‘ہیر رانجھا‘ کی داستان ابتدا ہی سے پنجاب کے فلم سازوں اور ہدایتکاروں کی ایک پسندیدہ داستان رہی ہے۔ یہ داستان پنجابی زبان کے عظیم شاعر وارث شاہ نے تحریر کی تھی۔ اس داستان پر بننے والی پہلی فلم ‘ہیر رانجھا‘ 1932 میں تیار ہوئی تھی اور یہ لاہور میں تیار ہونے والی پہلی متکلم فلم تھی۔
یہ فلم اے آر کاردار نے بنائی تھی اور اس میں ہیر کا مرکزی کردار انور بیگم اور رانجھا کا کردار رفیق غزنوی نے ادا کیا تھا۔ اس کے بعد اس موضوع پر کئی اور فلمیں بنیں جن میں اے آر کاردار ہی کی ‘دل لگی‘، نذیر کی ‘ہیر‘ اور جعفر شاہ بخاری کی ‘ہیر سیال‘ کے نام شامل ہیں۔
سوائے پہلی فلم کے یہ سب فلمیں کامیاب تو ہوئیں مگر کوئی بھی وارث شاہ کی اس عظیم داستان کو اس طرح پردہ سیمیں پر منتقل نہ کرسکا کہ یہ ہمیشہ کے لیے امر ہو جائے۔ 1970 میں فلم ساز اعجاز درانی نے مسعود پرویز کے اشتراک سے ‘ہیر رانجھا‘ بنانے کا اعلان کیا۔ انھوں نے ہدایات کے لیے مسعود پرویز، موسیقی کے لیے خواجہ خورشید انور اور فلمی تشکیل، گانوں اور مکالموں کے لیے احمد راہی کا انتخاب کیا اور پھر وہ شاہکار وجود میں آیا جو آج نصف صدی سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد بھی فلم بینوں کے دلوں پر نقش ہے۔
اس فلم میں سات گلوکاروں نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا مگر ملکہ ترنم نور جہاں سب پر بازی لے گئیں۔ یہی وہ فلم تھی جس سے فردوس اور اعجاز درانی کے معاشقے کا آغاز ہوا۔ فردوس ہیر کا کردار پہلے بھی ایک فلم میں ادا کرچکی تھیں مگر اعجاز درانی اور مسعود پرویز نے ان کی صلاحیتوں سے اس طرح استفادہ کیا کہ آج بھی ‘ہیر رانجھا‘ ان کی زندگی کی سب سے یادگار فلم تسلیم کی جاتی ہے۔
فردوس کا اصل نام پروین تھا مگر علی سفیان آفاقی نے لکھا ہے کہ وہ کوثر کے نام سے مشہور تھیں۔ وہ 4 اگست 1947 کو لاہور کی ہیرا منڈی میں پیدا ہوئی تھیں۔ رقص و موسیقی کی تربیت انھیں ورثے میں ملی، وہ ایک نسبتاً کم گو اور سنجیدہ مزاج کی لڑکی تھیں۔
اس زمانے کے دستور کے مطابق فلم ساز اور ہدایت کار نئے چہروں کے تلاش میں ہیرا منڈی کے چکر لگاتے رہتے تھے۔ اس بازار سے وابستہ لڑکیوں پر انہیں بہت زیادہ محنت نہیں کرنی پڑتی تھی کیونکہ وہ رقص اور موسیقی سے بخوبی واقف ہوتی تھیں۔ ایسے ہی ایک فلم ساز بابا قلندر تھے جو اپنی نئی فلم کی ہیروئن کی تلاش میں ہیرا منڈی پہنچے تھے۔ وہاں انھوں نے پروین کے بالا خانے پر ان کا رقص دیکھا تو انھوں نے انھیں اپنی پنجابی فلم ‘محلے دار‘ میں بطور ہیروئن کام کرنے کے لیے منتخب کرلیا۔
پروین نے بھی برائے نام معاوضے پر اس فلم میں کام کرنے پر آمادگی ظاہر کردی۔ پروین پر چند نغمے فلم بند ہوئے مگر یہ فلم مکمل نہ ہوسکی۔ اسی دوران پروین پر فلم ساز کیو ایم زمان اور ہدایت کار منشی دل کی نظر پڑی جنہوں نے انھیں اپنی فلم ‘گل بکاؤلی‘ میں ایک چھوٹے سے کردار کے لیے منتخب کرلیا۔ یہ فلم 27 اکتوبر 1961 کو نمائش پزیر ہوئی۔ ‘گل بکائولی‘ ناکامی سے دوچار ہوئی تو پروین بھی پس پردہ چلی گئیں۔
کچھ عرصے بعد انڈیا سے آئے ہوئے مشہور شاعر، مصنف اور ہدایت کار نخشب نے ایک فلم ‘فانوس‘ بنانے کا اعلان کیا۔ انھوں نے اس فلم میں ایک چھوٹے سے کردار کے لیے پروین کا انتخاب کیا۔ یہ فلم تمام تر پبلسٹی کے باوجود بری طرح ناکام ہوئی اور پروین ایک مرتبہ پھر گمنام ہوگئیں۔
مگر پروین کی قسمت کا ستارہ ابھی ڈوبا نہیں تھا۔ کچھ دن بعد ان پر فلم ساز اور ہدایت کار شباب کیرانوی کی نظر پڑی جو نئے چہروں کو متعارف کروانے کے لیے مشہور تھے۔ شباب کیرانوی نے انھیں اپنی فلم ‘انسانیت‘ کے لیے منتخب کرلیا۔ اس فلم میں مرکزی کردار زیبا اور وحید مراد نے ادا کیے تھے اور پروین کے حصے میں پگلی کا ایک چھوٹا سا کردار آیا تھا۔
شباب کیرانوی نے اس فلم کے لیے پروین کو فردوس کا فلمی نام دیا تھا۔ یہ نام انھیں ایسا راس آیا کہ ‘انسانیت‘ کی نمائش ہوتے ہی فردوس بھی فلمی دنیا کی ضرورت بنتی چلی گئیں، اور اب آہستہ آہستہ انھیں فلمیں ملنا شروع ہوگئیں۔
ایسے میں انھیں فلم ساز چوہدری محمد اسلم نے اپنی فلم ‘ملنگی‘ میں اداکار اکمل کے مقابل مرکزی کردار ادا کرنے کی پیشکش کی، تو فردوس نے یہ پیشکش قبول کرلی۔ فلم کامیابی سے ہمکنار ہوئی اور فردوس پنجابی فلموں کی بھی کامیاب اداکارہ تسلیم کرلی گئیں۔ اسی فلم سے فردوس اور اکمل کے معاشقے کا آغاز ہوا۔ ان دونوں نے پے در پے کئی فلموں میں کام کیا، جن میں بیشتر کامیاب اور مقبول ہوئیں۔ ان فلموں میں زمیندار، سرمہ، پیداگیر، یارا نال بہاراں اور بہت سی دوسری فلمیں شامل تھیں۔
اکمل ایک مقبول اور کامیاب ہیرو تھے اور پنجابی فلموں کے دلیپ کمار کہلاتے تھے۔ اس کے باوجود وہ ایک بے پروا اور سادہ دل انسان تھے، اور وہ فردوس پر بری طرح مر مٹے۔ دونوں نے شادی کرلی مگر اکمل نشہ کرنے کے اتنے عادی ہوچکے تھے کہ وہ 11 جون 1967 کو زندگی کی بازی ہار گئے۔
اکمل کے بعد فردوس نے فلم ساز شیخ نذیر حسین سے شادی کی مگر یہ شادی بھی جلد ختم ہوگئی۔ (کچھ لوگ کہتے ہیں کہ فردوس کی پہلی شادی شیخ نذیر حسین سے ہوئی تھی)۔ اس دوران وہ فلموں میں مرکزی کردار ادا کرتی رہیں خصوصاً پنجابی فلموں پر تو ان کی حکمرانی تھی۔ اس زمانے میں ان کی جو فلمیں مشہور ہوئیں ان میں چاچا جی، اکبرا، مرزا جٹ، روٹی، پگڑی سنبھال جٹا، باؤجی، پنج دریا، چندویر، عشق نہ پچھے ذات، شیراں دے پتر شیر، جنٹرمین، سجناں دور دیا اور ماں پتر کے نام شامل ہیں۔ ایسے میں 1970 میں ان کی فلم ‘ہیر رانجھا‘ نمائش کے لیے پیش ہوئی۔
کہا جاتا ہے کہ اگر وارث شاہ بھی فردوس کو دیکھتے تو بے ساختہ کہہ اٹھتے کہ اس کردار کے لیے فردوس سے زیادہ موزوں اداکارہ کوئی نہیں۔ ‘ہیر رانجھا‘ 19 جون 1970 کو لاہور میں نمائش کے لیے پیش ہوئی، لیکن آج بھی فلم بین اس فلم کے اثر سے باہر نہیں آئے۔
فلم ‘ہیر رانجھا‘ کے دوران ہی اداکار اعجاز کے ساتھ فردوس کا معاشقہ ملک بھر کے اخبارات کی سرخیوں کی زینت بنا۔ اعجاز کے ساتھ ان کی شادی کی خبریں بھی اڑیں مگر ان کی تصدیق کبھی نہ ہوسکی۔ اسی زمانے میں اداکار شاہد کے ساتھ بھی ان کے معاشقے کی خبریں گردش کرنے لگی تھیں۔
فردوس نے فلم ‘ہیر رانجھا‘ میں بہترین اداکارہ کا نگار ایوارڈ بھی حاصل کیا۔ اس کے بعد وہ پنجابی فلموں کے ساتھ ساتھ چند اردو فلموں میں جلوہ گر ہوئیں جن میں فلم ‘آنسو‘ کا نام سرفہرست ہے۔ یہ اداکار شاہد کی پہلی فلم تھی۔ اس فلم میں انھوں نے سنجیدہ کردار نگاری کا بہترین مظاہرہ کیا اور خصوصی نگار ایوارڈ بھی حاصل کیا۔
1973 میں انھوں نے پنجابی فلم ‘ضدی‘ میں بھی بہترین اداکارہ کا ایوارڈ حاصل کیا مگر جلد ہی ان کی شہرت کا آفتاب گہنانا شروع ہوا۔ آسیہ، عالیہ اور ممتاز ان کا مقام لیتی چلی گئیں اور وہ چند مزید فلموں میں کام کرنے کے بعد گمنامی میں چلی گئیں۔
فردوس نے مجموعی طور پر 192 فلموں میں کام کیا جن میں 155 فلمیں پنجابی میں، 29 فلمیں اردو میں اور 8 فلمیں پشتو میں بنائی گئی تھیں۔ فردوس کی آخری فلم ‘دہ جرمونو بادشاہ‘ تھی جو 1991 میں پشتو زبان میں تیار ہوئی تھی۔
فردوس اداکارہ نشو کی سمدھن تھیں، اور ان کے بیٹے کی شادی نشو کی بیٹی سے ہوئی۔ وہ لاہور کی مشہور فردوس مارکیٹ کی مالک تھیں۔
اداکارہ فردوس عرصہ دراز سے گوشہ گمنامی میں تھیں۔ چند روز قبل ان کی وفات کی خبر گردش کرنے لگی تھی مگر پھر اطلاع آئی کہ وہ برین ہیمرج کی وجہ سے ہسپتال میں داخل ہیں۔ مگر آج وہ اس دنیا سے رخصت ہوگئیں۔
(بشکریہ: بی بی سی اردو)