6 فروری کو نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کے سابِق مرکزی جنرل سیکرٹری، سالارِ طلبہ ڈاکٹر مُشتاق احمد ایک نِجی ٹی وی چینل پر انٹرویو دے رہے تھے۔ دورانِ انٹرویو اُن پراین ایس ایف میں ہونے والی تقسیم کے حوالے سے سوالات اُٹھائے گئے، جِن کا جواب حاضرِ خِدمت ہے۔
این ایس ایف پاکستان 1956 یعنی اپنے قیام سے لے کر اب تک کی سب بڑی طلبہ تنظیم ہے۔ یہ واحد ایسی طلبہ تنظیم ہے جِس کے افکار سے نہ صِرف مشرقی اور مغربی پاکستان بلکہ برِصغیر اور کِسی حد تک تمام دنیا متاثِر ہوئی۔ اِس کی مثال یہ دی جا سکتی ہے کہ شِملہ معاہدہ ہو تو این ایس ایف سڑکوں پر، ایوب خان کے خِلاف اکتوبر تحریک ہو تو این ایس ایف سڑکوں پر، کانگو میں پیٹرس لوممبا کا قتل ہو تو این ایس ایف سڑکوں پر، جبل پور میں معصوم شہریوں کا قتل ہو تو این ایس ایف سڑکوں پر، کشمیر کے حقِ خودارادیت کا قتل ہو تو این ایس ایف سڑکوں پر، روس کا افغانستان پر یا مشرقی یورپ پر حملہ ہو تو این ایس ایف پاکستان ہی اُسے سوشل سامراجیت قرار دیتی ہے اور ذوالفقار علی بھٹو ایوب خان کی حکومت چھوڑ کر آئے تو کہا ۔۔۔۔’دنیا کے فیصلے تو واشنگٹن اور ماسکو میں ہوتے ہیں مگر پاکستان کے فیصلے ڈاؤ میڈکل کالج میں ہوتے ہیں‘ ۔
اب یہاں یہ کہنا تو غیر ضروری ہے کہ ڈاؤ میڈیکل کالج میں این ایس ایف ہی واحد مقبول طلبہ تنظیم ہے۔
اِس صورتحال میں یہ امر واضح ہے کہ سامراج اور اُس کی پروردہ پاکستانی حکومتیں ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھی تو نہیں رہ سکتی تھیں۔ اِس لیئے پہلے انہی طاقتوں نے جنہوں نے محمد علی بوگرہ کی وزارتِ عُظمیٰ کو استعمال کر کے ڈیموکریٹِک سٹوڈنٹس فیڈریشن پر پابندی لگائی، اُنہی قؤتوں نے بھٹو کو استعمال کر کے این ایس ایف کو تقسیم کرنے کی ناپاک سازشیں کیں۔ پہلے معراج محمد خان پیپلز پارٹی کے وزیر بنے۔ پارٹی نے انہیں تب بھی واپِس بلایا جب بھٹو نے 1971 میں سائٹ کراچی میں نہتے مزدوروں کو قتل کیا۔ این ایس ایف آج بھی اپنی جگہ پر قائم ہے مگر تاریخ میں معراج محمد خان کا آخری سیاسی عہدہ پی ٹی آئی کا پہلا جنرل سیکرٹری ہی لِکھا جائے گا۔ اللہ مرحوم کے درجات بلند کرے۔ دوسری مِثال امیر حیدر کاظنی کی ہے۔ سامراج کے ایجنٹوں نے امیر حیدر کاظمی کے ذریعے بھی این ایس ایف میں تقسیم کی کوشش کی اور کاظمی گروپ کی بنیاد رکھی۔ کاظمی صاحب کھلے عام اپنی آذاد خیالی کا اعتراف کرتے تھے۔ بینظیر بھُٹو کے پہلے دورِ حکومت میں صوبائی وزیرِ صحت رہے، ان پر جعلی ادویات فروخت کرنے کا سکینڈل بنا اور حضرت برطانیہ فرار ہو گئے۔ تمت بآالخیر۔ این ایس ایف آج بھی ذندہ ہے . اِس کے بعد تذکرہ ہوتا ہے صلاح الدین گنڈاپور کا۔ انہوں نے بھی یہی روش اختیار کی اور آج وہ بھی اُسی ڈھیر پر پڑے ہیں جِس پر اُن کے پیشرو وں کی سیاسی لاشیں ہیں۔ مگر این ایس ایف آج بھی ذندہ ہے۔
اِسی طرح سوار خان، قمر الزماں بٹ، محمود نواز بابر، مسعود گوندل اور کئی پیادے آئے اور گئے مگر این ایس ایف کے کیڈر پر کوئی ضرب نہ لگا سکے۔ آج بھی نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن اپنے مرکزی صدر ساحر آذاد پلیجو کی قیادت میں منظم ہے۔ پِچھلے کئی سالوں سے ہر طرح کے نامساعد حالات کے باوجود ’طلبہ یونین بحالی تحریک‘ کو ذندہ رکھے ہوئے ہے۔
8 جنوری 2019 کو بہاولنگر پولیس نے ضلعی صدر عرفان بھٹی سمیت این ایس ایف کے درجنوں کارکنان کو اس وقت گرفتار کر لیا جب وہ 8 جنوری 1953 کی یاد میں ریلی نِکالنے والے تھے۔
۳ فروری ۲۰۱۹ کو پشاور میں این ایس ایف پاکستان کے طلبہ نے مرکزی نائب صدر شہاب خان صافی کی قیادت میں، پشاور پریس کلب میں ’وینزویلہ یہکجہتی کنونشن‘ منعقد کر کے ثابت کر دیا کہ این ایس ایف پاکستان آج بھی سامراج کے خِلاف نبرد آزما ہے۔
۵ فروری کو جب تمام سامراجی قؤتیں سرکاری سرپرستی میں نام نہاد یومِ یکجتیء کشمیرمنا رہی تھیں تو این ایس ایف پاکستان لاہور پریس کلب کے سامنے ابرہیم ارمان لونی کے قتل پر مذمتی مظاہرہ کر رہی تھی۔
این ایس ایف پاکستان آج بھی منظم ہے اور ڈاکٹر رشید حسن خان کِسی نہ کِسی صُورت میں آج بھی این ایس ایف پاکستان کی صفوں میں ذندہ ہیں۔
ضرورت صرف اِس امر کی ہے کہ ہم بھی اپنی اپنی غرض کے کمبل کو اُتار پھینکیں اور این ایس ایف کے طلبہ کے ساتھ عوامی جمہوری انقلاب کے لیئے اُٹھ کھڑے ہوں۔
فیس بک کمینٹ