وزیر اعظم عمران خان نے واضح کیا ہے کہ صرف وہی لوگ ملک میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے استعمال کی مخالفت کررہے ہیں جو انتخابی دھاندلی سے فائدہ اٹھاتے رہے ہیں۔ وزیر اعظم کا یہ دو ٹوک فیصلہ قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر کی صدارت میں ہونے والے ایک اجلاس کے بعد سامنے آیا ہے جس میں اسپیکر نے حکومتی و اپوزیشن ارکان پر مشتمل ایک کمیٹی بنانے پر رضامندی ظاہر کی تھی تاکہ انتخابی اصلاحات کے معاملہ پر اتفاق رائے پیدا کیا جاسکے۔
دوسری طرف وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے وزیر داخلہ شیخ رشید کے ساتھ مل کر ایک پریس کانفرنس منعقد کی ہے جس میں اس ’سازش‘ کا پردہ چاک کیا گیا ہے جس کے مطابق نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم کا دورہ پاکستان منسوخ کروانے کے لئے بھارت نے جعلی ای میلز اور فیس بک پیغامات کے ذریعے نیوزی لینڈ حکومت کو یہ ماننے پر مجبور کردیا کہ ان کی ٹیم کو پاکستان میں خطرہ ہے ۔ اسی لئے نیوزی لینڈ کو پہلا میچ شروع ہونے سے چند گھنٹے پہلے اپنی ٹیم کو واپس بلانے اور پاکستان سیریز منسوخ کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ اسی پریس کانفرنس میں فواد چوہدری نے بھارتی ذرائع سے جعلی اکاؤنٹس بنانے اور بھارتی ایپلی کیشینز کے ذریعے جعلی ای میلز اور جھوٹی معلومات فراہم کرنے کا انکشاف کرتے ہوئے یہ بھی تسلیم کیا کہ دونوں ملکوں کی حکومتوں نے ان ایل میلز کی حقیقت جاننے کے بعد سیریز جاری رکھنے کا عندیہ دیا تھا اور نیوزی لینڈ کی ٹیم نے پاکستان میں پریکٹس بھی شروع کی تھی۔ پھر اچانک نیوزی لینڈ نے آخری لمحے پر اپنا فیصلہ تبدیل کرلیا۔ اور وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے اپنی ہم منصب جیسنڈ آرڈرن کو فون پر یقین دہانی کے باوجود کرکٹ سیریز منسوخ کردی گئی۔
یہ کہنا مشکل ہے کہ اس پریس کانفرنس میں کئے جانے والے انکشافات سے پاکستانی حکومت کیا مقصد حاصل کرنا چاہتی ہے کیوں کہ اگر بھارتی سازش کو سو فیصد درست بھی تسلیم کرلیا جائے تو بھی نہ تو یہ مان لینے سے زمینی حقائق تبدیل ہوجاتے ہیں اور نہ ہی یہ واضح ہوتا ہے کہ پاکستان میں مہمان ٹیم کو کوئی خطرہ نہیں تھا۔ کیوں کہ اگر پاکستان میں حالات معمول پر ہوں اور یہاں کرکٹ یا کسی دوسرے کھیل کے لئے آنے والی ٹیموں و کھلاڑیوں کو کوئی اندیشہ لاحق نہ ہو تو شیخ رشید کو یہ کہنے کی کیوں ضرورت پیش آئے کہ ’پاکستان نے نیوزی لینڈ ٹیم کی سیکورٹی کے لئے اتنے فوجی فراہم کئے تھے جو نیوزی لینڈ کی کل فوج سے بھی زیادہ تھے‘۔ شیخ رشید سمیت عمران خان کی کابینہ کے سب ارکان کو پر جوش بیانات دینے کا بے حد شوق ہے۔ جذبات کی فراوانی میں وہ اکثر یہ فراموش کردیتے ہیں کہ اس قسم کے بے مقصد اور بے بنیاد بیان جاری کرکے وہ کون سا عظیم قومی مقصد حاصل کررہے ہیں۔
وزیر داخلہ شیخ رشید نے فواد چوہدری کے ساتھ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے قوم کو یہ ایمان افروز پیغام دیا ہے : ’ مایوسی کفر ہے۔ ایک وقت آئے گا جب دنیا بھر کی ٹیمیں پاکستان آنے کی خواہش ظاہر کریں گی۔ بھارت ایسا تاثر دے رہا ہے کہ پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ ختم ہوگئی ہے، وہ میڈیا کے ذریعے جعلی خبریں پھیلا رہا ہے اور بہت جلد منہ کی کھائے گا۔ میں یہ پیغام لے کر آیا ہوں کہ ہم زندہ قوم ہیں اور تنہا نہیں کیے جا سکتے، ہمیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ آنے والے دن پاکستان کے ہیں اور وزیر اعظم عمران خان کی قیادت میں ملک کو مزید ترقی دینے کے لیے کوشاں رہیں گے‘۔
پریس کانفرنس میں عمران خان کی قیادت کا بت تراشنے اور ملک کے لئے شاندار مستقبل کا خواب دکھانے کے باوجود دونوں وزیر نیوزی لینڈ سے آنے والی اس اطلاع پر کوئی تبصرہ کرنے سے قاصر رہے کہ وہاں حکومت کو پانچ ملکوں کے انٹیلی جنس اشتراک ’فائیو آئیز‘ سے ٹیم پر حملہ کے بارے میں ٹھوس معلومات ملی تھیں جن کی روشنی میں آخری لمحے میں دورہ منسوخ کیا گیا۔ اس انٹیلی جنس اشتراک میں نیوزی لینڈ کے علاوہ آسٹریلیا، کینیڈا، امریکا اور برطانیہ شامل ہیں۔ نیوزی لینڈ حکومت اور بورڈ نے سیریز منسوخ کرنے کا فیصلہ کسی کھلاڑی کی بیوی کو دی گئی جعلی ای میل یا طالبان کے سابق ترجمان کے جھوٹے بیان کی روشنی میں نہیں کیا تھا۔ وفاقی حکومت کے دو ذمہ دار وزیر اگر اس مئلہ پر سازش تلاش کرنے نکلے ہی تھے تو بہتر ہوتا کہ ان انٹیلی جنس معلومات کے بارے میں عوام کو مطلع کیا جاتا یا بتایا جاتا کہ دنیا کے بڑے ممالک کی سب انٹیلی جنس ایجنسیاں بھی بھارتی جعل سازی کے دھوکے میں گمراہ کن معلومات عام کررہی ہیں۔
شیخ رشید ایک منجھے ہوئے سیاست دان ہیں لہذا وہ خود ہی بہتر جانتے ہوں گے کہ نیوزی لینڈ کے بعد انگلینڈ کرکٹ بورڈ کی طرف سے پاکستان کا دوررہ منسوخ کرنے کے بعد اس معاملہ کو کرکٹ سے متعلق حکام اور سفارتی سطح پر حل کرنے کی بجائے اس پر پبلک ریلیشننگ کے مقصد سے بھارت کو فریق بنانے سے کیا فائدہ حاصل کیاجاسکتا ہے۔ تاہم یہ طے ہے کہ عمران خان کی حکومت کے سب ارکان بھارت ہی کو پاکستان کی سب مشکلات کا سبب قرار دینا اہم سمجھتے ہیں۔ وزیر اعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی معید یوسف بھی اس حوالے سے متحرک رہتے ہیں اور دنیا کو تلقین کرتے رہتے ہیں کہ افغانستان سے لے کر کشمیر تک کا مسئلہ سمجھنے کے لئے بھارت کی بد نیتی اور سازشوں کو سمجھنا بے حد ضروری ہے۔ اسی لئے اب انہوں نے واضح کیا ہے کہ بھارت صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ اب صحیح معنوں میں پورے خطے کے لیے خطرہ بن چکا ہے۔ دنیا کو اب آنکھیں کھول کر بھارتی حرکتوں کا جائزہ لینا چاہئے۔ اسلام آباد میں ’پاکستان فیوچر ڈائریکشن ‘کے موضوع پر سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے معید یوسف کا کہنا تھا کہ ’قومی سلامتی کا بنیادی مقصد پاکستانیوں کو زندگی گزارنے کے وسائل اور ذرائع فراہم کرنا ہے تاکہ وہ خود کو محفوظ محسوس کریں۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم، ملک کو ریاستِ مدینہ کی طرز پر فلاحی ریاست بنانا چاہتے ہیں‘۔
حکومت کی یہ حکمت عملی کس حد تک رنگ لائے گی اس کے بارے میں کم از کم یہ بات تو بلا خوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ ایسے بیانات کو عالمی لیڈر اور ادارے کسی بھی ملک کی مایوسی و پریشانی کا اظہار سمجھتے ہیں اور سفارت کاری میں انہیں کوئی خاص اہمیت نہیں دی جاتی۔ یوں بھی بھارت حجم اور بڑی طاقتوں کے مفادات کے تناظر میں اتنا بڑا ملک ہے کہ امریکہ تو دور کی بات ہے چین جیسا پاکستان کا ’جگری ‘ بھی پاکستان سے تعلقات کے لئے بھارت کو نظرانداز کرنے کا خطرہ مول نہیں لیتا۔ بھارت اس وقت چین کے خلاف امریکہ کی سفارتی، اسٹریٹیجک اور عسکری گھیرا بندی میں قریبی حلیف کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ چینی افواج بھارت کے ساتھ سرحدی جھڑپوں میں بھی ملوث رہتی ہیں لیکن نہ تو بیجنگ کی طرف سے بھارت کے خلاف تسلسل سے پرپیگنڈا مہم چلائی جاتی ہے اور نہ ہی معاشی تعاون اور سفارتی مواصلت کے شعبوں میں تعطل پیدا ہونے دیا جاتا ہے۔ درحقیقت گزشتہ چند دہائی کے دوران چین کی کامیابی و ترقی کا راز ہی اس حقیقت میں مضمر ہے کہ اس نے عسکری تصادم کی بجائے معاشی ترقی اور تعاون کے فروغ کے لئے کام کیا ہے۔ اسی لئے امریکہ اپنے تمام تر تحفظات کے باوجود چین کے ساتھ براہ راست تصادم کی خواہش نہیں رکھتا۔
پاکستان کو اپنے قریب ترین دوست اور ہمسایہ ملک چین کی اس حکمت عملی سے سبق سیکھنا چاہئے۔ پاکستان کو بھی سمجھنا ہوگا کہ دنیا کسی بھی ملک کے خلاف دیے گئے معاندانہ سیاسی بیانات کا نوٹس نہیں لیتی۔ ایسے بیانات کو ہمیشہ ’ملکی پبلک گیلری‘ کو خوش کرنے کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ البتہ ایسے بیانات دو ملکوں کے پہلے سے کشیدہ تعلقات میں مزید دراڑ ڈالنے کا سبب ضرور بنتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ بھارتی میڈیا افغانستان کے حوالے سے مسلسل پاکستان کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا کرتا ہے لیکن اس کا جواب دینے کے لئے آخر وفاقی وزرا کو پریس کانفرنسیں کرنے یا لیکچر دینے کی ضرورت کیوں محسوس ہوتی ہے۔ کیا پاکستانی میڈیا کو قومی مفادات سے اس قدر نابلد سمجھ لیا گیا ہے کہ وہ بھارتی میڈیا کے جھوٹ کو نتھار کر عوام کے سامنے پیش نہیں کرسکتا یا پاکستانی عوام کے بارے میں یہ تصور کرلیا گیا ہے کہ جب تک حکومت بھارت کے خلاف دشنام طرازی نہیں کرے گی، انہیں بھارت دشمنی کا اندازہ ہی نہیں ہوسکے گا؟
کرکٹ ٹیموں کے دورے منسوخ ہونے کے بعد پیدا ہونے والے بحران سے نمٹنے کے لئے بھارتی سازش کا سراغ لگانے کے علاوہ حکومت انتخابی اصلاحات کے نام پر مسلسل اپنی مرضی ٹھونسنے کی کوشش کررہی ہے۔ اپوزیشن کے خلاف تند و تیز بیانات کے علاوہ الیکشن کمیشن کو فریق بنا کر چیف الیکشن کمشنر کے خلاف محاذ آرائی کی جارہی ہے۔ قومی اسمبلی کے اسپیکر نے الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے استعمال اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کے حوالے سے ترامیم کا جائزہ لینے اور اتفاق رائے پیدا کرنے کے لئے مثبت پارلیمانی کوشش کی ہے۔ اس کے بعد وزیر اعظم کی طرف سے ای وی ایم کے معاملہ پر الزام تراشی اور تلخ نوائی سے ایسی مصالحانہ کوششیں رائیگاں جائیں گی۔ یوں بھی حکومت ہو یا اپوزیشن اگر کسی معاملہ پر اتفاق رائے پیدا کرنا مقصود ہو تو اپنے مؤقف ہی کو درست ثابت کرنے کے لئے میڈیا مہم جوئی سے گریز ہی مناسب ہوگا۔
وزیر اعظم نے آج کی تقریب میں حکومتی کارکردگی پر بات کرتے ہوئے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ’ حکومت نے جو شاندار کامیابیاں حاصل کی ہیں ، ہم نے ان کا مناسب کریڈٹ ہی نہیں لیا‘۔ حالانکہ عمران خان ہی کا دعویٰ رہا ہے کہ وہ اپنی ستائش کے لئے نہیں بلکہ قومی بہبود کے لئے فیصلے کرتے ہیں۔ وزیر اعظم اور ان کے ساتھی اگر تضادات سے گریز نہیں کریں گے تو دو سال بعد ہونے والے انتخابات میں یہی بیان ان کے پاؤں کی زنجیر بنیں گے۔
(بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )