انسان نے جب سے اس روئے زمین پر قدم رکھا ہے تب سے اُس کی ہجرت کا سلسلہ جاری ہے۔ کبھی یہ ہجرت تلاشِ رزق کے لیے کی گئی اور کبھی پناہ اور تحفظ کے حصول کے لیے۔ ایک بستی سے دوسری بستی، ایک شہر سے دوسرے شہراور ایک ملک سے دوسرے ملک تک ہجرتوں کا یہ سلسلہ اس وقت تک یونہی چلتا رہے گا جب تک یہ دنیا قائم ہے۔ ہجرتوں کے اس سفر میں انسانی تہذیب و ثقافت، رسم و رواج، عقائد اور زبان نے اپنی ارتقائی منزلیں طے کر کے ایک دوسرے کو سمجھنے کی راہیں ہموار کیں۔ اجنبیت اور بے خبری کی رکاوٹوں کو مسمار کیا۔ ٹیکنالوجی کی ترقی نے فاصلوں کو سمیت اور لاعلمی کے جوازکو لپیٹ دیا ہے مگر اب بھی طاقتور ملکوں کی کمزور ملکوں میں جنگی جارحیت کی وجہ سے لاکھوں لوگ ہجرت پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
اس وقت پوری دنیا میں دو کروڑ ساٹھ لاکھ افراد مہاجر یا پناہ گزین کے طور پر مختلف ملکوں میں مقیم ہیں جبکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان سولہ لاکھ مہاجرین کو پناہ دیے ہوئے ہے جن میں اکثریت کا تعلق ہمسایہ ملک افغانستان سے ہے۔افغانستان ہو یا شام، لیبیا ہو یا عراق،لاکھوں مظلوم دربدر ہو کر دنیا کے مختلف ممالک میں آباد ہیں، ایسے مہاجرین کو پناہ دینے والے ممالک میں برطانیہ ایک اہم ملک ہے۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر فار ریفیوجیز کی رپورٹ کے مطابق 2018 ء تک برطانیہ میں ایک لاکھ ستائیس ہزار سے زیادہ لوگ ریفیوجیز یعنی پناہ گزین کے طور پر مقیم تھے جبکہ شام کے6.7ملین مہاجرین میں سے4.6 ملین کو ترکی نے پناہ دی۔ سوویت یونین کی افغانستان پر جارحیت کے بعد لاکھوں افغان مہاجرین نے پاکستان اور ہزاروں نے برطانیہ اور یورپ میں پناہ حاصل کی۔ اسی طرح جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کی سختیوں کے باعث پاکستان پیپلز پارٹی کے ہزاروں کارکن اور عہدیدار برطانیہ اور یورپ میں سیاسی پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔
یونائیٹڈ کنگڈم صرف مظلوم مہاجرین کو ہی نہیں بلکہ دنیا بھر سے حزبِ اختلاف کی سیاسی قیادتوں کو پناہ دینے کے معاملے میں بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ درجنوں ممالک کی سیاسی قیادتیں جلا وطنی اختیار کر کے برطانیہ اور خاص طور پر لندن میں مقیم رہیں اور اب بھی بہت سے سیاستدان برطانیہ میں پناہ گزین ہیں۔
لندن دنیا کا صرف اہم معاشی مرکز ہی نہیں بلکہ اہم سیاسی گڑھ بھی ہے۔ ہندوستان کی تقسیم سے پہلے بھی برطانوی دارالحکومت سیاسی فیصلوں کا محور تھا اور آج بھی یہ شہر سیاسی گہماگہمی کی آماجگاہ ہے۔ بانیئ پاکستان محمد علی جناح سے لے کر اسلامی جمہوریہ پاکستان کی موجودہ سیاسی قیادتوں تک لندن کو ایک خاص سیاسی اہمیت حاصل رہی ہے۔ بے نظیر بھٹو، نواز شریف اور شہباز شریف نے اپنی جلاوطنی کا زیادہ عرصہ لندن میں گزارا۔ پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں حزبِ اختلاف کی اے پی سی اور پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان میثاقِ جمہوریت اسی شہر میں طے پایا اور اب الطاف حسین کی طرح نواز شریف بھی لندن سے ویڈیو لنک پر خطاب کرنے لگے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے زیر عتاب رہنما جہانگیر ترین بھی لندن میں مقیم ہیں اور سیاسی جوڑ توڑ کا خاموشی سے تماشا دیکھ رہے ہیں۔
آخر کیا وجہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی قیادتیں لندن کو ہی اپنے لیے محفوظ پناہ گاہ سمجھتی ہیں؟ اس کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ برطانوی دارالحکومت ایک ملٹی کلچرل اور پُرامن شہر ہے۔ یہاں آنے والے سیاست دانوں کو دنیا بھر کے بہترین کھانوں، علاج معالجے، شاپنگ اور موج میلے کے لیے ہر طرح کی سہولت میسر آ جاتی ہے۔ اس کے علاوہ بہت سے سادہ لوح اوور سیز پاکستانیوں نے لندن میں پاکستانیوں کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں کی شاخیں قائم کر رکھی ہیں اور ان شاخوں کے عہدیدار پاکستان سے آنے والے لیڈرز اور سیاستدانوں کا استقبال،خاطر مدارت اور میزبانی کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کوشش کرتے ہیں اور جو عہدیدار مالدار ہیں، وہ پاکستانی سیاست دانوں کے اچھے ہوٹلز یا اپارٹمنٹس میں قیام، ٹرانسپورٹ کی فراہمی اور خریداری کروانے کے حقدار یا سزاوار سمجھے جاتے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ نام و نمود کی حسرت کے مارے جو بے چارے اوورسیز پاکستانی ان سیاستدانوں کے لیے جتنے بڑے پیمانے پر ”میزبانی کے تقاضے“پورے کرتے ہیں، انہیں پارٹی کی اوورسیز برانچ میں اتنی زیادہ اہمیت اور اتنا بڑا عہدہ دیا جاتا ہے اور پھر اس عہدے پر برقرار رہنے کے لیے انہیں ہمہ وقت پارٹی لیڈر شپ کی خوشنودی اور خدمت کے لیے تیار رہنا پڑتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو جنگ لندن میں ہمارے صحافی ساتھی ”فرقہ تصویریہ“ کہتے ہیں۔ اس فرقے کے لوگ اپنی پارٹی کے بڑے بڑے قائدین کے ساتھ تصویریں بنوا کر پہلے اخبارات میں چھپوانے کے لیے ہر طرح کے جتن کرتے تھے اور اب فوری فیس بک پر لگا دیتے ہیں یا وٹس ایپ کے ذریعے حاسدوں کو تبصرے کے لیے بھیج دیتے ہیں اور پھر ان تصاویر کو فریم کروا کر اپنے ڈرائنگ روم کی زینت بنا دیتے ہیں تاکہ ہر آتے جاتے کی نظر اس پر پڑے حالانکہ ان لیڈرز کو اپنے ساتھ تصویریں بنوانے والے”کرم فرماؤں“کی شکلیں اورنام تک یاد نہیں رہتے۔
ایسے ہی خدمت گاروں کی وجہ سے پارٹی لیڈرز بار بار لندن کا رُخ کرتے ہیں اور لندن میں دستیاب ایسی ہی خدمتوں اور سہولتوں کی وجہ سے نواز شریف، الطاف حسین، اسحاق ڈار، حسن نواز اورجہانگیر ترین وغیرہ کا واپس اپنے وطن جانے کو دل نہیں کرتا۔ ویسے بھی لندن اب تو لاہور، اسلام آبادیا کراچی سے سات گھنٹے کی دوری پر ہے۔یہاں آزادیئ اظہار سے کاروبار تک ہر طرح کی سہولت بڑی آسانی سے میسر ہے۔ اب تو منی لانڈرنگ کے ضابطے سخت ہونے کی وجہ سے یہاں سرمایہ کاری یا انوسٹمنٹ کرنے والوں سے رقم یا منی ٹریل کی پڑتال کی جاتی ہے لیکن جس وقت حسن اور حسین نواز نے لندن میں سرمایہ کاری کی تھی، اس وقت برطانیہ میں منی لانڈرنگ کے قوانین اس قدر سخت نہیں تھے اور اس زمانے میں صرف نواز شریف کے بیٹوں نے ہی نہیں بلکہ پاکستان کے بہت سے بڑے بڑے کرپٹ سرکاری عہدیداروں اور اُن کے خاندان کے لوگوں اور سیاستدانوں کے علاوہ پاکستان کے ٹیکس چور اور ٹیکس خور تاجروں نے لندن اور برطانیہ میں جائیدادیں خریدیں اور مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کی۔ ایسے لوگوں کی تعداد سیکڑوں میں نہیں ہزاروں میں ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو پاکستان میں حالات خراب ہوتے ہی لندن کا رخ کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنی ریٹائرمنٹ اور محفوظ مستقبل کے لیے لندن میں پہلے ہی انتظامات کر رکھے ہیں اگر کوئی صحافی تحقیق کر کے یہ حقائق منظر عام پر لائے کہ ہمارے کتنے بڑے بڑے سرکاری عہدیداروں (بشمول فوج کے اعلیٰ افسران) سیاستدانوں اور ٹیکس چور تاجروں نے برطانیہ اور دیگر ممالک میں اپنے یا اپنے خاندان کے افراد کے نام پر جائیدادیں خرید رکھی ہیں یا سرمایہ کاری کررکھی ہے تو ہماری قوم کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں گی کہ ہم جنہیں اپنا رہنما اور خیرخواہ سمجھتے ہیں ان کی مثال ان مرغیوں کی سی ہے جو انڈے کسی اور کے گھر میں جاکر دیتی ہیں۔
اُن مکانوں پر خدا اپنا کرم فرمائے
جن کو خود اُن کے مکیں نقب لگانے لگ جائیں
بیدلؔ حیدری
بشکریہ ( ہفت روزہ اخبار جہاں )