ذہانت ، تخلیقیت ، بشاشت اور مطالعے کی ثروت پانچ چھ لوگوں میں ایسی رچی ہوئی ہے کہ ان پر ڈھنگ کے لکھنے والے ہوں جو ان کی کتابوں / فقروں کو یاد دلاتے جائیں تو ان کو پڑھتے ہوئے ہر عمر اور ہر وزن کا آدمی سرشاری کی رفعت سے ہم کنار ہوتا ہے ۔
محمد خالد اختر (23 جنوری 1920 الہ آباد ۔لیاقت پور ریاست بہاولپور ۔2 فروری 2002 ) مگر کیا کچھ لکھا اس بے پناہ شخص نے بیس سو گیارہ (1950 میں سوچا کہ یہ مستقبل موہوم ہے )
چاکی واڑہ میں وصال
کھویا ہوا افق
دو سفر
چچا عبدالباقی
مکاتیب خضر
یاترا
ابن جبیر کا سفر
لالٹین اور دوسری کہانیاں بشمول ناولٹ مسکراتا ہوا بدھ
ریت پر لکیریں
جی وہ خالد اختر جو احمد ندیم قاسمی کا ایس ای کالج بہاولپور کا ساتھی ، ‘فنون’ ‘سویرا’، ‘آج’ اور ‘ معاصر ‘ کی تخلیقی وقعت بڑھانے والا اور اپنے اجداد کے بارے میں یہ لکھنے والا
میرے مورث اعلی رائے پتھورا نے 1191 میں ترائن کی جنگ میں شہاب الدین غوری کا ڈٹ کر مقابلہ کیا سو میرا لگڑ دادا اپنے وقت کا ایک نامی چور تھا اور ساتھ ساتھ اپنے گاوں کا باعزت شہری بھی ۔
جی وہی محمد خالد اختر جن کے پاس رحیم یار خان میں شاید ایک سو ایکڑ اراضی تھی مگر بیٹی کی شادی کے لیے وہ اکادمی ادبیات پاکستان کی جانب سے اپنی کتاب کے ایوارڈ کے چالیس ہزار روپے کے چیک کے منتظر تھے ( ہمارے مرزا ابن حنیف کی طرح ) جنہوں نے قرہ العین حیدر کو عبداللہ حسین کے ” تعاقب میں ” مبتلا کیا کہ گجرات کے اس بیٹے نے
‘ میرے بھی صنم خانے’ کے پیرا گراف کے پیرا گراف سے اداس’نسلیں کا آئینہ خانہ سجایا ہے مگر جب موقعہ کسی کمزوری کی گرفت کا آیا تو مس حیدر کو بھی نہ بخشا ‘انسانیت کی مشقت ، پسینہ اور تپتی ہوئی حیوانی خواہشیں ان کی تحریر سے بھولے سے بھی گذر نہیں پا سکتیں ، ان کے کردار سب دیکھے بھالے جانے پہچانے سب جنسی غدود سے محروم معلوم ہوتے ہیں ”
جسٹس ایم آر کیانی کی ” افکار پریشاں ” کے بارے میں لکھا وہ اپنی موت سے چار پانچ سال پہلے ایک پبلک فگر بنا ، ایک معما ہے وہ اتنا عرصہ خاموش کیوں رہا ؟غالبا کسی سیکرٹری نے اسے تقریب کی صدارت کے لئے نہیں بلایا کیونکہ وہ چیف جسٹس نہیں تھا ۔۔لاہور اور فیصل آباد کی بزم اقبال کے یہ خطبے کتنے پر مسرت ہیں ! یہ تقاریر اقبال کے سوا ہر چیز کے بارے میں ہیں ”
عجیب بات ہے نوعمر خالد نے ہمیشہ یاد رکھا کہ اشفاق احمد کا "گڈریا” میرے والد نے تیس چالیس دفعہ پڑھا تھا اسی طرح انگریزی کے کچھ مصنفوں اور کتاب کے لئے یہی پیمانہ استعمال کیا ۔ ایسے طناز کو چند لوگ بہت پیارے لگتے تھے جسے ندیم قاسمی ، شفیق الرحمن ، محمد کاظم ، ظہور نظر ، اجمل کمال ، اکرام اللہ ان پر لکھتے ہوئے بہت فارمل ہو جاتے ہیں ۔
انہیں یہ احساس تین عشرے پہلے تھا کہ لوگوں کی ترجیحات بدل رہی ہیں وہ ادبی جرائد ، کتب کو” مفت پانا ” پسند کرتے ہیں خریدنا نہیں چاہتے مگر ہمارے خالق تنویر کی اس کتاب کو ہمارے ملتان کے اداس اور شرمیلے عبدالجبار ( بکس اینڈ ریڈرز نزر میٹرو سٹیشن سبزہ زار یونیورسٹی روڈ ملتان 03009634424 ) نے شائع کیا ہے کتاب پر قیمت 1590 روپے درج ہے ۔ کتاب تو عبدالجبار سے خریدیں مگر داد ڈاکٹر خالق تنویر کو دیں اور اس بات پر توجہ دیں کہ اپنی بیماریوں کا تواتر سے ذکر کرنے والے محمد خالد اختر پر بہت سی خوبصورت خواتین بشمول فہمیدہ ریاض ، نادرہ نائپال ، اختر ریاض الدین اور ایک دو پردہ نشیں کیوں مہربان تھے اور اگر آپ اس کتاب کے مطالعے کے ساتھ اکادمی ادبیات پاکستان کی سیریز اردو ادب کے معمار میں محمد خالد اختر پر ڈاکٹر اشفاق احمد ورک کی کتاب کو بھی ساتھ رکھ لیں تو
نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں
31 جنوری 2025