آج دو جنوری 2017 ہے
دو جنوری کی تاریخ کبھی بھی میرے قلب و ذہن سے محو نہیں ہوسکتی ، میں کبھی اس دن کو بھول نہیں سکتا اور بھولوں بھی تو کیسے کیونکہ اس دن کبیروالا کے ادبی منظر نامے سے دو ایسے روشن ستارے ہماری آنکھوں سے اوجھل ہوگئے تھے کہ جن کی روشنی سے ادبی فضا منور تھی دو ایسے گلاب مرجھا گئے تھے کہ جن کی خوشبو تو آج بھی فضائے ادب کو مہکائے ہوئے ہے مگر گلدستہ ادب سے وہ پھول رخصت ہو گئے دو خوب صورت شاعر ، دو بہترین انسان ، دو محبت صفت شخصیات کہ جو آپس میں دوست بھی تھے اور انسان دوست بھی
جی ہاں ….دو جنوری ہماری یادوں میں ایک المناک دن ہے ایک ایسا دن جس نے ہمیں رلایا بھی اور تڑپایا بھی
اس دن ہمارے قلب پر جو زخم لگا تھا وہ دس برس بیت جانے کے بعد بھی تازہ ہے
دو جنوری 2006ء کا دن کبھی بھلایا نہیں جاسکتا کیونکہ اس روز صبح کو ہمارا دوست ہمارا ساتھی خوب صورت لب و لہجہ کا شاعر ،بے باک صحافی ، خوب صورت کمپیئر، ہاکی کا بہترین کھلاڑی، سماجی و سیاسی کارکن، انجمن تاجران کا متحرک رہنما، کبیروالا بچاؤ تحریک کا روح رواں اور جنرل سیکرٹری، کبیروالا پریس کلب کا پہلا منتخب جنرل سیکرٹری۔ امن کمیٹی کا ممبر ان سب حوالوں کے ساتھ دوستوں کا دوست ، یاروں کا سچا یار اور ہم سب کا پیار ہمارا ہمدم و ساتھی نثار ساجد ملک اچانک حرکت قلب بند ہوجانے اس دنیا سے کوچ کرگیا اور دوستوں کو ہنسانے والا اس دن دوستوں کو روتا ہوا چھوڑ کر چل دیا ابھی ہم نثار ساجد کے اچانک صدمے سے سنبھل ہی نہیں پائے تھے کہ کبیروالا کے ادبی منظر نامے کا ایک بہت بڑا نام ، استاد شاعر، محقق ،نثر نگار اور ایوارڈ یافتہ، صاحب کتاب جناب خادم رزمی کے اس جہان فانی سے کوچ کرنے کی خبر آ گئی بس پھر کیا تھا دونوں کے غم اور رنج میں ادب دوست، شعراء اور اہل شہر مصروف گریہ تھے کچھ سمجھ نہیں آتا تھا کہ آج چاند گرہن ہے یا سورج گرہن ….ہمارا تو چاند بھی پردے میں چھپ گیا اور ہمارا تو سورج بھی غروب ہوگیا تھا
دونوں نے زندگی کے آخری برس اکٹھے گزارے خادم رزمی نثار ساجد سے محبت کرتے تھے مشاعرے بھی اکٹھے پڑھتے تھے اور نثار ساجد بھی خادم رزمی صاحب کا مداح و محب تھا اور اپنی شاعری کے حوالے سے ان سے مشاورت بھی کرتا تھا یا میرے بڑے بھائی جان قمر رضا شہزاد سے مشاورت کرتا تھا
ںثار ساجد کی شاعری کا لہجہ تیکھا بھی تھا اور محبتوں کے رنگوں میں گندھا ہوا بھی تھا ۔ اس کا شعری سرمایہ شاید مقدار میں کم ہو مگر معیار و مضمون میں ہمیشہ زندہ رہنے والا اور اسے زندہ رکھنے والا ہے
نثار ساجد کو شاید خبر تھی کہ اس کی زندگی کا سفر مختصر ہے اور اسے عالم جوانی میں ہی کوچ کرنا ہے لہٰذا اس نے اس مختصر سے وقت میں بہت سارے کام کئے اور ہر میدان میں صف اول میں رہا، اس نے تعلیم کی کمی اور معاشی مشکلات کو کبھی اپنے جنون میں رکاوٹ نہیں بننے دیا اور ہر وہ کام کیا کہ جسے اس نے چاہا،نثار ساجد کبھی کسی مشکل میں گھبرایا نہیں اور کبھی مایوس نہیں ہوا، وہ بہادر انسان تھا اور کمزوروں کے لئے طاقت وروں سے لڑ پڑتا تھا وہ کلمہ حق کہنے سے بھی کبھی گھبراتا نہیں تھا وہ دوستوں کی ناراضیاں بھی برداشت نہیں کر پاتا تھا اور فوری منانے کی کوشش کرتا تھا نثار ساجد نے پریس کلب کو ایک فعال اور سرگرمیوں سے بھرپور ادارہ بنایا اس نے پریس کلب کا مونو گرام اپنے ہاتھ سے ڈیزائن کیا پریس کلب کا موجودہ آئین اس کے دور سیکرٹری شپ میں تیار اور منظور ہوا، پریس کلب کی رجسٹریشن کا آغاز اس کے دور میں ہوا گو کہ رجسڑیشن اس کی وفات کے بعد ہوئی
یادوں کا اک ہجوم ہے اور لفظوں کا بہاؤ …..
نثار ساجد کی زندگی کی آخری شب میں اور سجاد سیال بہت دیر تلک اس کے ساتھ رہے ہمیں کیا خبر تھی کہ کل اس نے ہمیں چھوڑ جانا ہے صبح ہم.نے اکٹھے خانیوال جانے کا پروگرام بنایا دو جنوری کی صبح میں نے اسے آخری بار اس وقت دیکھا جب وہ دہی لے کر اپنے گھر جارہا تھا اور میں حجام کی دکان پر تھا وہ مجھے دیکھ کر مسکرایا اور ہاتھ ہلایا میں نے بھی جوابی ہاتھ ہلا دیا کہ ہاں بس تیار ہورہا ہوں خانیوال چلیں گے مگر پھر خبر آگئی کہ نثار ساجد کی طبعیت خراب ہوئی ہے اسے ہسپتال لے گئے ہیں مگر وہ تو اس جہان سے عالم باقی کی طرف کوچ کرگیا تھا
تو جدا ایسے موسموں میں ہوا
جب درختوں کے ہاتھ خالی تھے
آج پھر نثار ساجد اور خادم رزمی کی برسی کا دن ہے آج صبح سے ہی آنکھ نم ہو رہی ہے
نثار ساجد تم تو 12 برس بعد آنکھوں میں آنے والی نمی کی بات کرتے تھے یہاں تو تیرے دوست تیرے چاہنے والوں کی ہر برس آنکھیں صرف نم ہی نہیں بلکہ اشک بار ہوجاتی ہیں
نثار ساجد تُو نے تو کہا تھا نا کہ
ہم تو مرجائیں، رہے سچ کی روایت زندہ
بس یہی سوچ کے سولی پہ لٹک جاتے ہیں
تو یار آج بھی سچ کی روایت زندہ ہے یار آج بھی ……!
نثار ساجد تو نے اپنے ہونے کی ضمانت مانگی تھی نا
جادہ عشق میں ، منصب نہ ہی عزت چاہوں
اپنے ہونے کی، بہر طور ضمانت چاہوں
یار تو آج بھی موجود ہے اور تیرا نام بھی ۔۔ اور نثار ساجد ہماری تکون کا تیسرا کونہ ریاض شاہد پنیاں آج کل بار کی صدارت کا الیکشن لڑ رہا ہے وہ جیت جائے گا یار مگر جس طرح ہم تینوں پہلے اک دوسرے کی خوشیاں مل کر مناتے تھے اب تیرے بغیر وہ خوشی کیسے منائیں گے یار
بہت جلدی کی تو نے ……بہت جلدی کی
فیس بک کمینٹ