پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو ایک نیا بحران در پیش ہے، جس میں پارٹی کے اندرونی معاملات، قیادت کے غیر جمہوری فیصلے اور کارکنوں کے حقوق کی پامالی نے شدید بے چینی اور مایوسی کو جنم دیا ہے۔ 24 نومبر کو ہونے والے احتجاج کی کال، جسے "فائنل کال” کہا جا رہا ہے، نہ صرف پارٹی کے اراکین کے لیے ایک شدید سیاسی آزمائش بن چکی ہے بلکہ یہ پی ٹی آئی کے اصولوں، نظریات اور داخلی یکجہتی کے بارے میں سوالات اٹھا رہی ہے۔
سب سے پہلے تو، یہ بات انتہائی تشویشناک ہے کہ پی ٹی آئی کی بانی چیئرپرسن کی اہلیہ بشریٰ بی بی، 24 نومبر کے احتجاج میں بھرپور حصہ لینے والے اراکین کو پارٹی ٹکٹ اور عہدے دینے کی پیشکش کر رہی ہیں۔ اس طرح کے فیصلے سیاسی لحاظ سے بے حد متنازع ہیں اور پارٹی کے اصولوں کے خلاف جاتے ہیں۔ ایک طرف پی ٹی آئی اپنے کارکنوں کو نظریاتی طور پر متحد رکھنے کی دعوے کرتی رہی ہے، دوسری طرف اس طرح کے احکامات پارٹی میں پیسوں اور طاقت کی سیاست کو فروغ دے رہے ہیں۔ سیاسی جماعتیں عام طور پر اپنے کارکنوں کو نظریاتی وابستگی اور عوامی خدمت کے ذریعے آگے بڑھاتی ہیں، لیکن یہاں معاملات بالکل مختلف ہیں۔ اس فیصلے سے یہ تاثر ملتا ہے کہ پارٹی کی قیادت اب اپنے کارکنوں کو محض انتخابی مفادات کے لیے استعمال کرنا چاہتی ہے، نہ کہ ان کے سیاسی شعور اور خدمت کے جذبے کو سراہتی ہے۔
ایک اور مسئلہ جس پر پی ٹی آئی کے رہنماؤں اور اراکین نے تحفظات کا اظہار کیا ہے وہ ہے کارکنوں پر ڈالا جانے والا دباؤ۔ بشریٰ بی بی کی جانب سے ہدایت کی گئی ہے کہ پنجاب کا ہر ایم پی اے اور ایم این اے اپنے حلقے سے پانچ ہزاراوردس ہزار افراد اسلام آباد لائے ۔ یہ ہدایت ان افراد پر ایک بڑا مالی اور سیاسی بوجھ ڈال رہی ہے، کیونکہ پانچ ہزار افراد لانے کا مطلب ہے کہ ہر ایم پی اے کو تقریباً دو سے تین کروڑ روپے خرچ کرنا ہوں گے۔ اب جب کہ پی ٹی آئی کی قیادت سیاسی بحران اور قانونی مشکلات کا سامنا کر رہی ہے، پارٹی کے اراکین پہلے ہی شدید مالی مشکلات میں ہیں۔ بیشتر اراکین کے کاروبار متاثر ہو چکے ہیں اور انہیں اس قسم کی بھاری رقم خرچ کرنے کے لیے کوئی وسائل دستیاب نہیں ۔ اس طرح کے غیر حقیقت پسندانہ اہداف کے ذریعے قیادت اپنی پارٹی کو مزید بحران کی طرف دھکیل رہی ہے۔
پارٹی کے اندر یہ بھی ایک سنگین مسئلہ سامنے آیا ہے کہ اراکین کو دھمکیاں دی جا رہی ہیں کہ اگر وہ پانچ ہزار افراد کا ہدف پورا نہیں کر پاتے، تو انہیں پارٹی سے نکال دیا جائے گا۔ ان دھمکیوں کے ذریعے ایک طرف قیادت اپنے اراکین کے لیے خوف کا ماحول پیدا کر رہی ہے، تو دوسری طرف اس طرح کی سیاسی ہٹ دھرمی پارٹی کی ساکھ کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔ جب اراکین کو نہ صرف سیاسی اہداف کے لیے دھکیلنا شروع کر دیا جائے بلکہ ان کو دھمکیاں دینے کا عمل بھی شروع ہو جائے، تو یہ ایک انتہائی غیر جمہوری اور غیر مہذب طریقہ ہے۔ پارٹی کی اس غیر منصفانہ حکمت عملی نے اراکین کے اعتماد کو متاثر کیا ہے اور انہیں اپنی سیاسی وابستگی پر سوالات اٹھانے پر مجبور کر دیا ہے۔
اس احتجاج کی تیاری کے حوالے سے ایک اور سنگین مسئلہ یہ ہے کہ ابھی تک پی ٹی آئی کی قیادت نے اراکین کو احتجاج کے مقام، اس کے اہداف یا اس کے طریقہ کار کے حوالے سے کوئی واضح ہدایات فراہم نہیں کیں۔ اراکین نے خود بتایا کہ انہیں یہ نہیں بتایا گیا کہ اسلام آباد پہنچ کر کہاں رکنا ہے، احتجاج کی شکل کیا ہوگی اور وہ کس طرح اس احتجاج میں حصہ لے سکتے ہیں۔ اس غیر واضح حکمت عملی کی وجہ سے اراکین میں بے یقینی اور کنفیوژن بڑھ گئی ہے۔ ایک طرف وہ اپنے سیاسی سفر کی کامیابی کے لیے اس احتجاج کو اہم سمجھتے ہیں، تو دوسری طرف انہیں کوئی واضح رہنمائی اور حکمت عملی فراہم نہیں کی گئی ہے۔ اس صورتحال نے نہ صرف پارٹی کی داخلی صفوں میں افراتفری پیدا کر دی ہے بلکہ اس سے عوامی سطح پر بھی پارٹی کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے۔
آخرکار، پی ٹی آئی کی احتجاجی سیاست ایک محدود دائرے میں بندھ کر رہ گئی ہے، جس کا اثر عوام میں مایوسی کے سوا کچھ نہیں ہو رہا۔ ماضی میں ہونے والے احتجاجی دھرنے اور مظاہرے اکثر بے نتیجہ ثابت ہوئے ہیں اور ان میں عوام کا اتنا جوش و جذبہ نہیں دکھائی دیا جتنا کہ قیادت نے توقع کی تھی۔ اب، جبکہ پارٹی میں مالی بحران اور داخلی انتشار بڑھ رہا ہے، عوام کی دلچسپی اور حمایت بھی ماند پڑ گئی ہے۔ لوگوں نے احتجاجی سیاست سے تھک کر ایک نیا راستہ اختیار کرنا شروع کر دیا ہے۔ جب احتجاج کا مقصد محض سیاسی مفادات اور ذاتی طاقت کی جنگ بن جائے، تو عوام اس میں حصہ ڈالنے سے گریز کرتے ہیں۔
اس تمام صورتحال میں سب سے اہم سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا پی ٹی آئی کی قیادت نے اپنی سیاست کو داخلی استحکام اور جمہوری اقدار کی بنیاد پر استوار کیا ہے، یا پھر وہ بیرونی مدد اور سازشوں کا سہارا لے کر اپنی سیاست چلانے کی کوشش کر رہی ہے؟ یہ حقیقت کہ پارٹی کی قیادت امریکی کانگریس کے ارکان سے حمایت کی درخواست کر رہی ہے، جو کبھی امریکی سازشوں کے خلاف بیانات دیتی رہی تھی، ایک دوہرا معیار اور سیاسی منافقت کو واضح کرتی ہے۔ اس سے نہ صرف پی ٹی آئی کی داخلی خودمختاری پر سوالات اٹھتے ہیں بلکہ عوامی اعتماد بھی کم ہوتا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کو اب یہ سمجھنا ہوگا کہ اس کے احتجاجی سیاست اور طاقت کے کھیل میں عوامی حمایت کا فقدان بڑھ چکا ہے۔ پارٹی کے اندر دھمکیوں، مالی مشکلات اور غیر واضح حکمت عملی کے اثرات مرتب ہو رہے ہیں، اور اگر یہ سلسلہ یونہی جاری رہا، تو پی ٹی آئی کی سیاسی حیثیت مزید کمزور ہو جائے گی۔ اس وقت پاکستان کو ایک مضبوط داخلی ادارے اور سیاسی استحکام کی ضرورت ہے، اور یہ تب ہی ممکن ہے جب سیاسی جماعتیں اپنے کارکنوں کو عزت دیں، انہیں دھمکیاں دینے کی بجائے ان سے مشاورت کریں اور ان کے حقیقی مسائل پر توجہ دیں۔
فیس بک کمینٹ