓ ،میرا بس نہیں چلتا تھا کہ سر کا درد ختم کردوں، دوا سے درد کم ہوا تو کہنے لگے گھر جاوں گا کل آ کر دوا لگوا لوں گا۔۔۔سر سے ضد کر کے کچھ منوانا ممکن نہیں اور اگر مان بھی جائيں گے تو تنگ ہوں گے۔۔۔ابتدائی رپورٹس بھی تسلی بخش تھیں ادیب بھائی آپی اور میں نے سر کی آسانی کے لیے گھر جانے کی سر کی خواہش کا احترام کیا، ہم تینوں نے سر کو گاڑی میں بٹھایا دروازہ بند کیا،ادیب بھائی نے ڈرائيونگ سیٹ سنبھالی تو ان سے کہہ کر دروازہ کھلوایا اور جیسے ہمیشہ وقت رخصت میرے سر پر ہاتھ رکھتے تھے ہاتھ رکھا۔۔۔اور چلے گئے۔۔۔مشیت الہی تھی کہ اگلے روز میں شہر سے باہر تھی جب سر ہمیں ہمیشہ کے لیے چھوڑ گئے۔۔۔یہ پچتاوا کہ میں ساتھ نہیں تھی میں کچھ کر نہیں سکی روز دل کی دیواروں پر سر پٹختا ہے روز یہ خيال مرہم بنتا ہے کہ اگر میں ہوتی اور بچھڑتے وقت سر پر ہاتھ نہ ہوتا تو مجھ سے کیونکر صبر ہوتا۔۔۔بے حد کوشش کے باوجود یہ سب لکھ پانے کی ہمت مجھ میں نہیں تھی لیکن میں یہ سب لکھنا چاہتی تھی مجھے لگتا تھا میں یہ لکھ لوں گی تو شاید میرا غم کچھ کم ہو جاۓ گا لیکن سر کے جانے کی سوچ اور پھر اس کو ضابطہ تحریر میں لانے کی کوشش درد دل کو مزيد بڑھا گئی ہے تسلی ہے تو اس بات کی کہ سر اس زندگی کی کٹھنائيوں اور تکلیفوں سے بہت دور راحتوں بھری جنت میں ہیں اور ہمیں ان کے سکھاۓ گئے اچھے کاموں کو جاری رکھتے دیکھ کر مطمئن بھی ۔۔۔انشاءاللہ۔۔۔اے اللہ مجھے سر کے لیے باعث فخر اور صدقہ جاریہ بنا دے۔۔۔ تاکہ سر کو کبھی شرمندگی نہ ہو کہ میں حریم سر کی شاگرد اور بیٹی ہوں ۔۔۔۔آمین۔۔میں ان سب لوگوں کی مشکور ہوں جنہوں نے میرے سر کے جانے کو میرا نقصان جانا مجھے فون کیے پیغام بھیجے۔۔۔ غم کم نہیں ہوتا لیکن یہ سب میرے غم کو سمجھتے ہیں یہی بات کیا کم ہے؟؟؟
فیس بک کمینٹ