عمران خان نے بالآخر فیس سیونگ مانگ لی۔ ان کی طرف سے پارلیمنٹ میں مشروط واپسی کا اعلان یہی ظاہر کرتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ پیش رفت موجودہ سیاسی بحران پر کس طرح اثر انداز ہوگی؟
عمران خان کی طرف سے مفاہمت کی طرف پیش رفت کا یہ عندیہ چند اہم اور غیر معمولی واقعات کے بعد سامنے آیا ہے۔ اتفاق سے ان واقعات کا تعلق بھی عمران خان کی ذات سے ہے۔
تحریک عدم اعتماد کے بعد شروع ہونے والے بحران میں عمران خان نے اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف بار بار جارحیت کی اور کئی بار پسپائی اختیار کی لیکن بالکل تازہ صورت حال میں ان کی طرف سے پسپائی کا پہلا واقعہ توہین عدالت کیس میں عدالت عالیہ کے سامنے نہ صرف معافی مانگنے کا اعلان ہے بلکہ مجسٹریٹ زیبا صاحبہ کے پاس جا کر بھی معافی مانگنے کی پیش کش ہے۔ عمران خان کے وکیل نے اگرچہ اپنی وضاحت میں اس معافی الجھانے کی کوشش کی لیکن اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس کی حوصلہ افزائی کی ہے۔
عمران خان کی بدلی ہوئی حکمت عملی کا دوسرا اہم واقعہ ہفتے سے احتجاجی تحریک شروع کرنے کے اعلان سے پیچھے ہٹنا ہے۔ ایسا کرتے ہوئے انھوں نے یہ تاثر دینے کی کوشش بھی کی ہے کہ ان کے ٹائیگر ابھی تیار نہیں ہیں۔
عمران خان کی طرف سے پیچھے ہٹنے کے ان اشاروں کے ساتھ ہی کچھ دیگر واقعات بھی رونما ہوئے ہیں۔ پی ٹی کے ارکان اسمبلی کے استعفوں کی ایک ساتھ منظوری کی درخواستیں مسترد کرتے ہوئے مختلف عدالتی فورمز نے اس جماعت پر زور دیا ہے کہ عوام ایوانوں میں نمائندگی کے لیے اپنے نمائندے منتخب کرتے ہیں۔ اس لیے پی ٹی آئی کو بھی اسمبلیوں میں لوٹ جانا چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی اس جماعت پر یہ بھی واضح کیا گیا کہ بدترین سیلاب کی صورت حال میں انتخابات ممکن نہیں۔
اسی تناظر میں ایک اور اہم واقعہ پی ٹی آئی کی کور کمیٹی کے اجلاس میں عمران خان کی اپنے بعض راہنماؤں پر چڑھائی بھی ہے۔ انھوں نے ان راہنماؤں پر یہ الزام لگا کر تنقید کی کہ وہ اسٹیبلشمنٹ سے رابطے میں ہیں ۔ انھوں نے خبر دار کیا کہ انھیں بائی پاس کرنے کی ہمت کوئی نہ کرے۔ اس ضمن میں حامد خان ایڈووکیٹ کے فواد چودھری پر الزامات بھی بڑی اہمیت رکھتے ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ وہ عمران خان کو نا اہل کرانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
ایک اور منظر نامہ حکومت خاص طور پر وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ کی تیاریوں کا ہے جس سے تاثر ملتا ہے کہ پی ٹی آئی اگر اسلام آباد پر چڑھائی کرتی ہے تو وہ اس سے بھی زیادہ سختی کے ساتھ اس سے نمٹنے کا ارادہ رکھتے ہیں جتنی سختی کے ساتھ وہ 25 مئی کو نمٹے تھے۔
یہ پس منظر واضح کرتا ہے کہ عمران خان کو کچھ اشارے ملے ہیں۔ یہ اشارے متنوع ہوسکتے ہیں لیکن سب سے بڑا اشارہ یہی ہوگا کہ انتخابات ان کے مطالبے پر نہیں بلکہ اپنے شیڈول کے مطابق ہوں گے۔
ایسا بھی محسوس ہوتا ہے کہ انھیں کہا گیا ہو گا کہ وہ سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کریں تو سسٹم میں اسی طرح ان کی گنجائش برقرار رہ سکتی ہے جیسے ان کی حکومت کے دوران میں حزب اختلاف کی تھی۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بدلے ہوئے حالات میں عمران خان نے اپنے طرز عمل پر نظر ثانی کی ہے تاکہ اپنی قوت کو بچایا جاسکے۔ اس کا پہلا اشارہ انھوں نے اپنے کارکنوں کے تیار نہ ہونے کا تاثر دے کر اسلام آباد پر چڑھائی نہ کرنے کا بالواسطہ اعلان ہے۔
اس کے بعد انھوں سفارتی کیبل کی تحقیقات کی شرط کے ساتھ پارلیمنٹ میں واپسی کا عندیہ دیا ہے۔
یہ سب فیس سیونگ کے مختلف طریقے ہیں۔
عمران خان کی طرف سے اپنے مؤقف میں نرمی بحران کے حل کی جانب ایک قدم ضرور ہے لیکن سیاست نرم پڑتے ہوئے دشمن کے ساتھ کیا کیا جاتا ہے، یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔ عمران خان کی بدلی ہوئی حکمت عملی کا ایک ممکنہ نتیجہ یہ ہوسکتا ہے ۔ اس نتیجے کے دوسرے پہلو کاتعلق ان کے پیروکاروں سے ہے جو عمران خان کی اندھی تقلید میں تمام حدیں عبور کر چکے ہیں۔ ایسے لوگوں کی ایک قابل لحاظ تعداد حالیہ یو ٹرن کے باوجود عمران کے ساتھ رہے گی لیکن کارکنوں کے حلقے سے باہر ان کے حامیوں کا طرز عمل مختلف ہو گا۔ اگر وہ ان کے متلون سیاسی مؤقف سے مایوس ہو جاتے ہیں تو وہ حق بجانب ہوں گے۔ یہ صورت حال تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد ان کی بڑھی مقبولیت کو لے بیٹھے گی۔
عمران خان جب تک غیض و غضب کے عالم میں سب کچھ تباہ کرنے تلے ہوئے تھے، ان کے سامنے کھائی تھی۔ اب انھوں نے یوٹرن لیا ہے تو ان کے پیچھے آگ ہے۔
(بشکریہ: آوازہ)
فیس بک کمینٹ