عمران خان کا تازہ بیان ملکی فوج کے لئے تازیانہ عبرت ہونا چاہئے۔ پاکستانی عسکری اسٹبلشمنٹ نے حالیہ تاریخ میں تین بڑے گروہوں کو ملکی سیاست ’سنوارنے‘ اور ریاستی انتظام پر اپنا اختیار مستحکم کرنے کے لئے مضبوط کیا بلکہ کسی حد تک پہلے ان کی بنیاد رکھی، پھر ان کی آبیاری کی اور پروان چڑھا کر اتنا تناوربنایا کہ انہیں قومی سیاست میں فیصلہ کن حیثیت حاصل ہوگئی۔ لیکن ان تینوں گروہوں نے بالآخر اسٹبلشمنٹ کو ہی للکارا اور اسے براہ راست مقابلے کی دعوت دی۔
سب سے پہلے کراچی میں جماعت اسلامی کا کنٹرول ختم کرنے اور ملک کے اس شہر کا جمہوری مزاج تبدیل کرنے کے لئے الطاف حسین جیسے گمنام طالب علم کو تلاش کرکے متحدہ قومی موومنٹ کے نام سے ایک تنظیم بنائی گئی جس نے کراچی کے علاوہ حیدرآباد میں طاقت حاصل کی اور ان دونوں شہروں کو نسلی بنیاد پر تقسیم کرکے دہشت گرد گروہوں کے ذریعے زیر کیا۔ جس نے بھی ایم کیو ایم کو سیاسی طور سے للکارنے کی کوشش کی ، اسے منہ کی کھانا پڑی۔ کراچی کے عوام کا ملکی سیاست میں کردار ختم کردیا گیا اور وہاں کے ڈیڑھ کروڑ باشندوں کو ایک نیم پاگل شخص کی بے پناہ طاقت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔ اس دوران متعدد مواقع آئے کہ الطاف حسین کی سیاسی طاقت کو سیاسی طریقے سے کم کیا جاسکتا تھا لیکن اس کی ’اجازت‘ نہیں دی گئی۔
2007 میں جب پورا ملک عدلیہ بحالی تحریک کے نعرے پر متفق ہو کر دراصل پرویز مشرف کی آمریت کے خلاف بیک آوازتھا اور عوام کے جمہوری حقوق اور شہری آزادیوں کی بحالی کے لئےآواز بلند کی جارہی تھی تو ملک کی تقدیر سے کھیلنے والا فوجی آمر ، الطاف حسین اور اس کی دہشت گرد تنظیم کو کراچی میں قتل و غارت کے ذریعے عوامی تحریک کو کچلنے اور اپنی قوت ثابت کرنے کے لئے استعمال کررہا تھا۔ الطاف حسین اور ان کے دہشت گرد ساتھیوں کو کراچی کے لوگوں اور ایم کیو ایم کی قیادت پر کنٹرول کی اس قدر کھلی چھٹی دی گئی کہ کسی قومی ٹیلی ویژن اسٹیشن کو لندن سے الطاف حسین کے طویل ٹیلی فونک خطاب نشر کرنے سے انکار کی مجال نہیں ہوتی تھی اور نہ ہی ان کی پارٹی کا کوئی لیڈر اس اجتماع سے غیر حاضررہنے کا حوصلہ کرسکتا تھا جس سے ’الطاف بھائی‘ کو خطاب کرنا ہوتا تھا۔ بالآخر اگست 2016 میں الطاف حسین نے بدکلامی کی انتہا کرتے ہوئے نہ صرف پاکستان دشمن نعرے لگوائے، پاک فوج پر نازیبا جملے کسے بلکہ سامعین کو اشتعال دلا کر ایک میڈیا ہاؤس پر حملہ کرنے اور شہر میں توڑ پھوڑ پر آمادہ کیا۔ اس انتہا کے بعد پاک فوج نے رینجرز کے ذریعے ایم کیو ایم کے لیڈروں کو حراست میں لے کر انہیں ایم کیو ایم پاکستان بنانے اور الطاف حسین کے ساتھ قطع تعلق پر آمادہ کیا۔ گویا ایک شخص کو جس غیر سیاسی طریقے سے بے پناہ سیاسی اثر و رسوخ دیا گیا تھا، اسے ختم کرنے کے لئے بھی اسی طرح سیاسی طریقے کی بجائے بے پناہ ریاستی طاقت کا استعمال کیا گیا۔ یوں جس الطاف حسین کے ایک نعرے پر کراچی کے کوچہ و بازار بند ہوجاتے تھے اور جس کی سرکردگی میں جرائم پیشہ گروہ دندناتے پھرتے تھے، اس کا ’حقہ پانی‘ بند کردیا گیا اور ملکی میڈیا میں اس کی ایک سطری خبر شائع یا نشر کرنا ممنوع قرار پایا۔
اسی قسم کا ایک تجربہ تحریک طالبان پاکستان کی صورت میں کیا گیا تھا جنہیں ریاستی ایجنسیوں کے سیاسی ایجنڈے کی تکمیل کے لئے جہادی تربیت گاہیں فراہم کی گئیں اور طاقت ور عسکری گروہ میں تبدیل کیا گیا ۔ تاہم لال مسجد سانحہ اور دیگر واقعات کی وجہ سے پیدا ہونے والے اختلافات کی وجہ سے اس گروہ نے ریاست پاکستان اور فوج کے خلاف بغاوت کردی۔ پاکستان میں جس دہشت گردی کو ختم کرنے میں پاک فوج اور پوری قوم کو دو دہائی سے زیادہ مدت صرف کرنا پڑی ہے وہ درحقیقت اسی گروہ کی وجہ سے پروان چڑھی اور پھلی پھولی تھی۔ اب سیاسی بیانیہ میں خواہ اس صورت حال کا الزام امریکہ کو دیا جائے لیکن حقیقت یہی ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کو پاک فوج کے انہی عناصر نے تیار کیا تھا جو طالبان کو اپنی ’ریزرو فورس‘ کے طور پر استعمال کرنا چاہتے تھے تاکہ ضرورت پڑنے پر افغانستان کو پاکستان کی ’اسٹریٹیجک ڈیپتھ‘ کے طور پر استعمال کیا جاسکے۔
کبھی اس محیر العقل اصطلاح کی تشریح سامنے نہیں آسکی لیکن عام طور سے قیاس کیاجائے تو یہی سمجھا جاسکتا ہے کہ اگر خدانخواستہ بھارت کے ساتھ مقابلہ میں افواج پاکستان کو پسپا ہونا پڑے تو بیک یارڈ میں واقع ایک دوست ملک انہیں پناہ دینے اور معاونت کے لئے آمادہ و تیار ہو۔ اس غیر واضح ’ویژن‘ کی تکمیل کے لئے تین دہائیاں ، اربوں ڈالر اور ہزاروں انسانوں کی قربانی دے دی گئی لیکن کسی کو یہ سوال کرنے کا حوصلہ نہیں ہؤا کہ اگر کسی فوج کی جنگی حکمت عملی کی بنیاد ہی پسپائی کا منظر نامہ ہوگا تو وہ آگے بڑھ کر کیوں کر دشمن کے دانت کھٹے کرسکے گی؟ یہ سوال کرنے کا حوصلہ و ضرورت یوں محسوس نہیں ہوئی کہ پاکستانی فوج نے ملکی سیاست اور میڈیا پر مکمل کنٹرول کے ذریعے خود کو ایک ایسے ارفع مقام پر فائز کرلیا تھا کہ کسی دفاعی حکمت عملی کے بارے میں کسی کھلے فورم حتیٰ کہ پارلیمنٹ میں بھی بحث کی اجازت نہیں تھی۔
یہ بات عام طور سے مشاہدہ میں آئی ہے کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے عسکری قیادت ’ان کیمرا‘ اجلاس میں پارلیمانی قیادت کو ’اعتماد میں لینے کا اہتمام کرتی ہے لیکن تمام آثار بتاتے ہیں کہ اس موقع پر نہ کسی کو سوال کرنے کا حوصلہ ہوتا اور نہ ہی ارکان حکومت و پارلیمان میں ان امور پر گفتگو کی صلاحیت ہوتی ہے۔ کیوں کہ عسکری و دفاعی معاملات پر فوجی اجارہ داری کا اصول عرصہ دراز سے متعین کیا جاچکا ہے جس کے بارے میں سوال کرنا بھی خود کو غدار قرار دلانے کے مماثل ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ جب اس قوم پررحم کھاتے ہوئے ’اسٹریٹیجک ڈیپتھ ‘ نامی حکمت عملی ترک کرنے کا عندیہ دیا گیا تو کسی کو یہ پوچھنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں ہوئی کہ اس منصوبہ کی تکمیل کے عمل میں جو غلطیاں سرزد ہوئیں اور ان کی وجہ سے ملک و قوم کو جو بھاری قیمت ادا کرنا پڑی، اس کا کون ذمہ دار ہوگا۔ یہ ایسا بدنصیب ملک ہے کہ اس کے دو حصے ہوگئے لیکن اسے دو نیم کرنے والے کردار سرکاری اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کئے جاتے رہے۔
عوام میں اس حوالے سے اٹھنے والی چہ میگوئیوں کا ایک آسان حل امریکہ اور مغرب کو پاکستان کے تمام مسائل کا ذمہ دار قرار دینے کے نعرے کی صورت میں ایجاد کرلیا گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ دہشت گردی کی جنگ میں ہونے والے نقصان کا سارا الزام امریکہ پر عائد کیا جاتا رہا مگر اس جنگ کی وجہ سے حاصل ہونے والے مالی اور سفارتی فوائد سے معاشرے کا ایسا مخصوص گروہ بہرہ ور ہوتا رہا جن کی طرف انگلی اٹھانا بھی قوم و ملک سے غداری کہلاتا ہے۔ البتہ اب اسی گروہ کے پیدا کردہ ایک تیسرے فتنے یعنی تحریک انصاف کے لیڈر عمران خان نے اسے ’نیوٹرل‘ کا نام دے کر اس کے ساتھ وہی سلوک روا رکھنا ضروری سمجھا ہے جو اس سے پہلے الطاف حسین کرچکے تھے اور جس کے خلاف تحریک طالبان جیسا اپنا ہی تخلیق کردہ گروہ برسر پیکار رہا تھا۔ اب کابل میں اپنے ’ہمدردوں‘ کی حکومت کی منت سماجت کرکے ٹی ٹی پی کو جنگ بندی کرنے اور کسی طرح ریاست پاکستان سے وفاداری کا اعلان کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
بول ٹی وی کو انٹرویو میں عمران خان نے پاکستان کو دیوالیہ قرار دلوانے، اس کی ایٹمی صلاحیت چھین لئے جانے، فوج کے تباہ ہونے اور ملک کے تین حصوں میں تقسیم ہونے کا جو پرزور بیان دیا ہے وہ کسی بھی طرح اگست 2016 میں الطاف حسین کی تقریر سے مختلف نہیں ہے۔ اس تقریر میں بھی فوج کو مسائل کی جڑ قرار دیتے ہوئے ’پاکستان مردہ باد‘ کے نعرے لگائے گئے تھے اور عمران خان کے انٹرویو اور آج دیر میں کی جانے والی تقریر میں بھی تقریباً وہی باتیں مختلف انداز میں کہی گئی ہیں۔ کہ اسٹبلشمنٹ کی نام نہاد غیر جانبداری اور غفلت کی وجہ سے پاکستان دیوالیہ ہوجائے گا، اس کے ایٹمی اثاثے چھین لئے جائیں گے ، فوج تباہ ہوجائے گی اور ملک ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے گا۔ ہائیبرڈ نظام قائم کرنے کے جوش میں پاک فوج کی قیادت اپنے ہی کھڑے کئے گئے لیڈر کے منہ سے اپنی ’تباہی کا پیغام‘ سن کر دم سادھے ہوئے ہے ۔ اور وہی لیڈر ریاست پاکستان اور افواج پاکستان کے دفاع میں سامنے آئے ہیں جنہیں کبھی سیکورٹی رسک قرار دیا گیا اور کبھی ملک و قوم کے لئے بوجھ سمجھتے ہوئے نجات حاصل کرنے کی کوشش کی گئی۔ اب بھی ان میں سے بیشتر لیڈروں کو ’چور لٹیرے‘ قرار دیتے ہوئے پاکستان میں بے یقینی اور سنسنی خیزی کا ایک طوفان برپا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ہائبرڈ نظام کی پیداوار لاڈلا اعلان کررہا ہے کہ اگر فوج نے اس کی بات نہ سنی اور سپریم کورٹ کے جج اس کی لاقانونیت کے محافظ نہ بنے تو وہ ملک میں خانہ جنگی شروع کردے گا۔
آج کا موضوع عمران خان کی غیرمتوازن اور بے بنیاد باتوں کا تجزیہ کرنا نہیں ہے بلکہ طاقت کے ان نام نہاد مراکز کی توجہ اس حقیقت کی طرف مبذول کروانا مطلوب ہے کہ جن سیاسی لیڈروں کو بدعنوانی، میمو گیٹ یا ڈان لیکس کے ذریعے بے توقیر کرنے کی کوشش کی گئی اور جن کے نام کے آگے تہمتوں کی طویل فہرست لف کردی گئی ہے، اب وہی پاکستان کی سالمیت اور افواج پاکستان کے وقار کے لئے آواز بلند کررہے ہیں ۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے بجا طور سے عمران خان کو شٹ اپ کال دی ہے اور متنبہ کیا ہے کہ وہ اپنی حد پار نہ کریں اور ملکی سلامیت اور افواج پاکستان کے بارے میں ہرزہ سرائی سے باز رہیں۔ پیپلز پارٹی کے معاون چئیرمین آصف زرداری نے کہا ہے کہ
’کوئی بھی پاکستان کے ٹکڑے کرنے کی بات نہیں کر سکتا۔ عمران خان کی گفتگو کسی پاکستانی کی نہیں بلکہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی زبان لگتی ہے‘۔ انہوں نے عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’عمران خان! اس دنیا میں طاقت ہی سب کچھ نہیں ہے، بہادر بنیں اور اپنے پاؤں پر کھڑے ہو کر سیاست کرنا سیکھیں۔ اس ملک کو 3 ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کی خواہش اس وقت تک پوری نہیں ہو سکتی جب تک ہم اور ہماری آنے والی نسلیں زندہ ہیں‘۔ انہوں نے اپنے بیان کے اختتام پر کہا کہ ’انشااللہ، پاکستان قیامت تک قائم رہے گا‘۔
یہ وہی آصف زرداری ہیں جنہوں نے بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد ’پاکستان کھپے‘ کا نعرہ لگا کر قومی سالمیت اور ملکی یک جہتی کا دوٹوک اور واضح پیغام عام کیا تھا حالانکہ یہ شبہات موجود رہے ہیں کہ ملکی اقتدار پر قابض ایک آمر ان کی اہلیہ اور مقبول قومی لیڈر بے نظیر بھٹو کے ناجائز قتل میں ملوث تھا۔ ایک طرف ذاتی نقصان کے باوجود پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگانے والا آصف زرداری ہے یا فوجی حکمت عملی میں نقائص کی نشاندہی پر معتوب ٹھہرایا جانے والا نواز شریف ہے جو مسلسل ملکی یگانگت کی علامت ہے تو دوسری طرف عمران خان ہے جو وزارت عظمی سے محروم ہوکر پاکستان کا مستقبل داؤ پر لگانے، فوج کو تباہ کرنے اور ہاکستان کی ایٹمی صلاحیت کا سودا کرنے پر تلا ہؤا ہے۔ یہ باتیں تلخ ہیں۔ لیکن عمران خان نے اپنی انتہائی غیر ذمہ دارانہ اور ذاتی حرص سے مغلوب گفتگو پر کسی شرمندگی کا اظہار نہیں کیا ہے بلکہ آج کی تقریر میں انہی باتوں کو دہرایا ہے جو وہ گزشتہ رات ٹی وی انٹرویو میں کہہ چکے ہیں۔ کسی ریکارڈ کی طرح بجنے والے ان کے ترجمان ملک دشمنی سے معمور ان باتوں کو’حقائق کا آئینہ ‘ قرار دے کر بدستور عمران خان کا دفاع کررہے ہیں۔ یہ کیسی سیاسی جماعت ہے جس میں ایک بھی ایسا لیڈر موجود نہیں ہے جو اپنے سربراہ کی مجرمانہ گفتگو کی گرفت کرنے کا اہل ہو۔
عسکری اداروں کے ان تین کارناموں کا موازنہ ہمیں صرف یہ سبق سکھاتا ہے کہ ’غیر جانبداری‘ کو جو اعلان سفارتی انداز میں کیا گیا ہے ، اب اسے حقیقی بنانے کا وقت آگیا ہے۔ فوج سیاست، معیشت و سفارت کے تمام پرجوش منصوبوں سے دست برداری کا فیصلہ کرے۔ خود کو مکمل طور سے حکومت وقت کی تابعداری میں دینے کا حتمی اعلان کرے۔ اور ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کے لئے ادارہ جاتی کورسز اور مباحث میں گفتگو کا آغاز کیا جائے تاکہ پاک فوج میں اس مزاج کی بیخ کنی ہوسکے جو حب الوطنی، عقل سلیم اور ایمانداری پر اجارہ داری کا تصور عام کرتا ہے۔ تب ہی مستقبل میں ملک کا کوئی سابق وزیر اعظم یہ اعلان نہیں کرے گا کہ’ منتخب وزیر اعظم تو بے اختیار ہوتا ہے۔ اصل طاقت فوج کے پاس رہتی ہے جو نیب جیسے اداروں کے ذریعے اسے استعمال کرتا ہے‘۔ عمران خان کے اس ایک بیان سے وہ سچائی بیان ہوئی ہے جو ملک کی سیاسی قیادت کے خلاف عائد کرپشن الزامات کی حقیقت سامنے لارہی ہے۔
عمران خان بہادری کے لبادے میں چھپا ایک بزدل آدمی ہے۔ اسی لئے اس نے فوج پر ملک تباہ کرنے کا الزام لگاتے ہوئے نیب کا ذکر کیا لیکن عدلیہ کا نام نہیں لیا تاکہ کہیں انہیں توہین عدالت میں نہ دھر لیا جائے یا وہ ملک میں انتشار، بدامنی اور انارکی کے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لئے بدستور اعلیٰ عدالتوں کو سہارا بنا سکے۔ لیکن بعض حقائق نوشتہ دیوار ہیں۔ اس وقت کی سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ عمران خان ملک کی سلامتی کو لاحق سب سے بڑے خطرے کا نام ہے لیکن قومی سلامتی کے ذمہ دار ابھی تک اسے لگام دینے پر تیار نہیں ہیں۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )