یورپ اور خاص طور پر برطانیہ میں آباد پاکستانی تارکین وطن کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو مالی طور پر خوشحال اور آسودہ ہونے کے بعد واپس پاکستان جاکر اپنے آبائی علاقوں سے انتخابات میں حصہ لینے اور کوئی انقلاب لانے کے خواب دیکھتی رہتی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق ملنے اور عام انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ برطانیہ میں آباد سمجھ دار پاکستانیوں کی اکثریت نہ تو اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ووٹ کا حق حاصل کرنے کی حامی ہے اور نہ ہی وہ پاکستان کے عام انتخابات میں حصہ لینے کو کوئی دانش مندانہ کام سمجھتی ہے کیونکہ موجودہ حالات میں پاکستان کے عام انتخابات میں جیتنا تو درکنار ہارنے کے لئے بھی کروڑوں روپے چاہئیں۔ جنرل الیکشن میں حصہ لینے کا استحقاق ملنے کے بعد اوورسیز پاکستانیوں کو کسی بڑی سیاسی جماعت کا ٹکٹ حاصل کرنے اور انتخابی مہم چلانے کے لئے کم از کم آٹھ کروڑ روپے کی ضرورت ہوگی مگر پھر بھی اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں ہوگی کہ وہ قومی اسمبلی کے کسی محفوظ حلقے سے کامیاب ہوجائیں گے۔ یہ وسائل اور توانائی اگر وہ برطانیہ کی سیاست کا حصہ بن کر صرف کریں تو یہ ان کے لئے زیادہ مفید ہوگا۔ بہت سے برٹش پاکستانی ماضی میں وطن عزیز جاکر قومی اور صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لینے کا تجربہ کرچکے ہیں لیکن ان کے حصے میں مایوسی کے سوا کچھ نہیں آیا۔
لندن سے ایک برٹش پاکستانی ڈاکٹر چند سال پہلے بہت سے خواب اور لمبے چوڑے منصوبے لے کر پنجاب اسمبلی کا انتخاب لڑنے گئے تھے۔ پہلی بار ناکامی ہوئی۔ دوسری بار پارٹی کا ٹکٹ خریدا اور صوبائی اسمبلی کے رکن بن گئے۔ خیال تھا کہ پارٹی انہیں پنجاب کا وزیر صحت بنا دے گی لیکن وزیر بنانا تو درکنار پارٹی کی لیڈرشپ ان سے سیدھے منہ بات تک کرنا گوارا نہیں کرتی تھی کیونکہ یہ ڈاکٹر موصوف پارٹی اور اس کی قیادت کے لئے پیسے خرچ کرنے کے معاملے میں کنجوسی سے کام لیتے تھے۔ انہیں شاید اندازہ نہیں تھا کہ اب پاکستان کی سیاست محض پیسے کی نہیں بلکہ بہت زیادہ پیسے کا کھیل بن چکی ہے۔ کئی اوورسیز پاکستانی ایسے بھی ہیں جنہوں نے قومی اور صوبائی اسمبلی کے علاوہ سینیٹ کے انتخابات میں حصہ لینے کے لئے اپنی غیرملکی شہریت بھی ترک کی اور پھر الیکشن میں ناکامی کے بعد انہیں طرح طرح کی مشکلات اور مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔
برطانیہ میں پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی جو شاخیں قائم ہیں اُن کی وجہ سے ہماری کمیونٹی پہلے ہی آپس کی کشمکش میں مبتلا رہتی ہے اور پاکستان سے آنے والے سیاستدان اور لیڈر اِن پارٹی عہدیداروں کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے اور مقاصد پورے ہونے پر نئے عہدیداروں کی طرف متوجہ ہونے لگتے ہیں یعنی جن گنّوں کارس نکل جاتا ہے اُن کو ایک طرف پھینک کراپنے مقاصد کے بیلنے میں ڈالنے کے لئے نئے رس دار گنّوں کی تلاش شروع ہوجاتی ہے۔ پاکستان کی ہر بڑی سیای جماعت اوورسیز پاکستانیوں کو بیرون ملک اپنی پارٹی کا عہدیدار بنا کر انہیں ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیتی ہے۔ ہر پاکستانی حکمران اپنے اپنے دور حکومت اوور سیز پاکستانیوں کو وطن عزیز میں سرمایہ کاری کی ترغیب دیتا ہے لیکن وہ خود اور اُن کے خاندان کے لوگ اپنا سرمایہ بیرون ملک لاتے ہیں۔ انہی تضادات کی وجہ سے بیرون ملک پاکستانیوں کا اپنے سیاستدانوں اور حکمرانوں پر سے اعتبار اُٹھ گیا ہے۔ پاکستان کے سیاستدان ہوں یا بیورو کریٹ، جج ہوں یا جرنیل وہ جب برطانیہ اور یورپ کے دوروں پر یا چھٹیاں گزارنے یہاں آتے ہیں تو ان ملکوں میں امن وامان ، ٹریفک کے انتظامات، تعلیم، انصاف، پبلک ٹرانسپورٹ اور صحت کی سہولتوں کو دیکھنے اور مشاہدہ کرنے کے بعد واپس اپنے ملک میں جاکر کوئی بہتری لانے کی بجائے وہ ریٹائرمنٹ کے بعد خو یا اپنی اولادکو کو ان ترقی یافتہ ملکوں میں ایڈجسٹ یا آباد کرنے کے لئے ہر طرح کے جتن کرتے ہیں ۔
برطانیہ اور پاکستان کے ریاست اور جمہوریت میں بنیادی فرق یہ ہے کہ یوناٹیڈ کنگڈم میں جمہوری سیاست ابھی تک پیسے کاکھیل نہیں بنی اور اس ملک کی سیاست میں کرپشن کوئی گنجائش نہیں۔ یہاں برطانوی پارلیمنٹ کا انتخاب لڑنے کے لئے امیدوار کو نہ تو کوئی جلسہ کرنا پڑتا ہے اور نہ ہی اُسے انتخابی مہم پر پیسے خرچ کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ زیادہ سے زیادہ اس کی پارٹی کارنرمیٹنگ کا اہتمام کر لیتی ہے یا کہیں امیدوار کو اپنی پارٹی کا منشور پہنچانے کے لئے ڈورٹو ڈور جانے کی ضرورت پیش آئے تو وہ بخوشی یہ کام کرتا ہے۔ باقی مہم پارٹی کے دیگر اراکین اور کارکن چلاتے ہیں۔ اسی لئے میری اُن تمام اوور سیزپاکستانیوں سے گزارش ہے کہ جو پاکستان جاکر انتخابات میں حصہ لینا اور کروڑوں روپے خرچ کرنا چاہتے ہیں، وہ برطانیہ کی سیاست میں دلچسپی لیں، پاکستان کی بجائے برطانیہ کی سیاسی جماعتوں کا حصہ بنیں کیونکہ اب اُن کا اور اُن کی اگلی جنریشن کا مستقبل اس ملک سے دابستہ ہے۔ معین قریشی اور شوکت عزیز جیسے اوور سیز پاکستانی جب وطن عزیز کے اعلیٰ ترین عہدے پر فائز رہ کر کوئی انقلاب نہیں لاسکے تو محض پاکستان کے انتخاب میں حصہ لینے سے کچھ حاصل وصول نہیں ہوگا، صرف آپ کے وسائل اور توانائی ضائع ہوگی۔ پاکستان کے ذرائع ابلاغ کے سرکردہ لوگ سیاستدان اور دانشور اوور سیز پاکستانیوں کی دوہری شہریت کو دوسری ولدیت قرار دیتے رہے ہیں۔ ان حالات میں پاکستان جاکر انتخابات میں حصہ لینا، کامیاب ہونا اور کسی تبدیلی کے خواب دیکھنا محض اپنے آپ کو فریب دینے کے مترادف ہے۔ پاکستان میں ہر شعبے کا ایک سے ایک ذہین اور ماہر شخص موجود ہے اگر وہ پاکستان کے حالات کو تبدیل نہیں کرسکے یاتبدیل کرنا نہیں چاہتے تو ہمیں اسلامی جمہوریہ پاکستان سے زیادہ اُن ملکوں کی فکر کرنی چاہئے جہاں ہم اپنے خاندانوں کے ساتھ رہ رہے ہیں اور یہاں کی تمام سہولتوں سے استفادہ کررہے ہیں۔ برطانیہ میں سیاست اور جمہوریت کا راستہ بہت آسان اور سیدھا ہے۔ آج ہمارے جودرجنوں پاکستانی برطانیہ میں کونسلرز، میئر اور رکن برطانوی پارلیمنٹ ہیں یا لندن کے جومئیر ہیں، وہ محض اپنی سیاسی اہلیت اور قابلیت کی بنیاد پر منتخب ہوئے ہیں ۔برطانیہ میں سیاسی تربیت اور پولیٹکل کمٹمنٹ ہی سیاستدانوں کے لئے آگے بڑھنے کا بنیادی معیار ہے۔ یہاں یہ نہیں دیکھا جاتا کہ بلی کالے رنگ کی ہے یا سفید، یہ پرکھا جاتا ہے کہ وہ چو ہے پکڑ سکتی ہے یا نہیں ۔
فیس بک کمینٹ