بھلاہو قبلہ جاویدہاشمی کا اور ان سے پہلے عمران خان کا کہ جنہوں نے ایک دوسرے کو پاگل یا ذہنی مریض قرار دے کر ہمیں آج کے اظہاریئے کا موضوع عطا کر دیا۔ ابتداء تو عمران خان نے کی جب انہوں نے نئے سال کے آغاز کے موقع پر یہ اعلان کر دیا کہ جاویدہاشمی کا ذہنی توازن درست نہیں ، پھر ہاشمی صاحب بھلا کیوں خاموش رہتے سوانہوں نے چیلنج کر دیا کہ عمران خان اور مَیں، دونوں ہی اپنا طبی معائنہ کراتے ہیں تاکہ معلوم ہوجائے کہ ہم میں سے اصلی تے وڈا پاگل کون ہے ۔یوں یہ 2017ء کی پہلی دلچسپ خبر قرار پائی۔ پھر ہمارا جی چاہا کہ صرف یہی دو ہستیاں اپنا طبی معائنہ کیوں کرائیں وطن عزیز میں ایسے بہت سے لوگ موجود ہیں کہ جن کے ذہنی توازن کے بارے میں شکوک وشبہات سامنے آتے رہتے ہیں۔ ایسے میں اگر پاکستان کے ٹاپ ٹین پاگلوں (ذہنی مریضوں) کی فہرست تیار کی جائے تو بہت سی مشکلات پیش آسکتی ہیں اور یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوجائے گا کہ ان میں سے پہلا،دوسرا اور تیسرا نمبرکس پاگل کو دیا جائے۔ معاملہ اگرعوام پر چھوڑ دیا جائے اور کوئی سرکاری ایجنسی یا این جی او اس بارے میں سروے کا آغاز کرے تو بہت دلچسپ اعداد و شمار سامنے آسکتے ہیں۔پہلی دس پوزیشنوں کے لئے تو کم وبیش سو معروف شخصیات میں رن پڑے گا اور یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوجائے گا کہ پاگل نمبر ون کسے قراردیا جائے ۔اگرہم یہی فہرست تیارکرنے بیٹھیں تو ہمیں عمران خان اور جاوید ہاشمی کے نام اس میں شامل نہیں کرنا پڑیں گے کہ کہ وہ تو ایک دوسرے پر الزامات لگا کر بلا مقابلہ اس فہرست میں شامل ہو گئے ہیں ۔اب ہم اس فہرست میں ان کا نام شامل نہ بھی کریں تو ان کا استحقاق مجروح نہیں ہو گا ۔بہت سے لوگ الطاف حسین کو پاگلوں کی فہرست میں پہلا نمبر دینا چاہیں گے لیکن ہم یہ نام اس فہرست میں شامل نہیں کرتے کہ اگر الطاف حسین کو ذہنی مریضوں یا پاگلوں کی فہرست میں شامل کیا گیا تو اس سے بہت سے لسانی اور علاقائی تعصبات بھی سامنے آ جائیں گے یعنی پنجاب ،دیہی سندھ اور باقی صوبے ایک طرف ہوں گے اور شہری سندھ دوسری جانب سو ہم پاگلوں کی اس فہرست کو متنازعہ نہیں بنانا چاہتے ۔ الطاف بھائی کو پاگل نمبر ایک قرار دلوانے کے لئے ہم پر ان قوتوں کا دباؤ بھی آسکتا ہے جو پہلےتو اس پاگل کو اپنا کہتی تھیں اور اب اسے ملک دشمن سمجھتی ہیں۔چلیں چھوڑیں الطاف حسین کو ایک نام عامر لیاقت حسین کا بھی تو زیربحث آ سکتا ہے کہ مختلف چینلوں اور پارٹیوں کی خاک چھاننے کے بعد جب سے وہ بول چینل میں گئے ہیں ان کے ناظرین کی متفقہ رائے ہے کہ اب ان کا ذہنی توازن ٹھیک نہیں اورانہیں آسانی پاکستان کا پاگل نمبر ایک قرار دیا جا سکتا ہے ۔حرکتیں تو ان کی رمضان نشریات کے دوران بھی ایسی ہی ہوتی تھیں لیکن بول میں آنے کے بعد ان کے پاگل پن میں خاصا نکھار پیدا ہو گیا ہے یا دوسرے لفظوں میں آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ان کے پاگل پن کا بول بالا ہو گیا ہے ۔کچھ لوگوں کی رائے محترم حسن نثار کے بارے میں بھی ایسی ہی ہو سکتی ہے لیکن صحافتی برادری سے تعلق کی بناء پر جس طرح ہم نے صالح ظافر کا نام اس فہرست میں شامل نہیں کیا اسی طرح حسن نثار کا نام بھی اس ریس میں شامل کرنا ہمارے بس کی بات نہیں ۔ہمارا بس چلے تو پاگلوں کی اس فہرست میں پہلے نمبر پر پرویز مشرف کا نام شامل کریں کہ انہیں پاگل قراردینے کیلئے بس ایک ہی دلیل کافی ہے کہ وہ بہت سے لوگوں کو قتل کرنے،آئین توڑنے ،اقتدار پر قبضہ کرنے اور پاکستان کو دہشت گردی میں جھونکنے کے باوجود خود کو محب وطن کہتے اور سمجھتے ہیں۔ بلکہ ان کا یہ بھی خیال ہے کہ آنے والے دنوں میں پاکستان کے پاگل عوام انہیں مسندِ صدارت پر بھی فائز کر دیں گے۔ ظاہر ہے ایسی باتیں کوئی پاگل ہی سوچ سکتا ہے۔ لیکن انہیں بھی چھوڑیئے کہ سابق آرمی چیف کی عزت و تکریم بہرحال ہمارے قومی فرائض میں شامل ہے وگرنہ ہم جنرل راحیل شریف کو کیوں نہ اس فہرست میں شامل کردیتے کہ جو آخر وقت تک یہی سمجھتے رہے کہ نوازشریف اور دیگر منتخب سیاستدان ان کے دھونس اور دباؤ میں آ کربندوق کے زور پران کی مدت ملازمت میں توسیع کردیں گے یا انہیں کوئی اور اچھا سا منصب عطا کردیں گے ۔جنرل راحیل شریف پر یاد آیا کہ ایک احمدشجاع پاشا بھی تو تھے جو آئی ایس آئی کے سربراہ کی حیثیت سے عمران خان کو قائداعظم کے پاکستان کی تعبیر سمجھتے تھے لیکن ان کا نام بھی اس فہرست میں شامل کرتے ہوئے ہمارے پرجلتے ہیں ۔پاگلوں کی فہرست میں شامل ہونے کے لئے اور بہت سے لوگ بھی بے تاب دکھائی دیتے ہیں۔مثال کے طور پر اگر اس فہرست میں اسلم رئیسانی کا نام شامل نہ کیا گیا تو ممکن ہے اس فہرست کی ساکھ ہی مجروح ہو جائے ۔انہوں نے وزارت اعلیٰ کے دوران اور بعدمیں بھی جو حرکتیں کیں وہ ہمارے سامنے ہیں لیکن بلوچستان کے ساتھ پہلے تھوڑے ظلم ہورہے ہیں کہ ہم بھی ان کے سابق وزیراعلیٰ کو پاگلوں کی فہرست میں شامل کر دیں۔اس مقصد کے لئے ہمارے پاس ہمارے اپنے وزیراعلیٰ شہبازشریف بھی تو موجود ہیں کہ جب وہ تقریر فرماتے ہیں اورحبیب جالب کی نظم پڑھتے ہیں ،بھٹو صاحب کی نقل فرماتے ہیں تو عقل دنگ رہ جاتی ہے ۔ہماری قریب کی نظر چونکہ کافی خراب ہے اس لئے جانے کیوں ہمیں اپنے پیارے مفتی عبدالقوی یاد نہیں آرہے کیا شاندارانسان دوست عالم دین، جانے کیا کیا خوبیاں ان میں پائی جاتی ہیں لیکن شہرت کے حصول کیلئے وہ پاگل پن کی اس سطح پر گئ کہ عزت خاک میں مل گئی۔ اب وہ گھربیٹھے ہیں اور آہیں بھرتے ہیں ۔لیکن حضور دورکی نظر ہماری اتنی خراب نہیں سو ہم مفتی پوپلزئی کو کبھی نہیں بھول سکتے ۔ مفتی عبدالقوی بھی چاندکی تلاش میں مارے گئے اورپوپلزئی صاحب بھی ہرسال عید پر چاند کا تنازع ضرور پیدا کرتے ہیں ۔اُدھر سعودی عرب میں چاند نظر آیا اِدھر پشاور میں بھی عید کا اعلان ہو گیا۔اب جو سعودی عرب نے عیسوی کیلنڈر رائج کردیا ہے تو خدا معلوم پوپلزئی صاحب کا انجام کیا ہو گا؟ فہرست اگر اسی جانب چل پڑی ہے تو ہم بھلا طاہرالقادری صاحب کے پاگل پن کا ذکر کیوں نہ کریں ان کے عقیدت مندوں کی رائے اپنی جگہ لیکن ان کی تقریریں ،حرکتیں ،بشارتیں اور کہہ مکرنیاں دیکھ کر اکثریت اس بات پراصرارکرے گی کہ اگر انہیں پاگل نمبر ایک قرار نہ دیا گیا تو یہ ان کی حق تلفی ہو گی۔ ہاں ریحام خان کے بارے میں ہم نرم گوشہ رکھتے ہیں اگرچہ وہ بھی ڈاکٹر طاہرالقادری کی طرح کنٹینر کے حوالے سے مقبول ہوئیں اور عمران خان کے عقد میں بھی آئیں لیکن انہوں نے اپنے پاگل پن کی چندہی روزمیں تلافی کردی اور بعد کے دنوں میں تو ان کے بارے میں جو کچھ سامنے آیا اس کے بعد لوگوں نے انہیں عقل مند قراردینا شروع کر دیا۔ آپ اگر اس فہرست میں بے تابی کے ساتھ سابق چیف جسٹس افتخار چودھری کا نام تلاش کر رہے ہیں تو یہ آپ کی بھول ہے ۔ وہ خاصے سمجھ دار قسم کے پاگل تھے اور انہیں معلوم ہوتا تھا کہ کب اور کس مقام پر کتنی دیر کے لئے پاگل ہونا ہے ۔ سو وہ وقت کی نزاکت کو مدِ نظر رکھ کر پاگلل ہوتے اور لوگوں کو پاگل بناتے تھے ۔ اب آپ یہ سوال کریں گے کہ ہم نے اس فہرست میں ہر شعبہ زندگی کی شخصیات کو شامل کیا لیکن کسی شاعرکو اس فہرست کا حصہ کیوں نہیں بنایا،حالانکہ شاعروں کے پاگل پن کی بہت سی مثالیں آسانی کے ساتھ مل سکتی ہیں ۔ تو حضورگزارش یہ ہے کہ ہم پاگل ضرور ہیں لیکن اتنے پاگل بھی نہیں ۔
فیس بک کمینٹ