یہ 1978ءمیں لا پتہ ہونے والے افراد کی کہانی ہے۔ہم گزشتہ چند برسوں سے لاپتہ افراد کی بہت سی کہانیاں سن رہے ہیں ۔آج کے لاپتہ افراد کے بارے میں تو سپریم کورٹ کی جانب سے بھی کبھی کبھار کوئی سوال سامنے آجاتاہے لیکن 39 سال پہلے لاپتہ ہونے ولے ان افراد کے بارے میں نہ کسی عدالت نے کبھی کوئی سوال اٹھایا اورنہ ہی انہیں قتل کرنے کے بعد غائب کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں آئی۔3جنوری1978ءکے اخبارات میں ایک خبرغیر نمایاں انداز میں شائع ہوئی ۔خبر یہ تھی کہ کالونی ٹیکسٹائل ملز ملتان میں پولیس فائرنگ سے 5 مزدور جاں بحق اور متعدد زخمی ہو گئے۔یہ ضیاءالحق کے مار شل لاءکا ابتدائی دور تھا ۔اخبارات پر سنسر شپ عائد تھااور ایسے میں عوام کو حقائق سے آگاہ کرنا ناممکن تھا۔اگلے روز بعض اخبارات نے شہداءکی تعداد 10 بیان کی اور پھر سرکاری ذرائع کی جانب سے تصدیق کی گئی کہ فائرنگ میں 15 مزدور لقمہ¿ اجل بنے ہیں۔غیر ملکی ذرائع ابلاغ نے مرنے والوں کی تعداد کہیں زیادہ بتائی۔اس المناک واقعے میں کتنے مزدور شہید ہوئے یہ معمہ آج 39سال بعد بھی حل نہیں ہو سکا۔عینی شاہدین بتاتے ہیں کہ کالونی ٹیکسٹائل ملز کا احاطہ نعشوں اور زخمیوں سے بھرا ہوا تھا جنہیں 2اور 3جنوری کی درمیانی شب ملز انتظامیہ نے سرکاری اہلکاروں کی مدد سے ٹھکانے لگا دیا۔پاکستان کی تاریخ میں ہونے والا یہ مزدوروں کا سب سے بڑا قتل عام ہے۔ملتان میں ہر سال 2جنوری کو ان مزدوروں کی یاد منائی جاتی ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سب کچھ ماضی کی گرد میں معدوم ہوتا جا رہا ہے۔خونِ خاک نشیناں رزقِ خاک ہو گیا ہے۔
بظاہر تو یہ بونس کا مطالبہ کرنے والے مزدوروں کو ریاستی طاقت کے ذریعے کچلنے کی ایک کوشش تھی لیکن در حقیقت اس قتلِ عام کے ذریعے جنرل ضیا اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرنا چاہتا تھا۔وہ مزدور جنہیں بھٹو صاحب کے دور میں زبان ملی اور جو عوامی حکومت کے خاتمے کے بعد ڈکٹیٹر کے خلاف احتجاج میں انتہائی فعال کردار ادا کر رہے تھے ضیاءالحق ان کی آواز دبانا چاہتا تھا اور انہیں بتانا چاہتا تھا کہ اب انہیں سر اٹھا کر نہیں سر جھکا کر کام کرنا ہو گا۔
کالونی ٹیکسٹائل ملز کے 13ہزارمزدور دو ماہ سے بونس کا مطالبہ کر رہے تھے۔ہر سال دسمبر کے مہینے میں انہیں تین ماہ کی تنخواہ کے برابر بونس ملا کرتا تھا۔1977ءمیں ملز کو منافع بھی زیادہ ہوا اور مزدوروں کا خیال تھا کہ انہیں اس بار بونس بھی زیادہ ملے گا لیکن بھٹو صاحب کی حکومت ختم ہونے کے بعد مالکان نے انہیں بونس دینے سے انکار کر دیا۔مذاکرات ناکام ہونے کے بعد مزدوروں نے 29دسمبر سے ہڑتال شروع کر دی ۔مشینیں بند ہو گئیں اور مزدوروں کی بڑی تعداد نے ملز کے احاطے میں دھرنا دے دیا۔احتجاج کا سلسلہ بڑھتا گیااور نئے سال کا آغاز ہو گیا ۔2جنوری کا سورج کالونی ٹیکسٹائل ملز کے مزدوروں کے لئے تاریکیاں لے کر طلوع ہوا۔اس روز مزدوروں نے جلسے کے بعد احتجاجی مظاہرے کا اعلان کیا تھا۔چار روز سے جاری پر امن ہڑتال کے دوران کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا تھا ۔ملز کی املاک کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا گیا تھااس کے باوجود مقامی انتظامیہ اور مالکان ان نہتے مزدوروں کو اپنے لئے خطرہ سمجھ رہے تھے۔خطرہ اس لئے سمجھ رہے تھے کہ تین روز بعدبھٹو صاحب کی سالگرہ کا دن آرہا تھا ۔پیپلز پارٹی نے بھٹو صاحب کی حکومت کے خاتمے کے بعد آنے والی ان کی پہلی سالگرہ کو ”یومِ جمہوریت “کے طور پر منانے کا اعلان کیا تھا۔انتظامیہ کو خطرہ تھا کہ مزدوروں کی یہ تحریک ملتان میں 5 جنوری کو منعقد ہونے والے سیاسی جلسوں کا موضوع بن جائے گی۔اس تحریک کو روکنا ضروری ہو گیا تھا۔2جنوری کی دوپہر جلوس کی صورت میں ملز کے گیٹ کی جانب بڑھنے والے مزدوروں پر گولیوں کی بارش شروع ہو گئی۔بڑی تعداد میں مزدور شہید ہوئے اور لا تعداد زخمی ہو گئے۔عالمی میڈیا نے مرنے والوں کی تعداد 100سے زیادہ بتائی۔پاکستان میں ان خبروں کی اشاعت روک دی گئی ۔سنسر شپ کے ماحول میں پاکستانی اخبارات صرف سرکاری بیانات اور اعداد و شمار ہی شائع کرتے رہے۔کچھ لوگوں نے بتایا کہ فائرنگ کے بعد صرف مرنے والوںکو ہی نہیں بعض زخمیوں کو بھی ٹرکوں میں ڈال کر مظفرگڑھ کے نواح میں ریگستان میں اجتماعی قبر کھود کر سپردِ خاک کر دیا گیا۔حکومت کی جانب سے دکھاوے کے اقدامات شروع ہوئے۔پولیس اور انتظامیہ کے چند افسروں کو معطل کیا گیا۔مقدمے درج ہوئے کچھ گرفتاریاں بھی ہوئیں لیکن پھر کچھ عرصہ بعد سب کو رہا کر دیا گیا۔18 جنوری کو محترمہ نصرت بھٹو نظر بندی توڑ کرشہداءکے اہلِ خانہ سے تعزیت کے لئے ملتان آئیں ۔ انہوں نے ملتان تک کا سفر برقعے میں کیا تھا ۔ وہ شہدا کے گھروں میں گئیں اور مزدوروں کے اجتماع سے بھی خطاب کیا ۔ محترمہ نے وعدہ کیا کہ ان کی حکومت برسرِ اقتدار آنے کے بعد ان بے گناہ افراد کے خون کا حساب لے گی۔محترمہ نصرت بھٹو کے دورہ¿ ملتان کے اگلے روزضیاءالحق نے اس سانحے کی تحقیقات تیز کرنے کا حکم دیا اور محترمہ نصرت بھٹوکودوبارہ نظربند کرنے کے احکامات جاری کر دئے گئے ۔
جن کی لاشیں رات کی تاریکی میں غائب کر دی گئیں ان کے ورثامدتوں ان کی راہ تکتے رہے۔کتنے لوگ جان سے گئے؟ یہ معمہ کبھی حل نہ ہو سکا۔شہداءکی تعداد کے بارے میں متضاد اطلاعات گردش کرتی رہیں ۔پھرکچھ روز بعد امروز نے انور امروہوی کی بنائی ہوئی ایک تصویر شائع کی ۔یہ کالونی ملز کے سائیکل سٹینڈ پر موجود ان 80 سے سے زیادہ سائیکلوں کی تصویر تھی جنہیں 2جنوری کے بعد کوئی لینے نہیں آیا تھا۔یہ تصویر ایک مکمل خبرتھی ۔یہ تصویر ظاہر کرتی تھی کہ جسے اظہار کا ہنر آتا ہو اس کے لئے پابندیاں کوئی معنی نہیں رکھتیں۔ انور امروہو ی کی تصویر سے ایک بات تو طے ہوئی کہ اس فائرنگ میں80سے زیادہ ایسے مزدور شہید ہوئے جو سائیکل پر گھر سے آتے تھے۔پیدل آنے والے کتنے لقمہ¿ اجل بنے ان کے حوالے سے کوئی تصویرتو انور امروہوی بھی تلاش نہیں کر سکتے تھے۔
فیس بک کمینٹ