یہ ان دنوں کی بات ہے جب ٹونی بلیئربرطانیہ کے وزیر اعظم تھے۔ جولائی2005ء میں برطانوی حکومت نے انسداد دہشت گردی کے قانون میں اصلاحات یعنی ریفارمز سے ذرائع ابلاغ کو آگاہ کرنے کے لئے ایک پریس بریفنگ کا اہتمام کیا۔10ڈاؤننگ سٹریٹ میں ہونے والی اس بریفنگ میں روزنامہ جنگ لندن کے علی کیانی کے علاوہ مجھے بھی بلایا گیا ۔ میں اُن دنوں لندن سے شائع ہونے والے ایک اخبار کا ایڈیٹر تھا۔ ٹونی بلیئر نے ایک گھنٹے طویل پریس بریفنگ کے بعد صحافیوں کے سوالات کا سامنا بھی کیا۔ سی این این، بی بی سی اور سکائی نیوز جیسے نیوز چینلز سے لے کر گارڈین، ٹائمز، میل اور مرر جیسے روزنامہ اخبارات سمیت میڈیا کے درجنوں نمائندے اور رپورٹرز 10ڈاؤننگ سٹریٹ میں دن کے وقت ہونے والی اس بریفنگ میں موجود تھے۔ میرا خیال تھا کہ شام کے ٹی وی خبرنامے اور اگلے دن کے اخبارات ٹونی بلیئر کی اس پریس کانفرنس کی تفصیلات سے بھرے ہوں لیکن میرے لیے یہ بڑی حیرانی کی بات تھی کہ کسی بڑے ٹی وی چینل نے ٹونی بلیئر کی بریفنگ کو مرکزی خبر کے طورپر نشر نہیں کیا اور نہ ہی کسی اخبار نے برطانوی وزیر اعظم کے کسی بیان کو ہیڈ لائن یعنی شہ سرخی کے طور پر شائع کیا۔ ٹی وی چینلز اور اخبارات نے محض انسداد دہشت گردی کی ریفارمز کو ایک ضمنی خبر کے طور پر نشر اور شائع کیا۔
اسی طرح جنوری2008ء میں پاکستان کے صدر پرویز مشرف لندن آئے تو اس وقت گورڈن براؤن برطانوی وزیر اعظم تھے۔10ڈاؤننگ سٹریٹ میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس کا اہتمام کیا گیااور اخبارات کے نمائندے اس کانفرنس میں شریک تھے۔مجھے بھی اس موقع پر ایک سوال کرنے کا موقع ملا۔ اس بار بھی اچنبھے کی بات یہ تھی کہ کسی ٹی وی چینل یا اخبار نے دو ممالک کے سربراہان کی مشترکہ پریس کانفرنس کی ہیڈ لائنزنشر یا شائع نہیں کیں۔ محض ایک معمولی خبر کے طور پر اس کی تشہیر کی گئی۔ ان دو اہم واقعات کا حوالہ دینے کا مقصد صرف اس حقیقت کو واضح کرنا ہے کہ برطانی ذرائع ابلاغ کی ترجیحات کیا ہیں۔اگراس طرح کی پریس کانفرنس یا پریس بریفنگ پاکستان کے وزیر اعظم ہاؤس یا ایوان صدر میں ہوئی ہوتیں تو ہمارے ٹی وی چینلز ان کی ہیڈ لائنز بناکر دن بھر ڈھنڈورا پیٹتے رہتے اور اخبارات ایسی پریس بریفنگ کی جزئیات سے بھرے رہتے۔
برطانیہ کے ٹی وی چینلز ہوں یا اخبارات وہ سیاسی بیان بازی یا سیاسی پریس بریفنگ سے زیادہ پبلک انٹرسٹ یعنی عوامی دلچسپی کے امور کو پہلی ترجیح دیتے ہیں۔ یہاں کے عوام، سیاسی بیانات میں نہ ہونے کے برابر دلچسپی لیتے ہیں انھیں بیان بازوں اور دعووں سے زیادہ سیاست دانوں کی کارکردگی اور حکومتوں کی کارگزاری سے دلچسپی ہوتی ہے جس کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ برطانیہ میں شرح خواندگی100فیصد ہے۔ ظاہر ہے کہ پڑھے لکھے اور جاہل یا کم پڑھے لکھے کی سوچ اور اپروچ میں بہت واضح فرق ہوتا ہے۔ اسی طرح پڑھے لکھے ملکوں اور کم پڑھے لکھے معاشرے یا ممالک نے صحافیوں کی سوچ اور ترجیحات میں بھی واضح فرق کا ہونا ایک فطری تقاضا ہے ۔ برطانیہ میں لوگوں کی اکثریت اپنے لیے پیشوں اور شعبوں کا انتخاب اپنی مرضی اور رحجان کے مطابق کرتی ہے یہاں سکول اورکالج کی تعلیم کے دوران ہی بچوں کے رحجان اور دلچسپی کے پیش نظر ان شعبوں اور پیشوں کو اختیار کرنے کے لیے رہنمائی اور تربیت فراہم کرنا شروع کر دی جاتی ہے جس سے اُن کا زندگی بھر تعلق قائم ہونا ہوتا ہے۔ برطانیہ میں کوئی بھی شخص میڈیا یعنی ذرائع ابلاغ کو اس وقت تک اپنا پیشہ نہیں بناتا جب تک اسے اس شعبے میں دلچسپی نہ ہو اور اس کی خاطر تربیت اور تعلیم کا مرحلہ طے نہ ہوا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ برطانوی صحافی خواہ وہ کسی اخبار یا میگزین سے وابستہ ہوں یا کسی ٹی وی چینل کے لیے کام کررہے ہوں ، تعلیم اور تربیت کے مراحل طے کر کے اسے اپنا ذریعہ روزگار بناتے ہیں اور پھر برطانیہ میں صحافیوں کے لیے معاوضے اور تنخواہوں کے پیکیج انتہائی شاندار ہیں۔
رپورٹر، کیمرہ میں، اینکر اور ایڈیٹر کے علاوہ دیگر شعبوں میں کام کرنے والے صحافیوں کو بہت معقول تنخواہیں اورمراعات دی جاتی ہیں جن کی وجہ سے انہیں کوئی اور کام کرنے یا کسی اور طرف دھیان دینے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ اسی لئے برطانیہ میں صحافت ایک بہت معتبر پیشہ ہے اس ملک میں اگر کوئی صحافی شراب پی کر گاڑی چلاتا ہوا پکڑا جائے تو عدالت اسے زیادہ سے زیادہ سزا دیتی ہے کہ وہ شخص جو قانون اور ضابطے توڑنے پر دوسروں کی خبر لیتا ہے اگر وہ خود یہ کام کرے تو اُسے زیادہ سے زیادہ سزا ہی دی جانی چاہئے۔برطانیہ میں صحافیوں کے حقوق کی پاسداری کے لیے ایک ادارہ نیشنل یونین آف جرنلسٹس (این یوجے) ہے جو انتہائی مؤثر اور فعال یونین ہے برطانیہ کے بیشتر صحافی اس کے رکن ہیں۔ این یو جے ہر معاملے میں یہاں کے صحافیوں کی قانونی اور پیشہ ورانہ مدد کرتا ہے اسی طرح ایک ادارہ پریس کمپلینٹس کمیشن کے نام سے قائم ہے ۔ اگر کسی شخص ، گروپ، کمپنی یا شعبے کو کسی اخبار، رسالے یا ٹی وی چینل سے شکایت ہو تو یہ کمیشن اس کا فوری نوٹس لے کر قانون اور ضابطے کے مطابق اس شکایت کا ازالہ کرنے میں شکایت کنند ہ کی مدد اور معاونت کرتا ہے۔
ساڑھے چھ کروڑ آبادی پر مشتمل برطانیہ میں7سو سے زیادہ ٹی وی چینلزاور میڈیا ہاؤسز موجود ہیں جو اخبارات اور میگزین شائع کرتے ہیں۔ ان ٹی وی چینلز، میڈیا ہاؤسز اور اخبارات و میگزینز سے وابستہ صحافیوں کو نہ صرف اپنی حدود و قیود معلوم ہیں بلکہ انہیں اس ملک میں بسنے والے عوام کی دلچسپیوں اور ترجیحات کا پوری طرح اندازہ ہے۔ برطانیہ کے اخبارات میں جو انگریزی زبان لکھی جاتی ہے اور ٹی وی چینلز پر جو انگریزی زبان بولی جاتی ہے وہ اتنی عمدہ اور شاندار ہوتی ہے کہ پڑھنے اور سننے والوں کو فوراً اندازہ ہو جاتا ہے کہ برطانوی صحافی اپنی صحافتی زبان میں انگریزی کے معیار اور وقار کا کتنا خیال رکھتے ہیں اور یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ جب صحافی پیشہ ورانہ تربیت کے بعد اپنے لئے صحافت کے شعبے کا انتخاب کرتا ہے اس ملک میں کوئی بھی شخص منہ اٹھا کر صحافی نہیں بنتا۔ صحافت ایک پیشہ ہے اور اس کے لئے پیشہ ورانہ تربیت نا گزیر ہے خاص طور پر رپورٹرز کے لئے معیار بہت اونچا ہے کیونکہ رپورٹرز ہی کسی اخبار یا ٹی وی چینل کا چہرہ ہوتے ہیں ان کے ذریعے سے ہی زبان کے معیا راور معلومات کا ابلاغ ہوتا ہے اور خاص طور پر انوسٹی گیٹو رپورٹر یعنی تحقیقی رپورٹر پر دوہری ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ حقائق اور دستاویزی شواہد کی بنیاد پر خبروں کو رپورٹ کرے کیونکہ برطانیہ میں ثبوت کے بغیر کسی کی پگڑی اچھانے (محاورتاً) یعنی کسی کی ساکھ کو نقصان پہنچانے پر اخبارات اور ٹی وی چینلز کو بہت بھاری خمیازے بھگتنے پڑتے ہیں۔
مجھے یاد ہے کہ پنجاب کے موجودہ گورنر چوہدری محمد سرور جب برطانیہ میں پہلی بار برطانوی پارلیمنٹ کے رکن بنے تھے تو ایک برطانوی میڈیا گروپ کے اخبارات اور چینلز نے اُن کے خلاف ایک مہم شروع کی تاکہ برطانوی پارلیمنٹ میں پہلے مسلمان رکن کی ساکھ خراب کی جا سکے۔ چوہدری محمد سرور نے اس میڈیا گروپ کی مہم کے خلاف عدالت سے رجوع کیا اور یہ گروپ عدالت میں اُن کے خلاف مہم کے شواہد اور ثبوت نہ پیش کر سکا جس پر اُسے ہرجانے کے طور پر بڑی رقم ادا کرنی پڑی۔ برطانیہ میں میڈیا یعنی ذرائع ابلاغ کو مکمل آزادی حاصل ہے لیکن قانون اور انصاف سے کوئی بالا تر نہیں۔ برطانیہ میں سیاستدان ہوں یا کسی اورشعبے کے لوگ وہ میڈیا اور قانون کے خوف سے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہیں اور ضابطوں کی پاسداری کرتے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس ملک میں میڈیا مادرپدر آزاد ہے۔ برطانوی میڈیا، پاکستانی ذرائع ابلاغ کی طرح صرف سیاستدانوں کے گرد نہیں گھومتا، پاکستان میں ٹی وی چینلز کے خبرناموں، ٹاک شوز کے علاوہ اخبارات کے صفحہ اول پر جتنی کوریج سیاستدانوں کو دی جاتی ہے برطانوی میڈیا میں اس کا تصور بھی ممکن نہیں ہے۔ پبلک انٹرسٹ یعنی عوامی مفاد برطانوی میڈیا کی پہلی ترجیح ہوتی ہے۔
اللہ کرے پاکستانی میڈیا کی پہلی ترجیح بھی عوامی مفاد بن جائے اور یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہو گا جب وطن عزیز میں صحافیوں کی پیشہ ورانہ تربیت کے معیار کو بہتر بنایا جائے گا اور صحافیوں سے بیگار یعنی مفت کام لینے کی بدعت ختم ہو گی۔اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جس طرح حزب اختلاف کے احتجاجی جلسے جلوسوں اور بیانات کے علاوہ حکومتی اجلاسوں، وزرا کے جھوٹے دعوؤں اور وعدوں کو الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں کوریج دی جاتی ہے، آرمی چیف، چیف جسٹس اور دیگر ججز کے بیانات اور مصروفیات کی تشہیر کی جاتی ہے برطانوی میڈیا میں اس طرح کی صحافت کا تصور بھی ممکن نہیں ۔اگر پاکستان میں عوام کی سوچ بدلنی ہے تو ذرائع ابلاغ کو اپنی ترجیحات کے معیار بھی بدلنے ہوں گے۔ ترقی یافتہ معاشروں اور ملکوں میں اس لئے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کا اعتبار آج بھی قائم ہے کیونکہ وہ سیاستدانوں اور حکمرانوں کے مفاد سے زیادہ عوام کے مفاد کو ترجیح دیتے ہیں اور عوام بھی ذرائع ابلاغ کو اپنی آواز اور ملک و قوم کے مفاد کا ضامن سمجھتے ہیں۔ پاکستان میں جن سیاستدانوں کو دن رات اتنی کوریج ملتی اور پذیرائی کی جاتی ہے اُن کے بارے میں عام لوگوں کا خیال ہے کہ اگر یہ سیاستدان سچ بھی بولنا شروع کر دیں تو پھر بھی لوگ انہیں سیاستدان ہی کہیں گے۔
( بشکریہ : اخبار ِجہاں )
فیس بک کمینٹ