یونائیٹڈ کنگڈم یعنی برطانیہ چارانتظامی یونٹس انگلینڈ ، ویلز ، سکاٹ لینڈ اور شمالی آئر لینڈ پر مشتمل ایک ملک ہے پورے ملک میں408لوکل کونسلز کا ایک منظم اور فعال نظام قائم ہے جن کی حیثیت لوکل گورنمنٹ یعنی مقامی حکومت کی ہے ان میں26کاؤنٹی کونسلز،192 ڈسٹرکٹ کاونسلز اور190 یونیٹری کونسلز شامل ہیں۔ ان کونسلز کے بیس ہزار چھ سو سینتالیس(20647 )منتخب کونسلرز مقامی حکومتوں کی پالیسیز ترتیب دینے اور ان کا نظام چلانے میں کلیدی کردارادا کرتے ہیں جبکہ ان اداروں میں ماہرین اور ملازمین کی بڑی تعداد بھی ان منتخب نمائندوں کی معاونت کے لیے موجود ہوتی ہے ۔ لوکل کونسلز کی آمدنی کا بڑا ذریعہ کونسل ٹیکس کی وصولی، عمارتوں کے کرائے، پارکنگ پرمٹس اور سپورٹس سینٹرز سے حاصل ہونے والی رقم ہوتی ہے جبکہ یہ مقامی حکومتیں اپنی اپنی حدود میں تعلیم، ہاؤسنگ، سوشل سروسز، ٹریڈنگ سٹینڈرڈ، ماحولیات، بے گھروں کو رہائش کی فراہمی اور بے روزگاروں کی مالی معاونت،پلاننگ ( عمارتوں کی تعمیر کی اجازت وغیرہ)، پبلک ہیلتھ اینڈ سیفٹی ، کنزیومر پروٹیکشن، اکنامک ڈویلپمنٹ، گرانٹس، ایمرجنسی پلاننگ، پارکس ، فٹ پاتھس، سٹریٹ لائٹس، سڑکوں ، درختوں کی دیکھ بھال، ری سائیکلنگ، صفائی ، ویسٹ اینڈربس کلیکشن(Waste and rubbish Collectio )، پیدائش ، اموات اور شادی کی رجسٹریشن وغیرہ اور دیگر امور کی ذمہ دار ہوتی ہیں اور ان معاملات کو خوش اسلوبی سے چلانے کے لیے کسی معمولی سی بات کو بھی نظر انداز نہیں کرتیں، یہاں تک کہ اگر کسی کو اپنے ہمسائے کے شور شرابے کی شکایت ہو یا کوئی شخص کوڑا ڈسٹ بن کے باہر پھینکے اور کوئی اس کی شکایت کر دے تو یہ کونسلز فوراً اس کا نوٹس لیتی ہیں۔ اعداد وشمار کے مطابق گزشتہ برس برطانیہ بھر میں ان مقامی کونسلز نے ساڑھے تینتیس بلین پاؤنڈز کی خطیر رقم تعلیم،15.6 بلین پاؤنڈ سوشل کیئر،8.3 بلین پاؤنڈز کلچرل ، ماحولیات اور پلاننگ سروسز جبکہ4.2 بلین پاؤنڈز ہائی ویز اور ٹرانسپورٹ کی مد میں خرچ کیے گئے۔ ( اگرچہ اب تعلیم کی مد میں خرچ کی جانے والی رقم مختلف تعلیمی بورڈ کے ذریعے صرف کرنے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے)۔برطانیہ کی یہ چار سو آٹھ لوکل کونسلز یا مقامی حکومتیں اپنے اخراجات کی تقریباً50فیصد رقم اپنی آمدنی سے اور باقی پچاس فیصد رقم حکومت کی طرف سے ملنے والی گرانٹ سے حاصل کرتی ہیں۔
اس ملک کے طول و عرض میں بیشتر ترقیاتی اور فلاحی کام انہی لوکل کونسلز کے ذریعے سے ہوتے ہیں۔ برطانوی اراکین پارلیمنٹ اور کونسلرز کو نہ تو کسی قسم کے ترقیاتی منصوبے کے لیے گرانٹ دی جاتی ہے اور نہ ہی اُن کے کسی قسم کے صوابدیدی اختیارات ہوتے ہیں۔ صرف برطانیہ ہی نہیں بلکہ پورے یورپ کے ترقی یافتہ اور خوشحال ملکوں میں مقامی حکومتوں کا ملتا جلتا نظام قائم ہے۔ اراکین پارلیمنٹ کا کام صرف قانون سازی اور اپنے اپنے پارلیمانی حلقے کے لوگوں کے مسائل کی طرف توجہ دینا ہے۔ جیسا کہ میں نے ابتدا میں نشاندہی کی ہے کہ لوکل کونسلز کی آمدنی کا بڑا ذریعہ کونسل ٹیکس ہوتا ہے جس کسی کونسل میں جتنے زیادہ بڑے اور قیمتی گھر اور جتنے زیادہ کاروباری مراکز ہوں گے اس کونسل کو اتنا ہی زیادہ کونسل ٹیکس موصول ہوگا اور اس کونسل کے علاقے میں ترقی اور خوشحالی کا معیار دوسری کونسلز کے مقابلے میں بہتر ہوگا۔ برطانیہ میں جو رقم ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کی جاتی ہے اس میں کسی قسم کی کرپشن، ہیرا پھیری یا کمیشن کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی اور نہ ہی ترقیاتی کاموں کے معیار پر کسی قسم کا سمجھوتہ کیا جاتا ہے اگر کوئی مقامی کونسل کوئی نیا سپورٹس سنٹر تعمیر کرتی ہے یا کوئی پارک بناتی ہے تو اس کی تکمیل کے بعد اُسے حالات کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑتی بلکہ اس کی مسلسل دیکھ بھال اور حفاظت کے لیے خصوصی اہتمام کرتی ہے یہی وجہ ہے کہ یہاں ہر نیا ترقیاتی منصوبہ لوگوں کے لیے سہولتوں اور آسانی میں اضافہ کرتا ہے۔ یونائیٹڈ کنگڈم کی ترقی اور خوشحالی میں ان لوکل کونسلز یعنی مقامی حکومتوں کا کردار بہت موثر اور اہم ہے ۔میں جب ان حالات کا موازنہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے لوکل گورنمنٹ کے نظام سے کرتا ہوں تو مجھے بڑی حیرانی ہوتی ہے کہ وطن عزیز میں ترقیاتی منصوبوں کو صوبائی اور قومی اسمبلی کے اراکین کی گرانٹ سے مشروط کر کے معاملات کو دانستہ پیچیدہ اور دشوار بنایا جاتا ہے اور کرپشن کے لیے گنجائش پیدا کی جاتی ہے۔ پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں جس طرح ضلعی حکومتوں کے نظام کو فعال بنایا گیا تھا اس کے بہت مثبت نتائج نکلنا شروع ہوگئے تھے مگر اس کے بعد آنے والی سیاسی اور جمہوری حکومتوں نے دعوے اور وعدے تو بہت کئے مگر کسی بھی حکمران نے ضلعی یا مقامی حکومتوں کے نظام کو آگے نہیں بڑھایا شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں صوبائی اور قومی اسمبلی کے اراکین ترقیاتی منصوبوں کے بجٹ یا گرانٹ کو اپنے پارلیمانی حلقوں میں اپنی مرضی کے مطابق خرچ کرنا چاہتے ہیں اسی لئے وہ ضلعی حکومتوں کے نظام کو اپنے ارادوں کے رستے میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ یہ کس قدر تلخ حقیقت ہے کہ پارلیمانی جمہوریت ہو یا مقامی حکومتوں کا نظام جب یہ مغربی ممالک میں رائج اور نافذ العمل ہوتا ہے تو اس کے نتیجے میں ملک ترقی کرتے ہیں اور معاشرے خوشحال ہو جاتے ہیں مگر جب یہی جمہوریت اور مقامی حکومتوں کا نظام پاکستان میں آزمایا جاتا ہے تو ملک میں ترقی اور خوشحالی کی بجائے کرپشن، بدحالی، افراتفری اور مایوسی فروغ پاتی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ایک خاص طبقے یا چند مخصوص طبقات نے پاکستان میں جمہور ی اور لوکل گورنمنٹ کے نظام کو یرغمال بنا رکھا ہے اور وہ اس کے ذریعے اپنے مخصوص مفادات کی تکمیل کے لیے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکتے اور انہیں بے وقوف بنانے کے لیے ہر حربہ استعمال کرتے ہیں۔مغربی جمہوریت اور برطانوی معاشرے میں واقعی طاقت کا اصل سرچشمہ عوام ہیں اس ملک میں سیاستدان خواہ کتنے ہی چالاک اور عیار ہو جائیں وہ اتنی آسانی سے عوام کو بے وقوف نہیں بنا سکتے جتنی سہولت سے تیسری دنیا کے سیاست دان اپنے ملکوں کے عوام کو سبز باغ دکھاتے ہیں۔
پاکستان کے عوام اس مغالطے میں مبتلا ہیں کہ حکمران اور سیاستدان ملکوں اور قومی کی تقدیر بدلتے یا کوئی تبدیلی لے کر آتے ہیں حالانکہ کسی ملک اور قوم کی تقدیر اس وقت بدلتی ہے جب عوام خود کو تبدیل کریں۔ افراد کے ہاتھوں میں ہی اقوام کی تقدیر ہوتی ہے اور ہر فرد اپنی ملت کے مقدر کا ستارہ ہوتا ہے۔ گزشتہ سات دہائیوں میں جن حکمرانوں اور سیاستدانوں نے ملک و قوم کو اس حال تک پہنچایا ہے اُن سے توقع نہ رکھی جائے کہ وہ کسی مثبت تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوں گے جو لوگ پاکستانی قوم کو مسائل اور مشکلات کی دلدل میں دھکیلنے کے ذمہ دار ہیں وہ کبھی اس ملک کے عوام کو پسماندگی کی کھائی سے نہیں نکالیں گے۔ پاکستان کو بدلنا ہے تو عوام الناس خود کو بدلیں اپنے آپ کو صاف ستھرا رکھیں اپنے گھر اور گلی کو صاف رکھیں تو پورا ملک صاف ستھرا ہو جائے گا، آپ خود سچ بولیں اور دیانت داری کو اپنا شعار بنائیں تو پورا ملک جھوٹ اور بدنیتی سے پاک ہونا شروع ہو جائے گا۔پاکستان کے عوام تعلیم کی کمی کے باوجود اس حد تک باشعور ہیں کہ اچھے اور برے یا روشنی اور اندھیرے میں تمیز کرسکتے اصلی اور نقلی کا فرق پہچان سکتے ہیں۔ تاریخ اس حقیقت کی شاہد ہے کہ دنیا کے کسی بھی ترقی یافتہ ملک میں اس وقت تبدیلی اور خوشحالی کا سورج طلوع ہونا شروع ہوا جب وہاں کے عوام نے خود کو تبدیل کیا۔ اگر عوام، سچے ، کھرے، دیانتدار اور ملک و قوم کے مفاد کو اپنی پہلی ترجیح سمجھنے والے ہوں گے تو اُن کے اندر سے قیادتیں ویسی ہی جنم لیں گی۔ یورپ یا مغرب کی ترقی اور خوشحالی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہاں عوام الناس کی اکثریت جھوٹ نہیں بولتی، ملاوٹ نہیں کرتی، وعدہ خلافی نہیں کرتی، بناوٹ اور دکھاوے سے گریز کرتی ہے ، وقت کی پابندی کرتی ہے ، بلاجواز کسی کی ٹوہ میں نہیں رہتی، اپنے کام سے کام رکھتی ہے، امانت میں خیانت نہیں کرتی، جانوروں تک کے حقوق کا خیال رکھتی ہے۔ آپ خود غور کریں کہ اگر عوام کی اکثریت ایسی ہوگی تو اُن میں سے آگے آنے والی قیادت میں بھی ایسی ہی خوبیاں ہوں گی۔ افسوس ہمارے لوگوں کی اکثریت کی نفسیات ایسی ہوگئی ہے کہ وہ خودکو ٹھیک نہیں کرتے لیکن چاہتے ہیں ان کا معاشرہ اور ملک ٹھیک ہو جائے یعنی ہم خود اچھے بننے کی بجائے صرف دوسروں سے اچھائی کی توقع لگائے رکھتے ہیں۔ افراد اچھے ہونا شروع ہو جائیں تو چراغ سے چراغ جلتا ہے۔ افراد کے سدھرنے سے گلی محلہ شہر اور ملک سنورتا ہے ، ادارے ٹھیک ہو جاتے ہیں اور قوم کو اچھی قیادت میسر آنا شروع ہو جاتی ہے۔ دیانت دار اور مخلص قومیں ہی دیانت دار اور مخلص قیادتوں کو جنم دیتی ہیں کرپٹ قوموں کی قیادت اور رہنمائی کے لئے خالقِ کائنات آسمانوں سے فرشتے نہیں بھیجتا اُن میں سے ہی اُن جیسے حکمران اُن کے سروں پر مسلط کردیتا ہے۔
فیس بک کمینٹ